کسی بھی ملک میں اداروں کی ترقی و تنزلی میں جہاں
بیوروکریسی کاکردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے وہیں پر سیاسی مداخلت بھی ان کے
نشیب و فراز میں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے بیوروکریسی میں کام کرنے
والے بیورکریٹس اگراپنے فرائض ایمانداری اور اپنی ملازمت کے حصول کے وقت
دیئے گئے حلف نامے کے تحت انجام دیں تو اداروں میں کرپشن کا خاتمہ یقینی
امر ہے اور اگر مملکت خداداد پاکستان کے سیاست دان پڑھے لکھے ایماندار
بااصول اور حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندگی کا شعار اپنالیں تو اداروں کی
ترقی اور ملک و عوام کی خوشحالی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ مگر
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کا باوا آدام ہی نرالا ہے کہ بیوروکریٹس اپنی بے جا
خواہشات کے تابع ہوکرحکومت اورسیاستدانوں کو اپنی انگلیوں پر نچانے کی فکر
میں ہوتے ہیں جب کہ سیاستدان منتخب ہونے کے بعد اداروں اور انتظامیہ کو
اپنا بے دام اور زرخرید غلام بنانے کے چکر میں سرگرداں و پیچاں نظر آتے ہیں
تاکہ اپنے جائز و ناجائز امور کو منشا و مرضی کے مطابق پایہ تکمیل کو
پہنچاسکیں اور پھر کرپشن اقربا پروری رشوت ستانی تبادلے و تقرری معطلی و
برطرفی کا ایک نہ رکنے نہ تھمنے والا طوفان بدتمیزی کا بے ہنگم سلسلہ شروع
ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی پوری مشینری بے لگام اور نظام جام ہوجاتا ہے
عدم توازن عدم انصاف اور عدم مساوات کا دور دورہ دکھائی دیتا ہے اور چند
نام نہاد اشرافیہ کے سوا پورا ملک بالخصوص مڈل اورلوئر کلاس انتہائی متاثر
ہوتی ہے-
ضلع لودھراں میں پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے کے بعد سے کہروڑپکا کو سوتیلا
سمجھ کر اس انداز سے نظر انداز کیا جارہا ہے کہ کوئی ترقیاتی کام کوئی سکیم
کوئی فلاحی کام نہیں ہورہے صرف الیکشن میں ہار جانے والے لوگوں اور ان کے
کارندوں کو اداروں پر مسلط کردیا گیا ہے جنہوں نے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں
ٹانگ اڑانا اور اپنی مرضی کے فیصلے کرانا اپنا اولین مقصد بنا لیا ہے ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرصہ دراز سے اقتدار کے ترسے ہوئے لوگ ہیں جواپنی
محرومی کی پیاس کی شدت کو ایک ہی بار میں بجھانا چاہتے ہیں اور ’احسن طریقے
‘سے بجھا بھی رہے ہیں جس نے عوام کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ سابقہ
حکومت میں سیاسی گرکوں کا تھانہ کچہری میں اتنا عمل دخل نہ دیکھا گیا تھا
جتنی شدومد سے اب نظر آرہا ہے۔کہروڑپکا کو نظر انداز کرنے کی دوسری بڑی وجہ
اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے ایم این اے عبدالرحمن خان کانجو اور ایم پی ایز
ملک شاہ محمد جوئیہ اور جہانگیر سلطان بھٹہ کا منتخب ہونا ہے جن کے پاس کام
نہ کرنے کا ’واضح صاف ستھرا اور ایماندارانہ‘موقف موجود ہے کہ ہم اپوزیشن
میں فنڈز نہیں مل رہے ہماری تو سنی ہی نہیں جارہی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ
اگر ان کی حکومت بھی ہوتی تو بھی انہوں نے یہی کرنا اور کہنا تھا کیونکہ
سابقہ ریکارڈ اس کی واضح طور پر عکاسی کرتا ہے کہ حکومتی عہدوں اور مضبوط
سیاسی گرفت ہونے کے باوجود کہروڑپکاکو بہت سی سہولیات سے وعدوں اور دعوؤ ں
کے باوجود محروم رکھا گیا۔
ہمارے ہاں سیاستدانوں جاگیرداروں وڈیروں اشرافیہ کے ساتھ ساتھ رسہ گیروں
اور بدقماش لوگوں کی دانست اور دانشمندی میں پولیس ڈیپارٹمنٹ پر گرفت ہونا
سب سے بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس محکمے کی بنیاد،تعاون اور آشیرباد سے بڑے
بڑے جغادری لوگوں کو نکیل ڈالی جاتی ہے انہیں بھیگی بلی بنایا جاسکتاہے ضلع
لودھراں اس کی واضح اور روشن مثال ہے کہ جہاں پر محکمہ پولیس کو مکمل طور
پر پولیٹیسائز کرنے کیلئے تقرریوں تبادلوں کا جو سوچا سمجھاسلسلہ شروع کیا
گیا ہے اس کو بغور مشاہدہ اور بنظر غایت دیکھا جائے تو لودھراں کے پورے ضلع
کے نو تھانوں میں ایک یا دو کے علاوہ کوئی انسپکٹر رینک کا ایس ایچ او
تعینات ہے گزشتہ حالیہ تبادلوں کے جھرلو میں ضلع لودھراں سے تمام انسپکٹرز
کو ضلع بدر کردیا گیا اور سب انسپکٹرزکو بطور ایس ایچ اوز تعینات کردیا گیا
جبکہ آئی جی پنجاب کی ہدایات کی روشنی میں تھانوں میں انسپکٹر رینک کے ایس
ایچ اوز کی تعیناتی کی جائے تاکہ تھانے کے معاملات کو بہتر انداز میں
چلاجاسکالیکن خاص سکیم کے تحت ضلع لودھراں میں تعینات کم و بیش تمام
انسپکٹرز کو دوسرے اضلاع میں بھیج دیا گیاکہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا
ناچے گی جس کا واضح مقصد تو یہی نظر آتا ہے کہ چھوٹے رینک کے افسر کو بڑے
رینک کے مقابلے میں ہم نوا بنانا یا رام کرنا آسان ہے اور رعب و دبدبہ بھی
قائم رہتا ہے اور کام نکلوانا بھی آسان ہوجاتا ہے باوجود اس کے کہ ان سب
انسپکٹرزدوچار میں عمدہ ایڈمنسٹریٹرز کی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں جسے
نبھا بھی رہے ہیں لیکن ایک خاص مقام کے بعد پر جلنا شروع ہوجاتے ہیں یا ادب
کا مقام آجاتا ہے۔اسی طرح دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ضلع لودھراں چونکہ
پسماندہ علاقہ ہے اس میں بڑے افسروں کی ضرورت نہ ہے یہاں پر چھوٹے افسروں
سے ہی کام چلایا جاسکتا ہے اورویسے بھی موجودہ سیناریو میں حکم احکام تو
کہیں اور سے آتے ہیں ڈوریاں تو کہیں اور سے ہلتی ہیں ریموٹ کنٹرول تو کسی
اورکے ہاتھ میں ہے تو پھر نوکری کیا اور نخرہ کیا
|