مٹی

یہ کوئی بیس پچیس برس پہلے کی بات ہوگی،جب میں چھ ،سات سال کا تھا۔اس وقت ہندی کی کسی کتاب میں ایک چھوٹی سی کہانی پڑھی تھی۔ پتہ نہیں خود کہانی میں ایسی کوئی بات تھی کہ وہ میرے ذہن کی سطح سے اسی طرح چپکی رہ گئی جس طرح چھپکلیاں درودیوار سے چپکی رہتی ہیں، یا پھر خود میرا طرز زندگی کچھ اس طرح کا تھا کہ میں چاہ کر بھی اس کو بھلا نہ سکا باوجود اس کے کہ میں اپنے ہم جولیوں میں بھلکڑ مشہور تھا۔اور باوجود اس کے کہ میں اس کو بھول جانا بھی چاہتا تھا کیونکہ پشتینی آبروباختگی کے درد کی ایک کسک جو میرے رگ وپے میں لہو کے ساتھ ساتھ دوڑتی تھی ،اس کہانی کے یاد آجانے سے اس میں مزید شدت آجاتی تھی۔

کہانی جتنی مختصر تھی اتنی ہی سادہ بھی تھی، پوری کہانی تو دلچسپ نہ تھی پر اس میں کچھ جملے اور الفاظ ضرور ایسے تھے کہ وہ پہلی بار پڑھنے پر ہی ذہن میں بیٹھ گئے تھے۔اور میں جب جب بھی اپنے دوستوں پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتا تو اس طرح گفتگو کرتا کہ اس کہانی کے تمام خوبصورت الفاظ اور جملے میری گفتگو میں آجاتے۔اس دوران میں ان کی آنکھوں کے پاتال میں جھانکنے کی کوشش کرتا اور اس میں ڈوبتی ابھر تی ست رنگی کمانوں کی جل ترنگ کو اپنے لئے داد سمجھ کر من ہی من میں خوش ہوتا۔

میری دلچسپی کہانی سے زیادہ اس کی ایک تصویر میں تھی ، ایسی تصویریں بچوں کی کتابوں میں عموما ہوا کرتی ہیں۔بارشوں کا موسم تھا،کھیت کھلیان میں جل تھل کا سماں تھا،کالے گھنیرے بادلوں نے سورج کو اپنی اوٹ میں لیا ہوا تھا، بادلوں کے کناروں سے سورج کی کرنیں نکل کر زمین کے اس حصہ پر گر رہی تھیں جو تصویر میں نظر نہیں آرہا تھا، ان سنہری کرنوں نے بادلوں کی ٹکڑیوں کے کناروں کوسونے جیسا روپ دیا ہوا تھا۔ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اور ایک جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہوا نو عمر لڑکا، دونوں اپنے کھیت کی مینڈھ باندھنے میں جٹے ہوئے تھے۔انہیں ڈر تھا کہ اگر یہ مینڈھ وقت رہتے نہ باندھی گئی تو کھیت کا سارا پانی دوسرے کھیتوں میں چلا جائے گا۔دور پگڈنڈی پر ایک لمبے قد کی عورت ان دونوں کی طرف بڑھی چلی آرہی تھی،جن میں سے ایک اس کا حاضر تھا اور دوسرا اس کا مستقبل،پہلا اس کا پتی دیو تھا اور دوسرا اس کا اکلوتا بیٹا، سورج۔

اس کا قد جو پہلے ہی لمبا تھا نئی نارنجی ساڑھی میں اور بھی لمبا لگ رہا تھا،اس کا داہنا ہاتھ زمین کی طرف تھا جس میں پانی کا برتن تھا اور بایاں ہاتھ آسمان کی طرف، جس سے وہ اپنے سر پر رکھی ہوئی پوٹلی کو پکڑے ہوئے تھی،اس میں شاید روٹی تھی۔ یہ بات مجھے پوری کہانی پڑھنے پر ہی معلوم ہوسکی کیونکہ تصویر میں روٹیاں نظر نہیں آرہی تھیں۔ جب وہ عورت ان کے قریب آئی تو وہ دونوں ہاتھ منہ دھوکر اس کے پاس آئے اور اپنی اپنی چپلوں پر بیٹھ گئے ۔اس نے دونوں کو ایک ایک روٹی پر سالن رکھ کر دیا۔اور وہ داہنے ہاتھ سے بڑے بڑے نوالے توڑ توڑ کرکھانے لگے۔

”مٹی کسان کا دھن ہےدھن“ راموں نے اپنے پیر کی مٹی صاف کرتے ہوئے کہا، جو ہوا سے کچھ کچھ سوکھنے لگی تھی۔اور لفظ، دھن کو ذرا بھاری آواز میں دو بار ادا کیا۔

”مگر پاپا ! مٹی کسان ہی کا دھن کیوں ہے۔ باقی لوگوں کا دھن کیوں نہیں ہے؟“ سورج کو دھندلا دھندلا سا یاد آیا کہ جب وہ پانچویں کلاس میں تھا تو اس نے ایک کہانی پڑھی تھی، جس میں مٹی کو کسان کا دھن بتایا گیا تھا ۔اس وقت بھی اس نے ماسٹر جی سے یہی سوال پوچھا تھا مگر ماسٹر جی نے اسے جھڑک دیا تھا اور کلاس کے تمام بچے کھی کھیکھی کھی کر کے ہنسنے لگے تھے۔اس نے کسی کا برا نہ مانا ، نہ ماسٹر جی کا اور نہ بچوں کا مگر دَیا کا اس طرح کھی کھی کرنا اسے پسند نہ آیا۔ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے تھے مگر دَیا کی کھلکھلاہٹ ابھی تک اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی تھی۔یہاں تک کہ اس نے کئی بار سوچا کہ اس سے دوستی ختم کردے اور آئندہ کبھی اس کے ساتھ نہ کھیلے۔اور جہاں تک آموختہ پڑھنے کی بات ہے تو وہ اپنی چچی زاد سے پڑھ لیا کرے گا۔

”یہ سالی جتنی بڑی ہوتی جارہی ہے اتنی ہی گھمنڈی ہوتی جارہی ہے۔“اس کے بعد وہ جب بھی اس کو دیکھتا تو زیر لب بڑبڑاتا۔

سورج اکثر سوچا کرتا تھا کہ ماسٹر جی کے پیر کبھی مٹی میں نہیں سنتے اور نہ ہی وکیل صاحب کے پیر کبھی مٹی میں سنتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب کے پیروں پر اس نے کبھی مٹی دیکھی تھی، حالانکہ اکثر ان کے پاس جانا ہوتا تھا مگر ان کے پاس دھن تو بہت زیادہ ہےاگر مٹی ہی دھن ہے تو مٹی کے بغیر ان کے پاس دھن کہاں سے آیا۔اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ مٹی سب لوگوں کے لے دھن نہیں ہے۔باپو شاید ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں کہ مٹی کسان کا دھن ہے۔بلکہ کسان ہی کا دھن ہے۔اس نے نگاہ اٹھائی، راموں سوچوں کی بے انتہا گہرائیوں میں غرق تھا جیسے وہ کسان نہ ہو بلکہ کوئی بہت بڑا کہانی کار ہو اور دیر سے کسی کہانی کے پلاٹ پر غور کررہا ہوں، یا کسی زنانہ کردار کا سراپا اتار نے کے لیے خوبصورت الفاظ و تشبیہات تلاش کررہا ہو۔اسے لگا جیسے اس نے اپنے باپو کو غم زدہ کردیا ہے۔مگر اب وہ کر بھی کیا سکتا تھا، اس کا مقصد باپو کو غمزدہ کرنا نہیں تھا۔پر ایسا ہوچکا تھا۔

”چل باتیں کم بنا او ر لے یہ پی لے جلدی سے اور سانجھ تک اپنے باپو کے ساتھ کام کرنا کَدی کام کرتے سے کرکٹ کھیلنے بھاگ جاوے سن رہا ہے نا، میں کا کَہت رہی ہوں“
ماں نے مَٹھّے کی لٹیا کا آخری قطرہ گلاس میں نچوڑا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔
”ہاں سن رہا ہوں“ سورج نے مختصر سا جواب دیا۔
ماں جا چکی تھی اور بیٹا ایک بار پھر مٹی کو دھن سمجھ کر تہہ بہ تہہ جما رہا تھا۔
٭٭٭
میں نے اپنی زندگی میں کئی بار خود کو رامو کے بیٹے کی جگہ دیکھا تھا، مٹی کو دھن کی طرح سمیٹتے ہوئے اور مٹی کے دھن ہونے پر سوالات کھڑے کرتے ہوئے۔میں چھٹیوں میں جب بھی گاؤں آتا تو اپنے ابو کے ساتھ گیلے کھیت میں گھس جاتا، میرے چھوٹے چھوٹے پیر نرم اور چکنی مٹی میں ڈوب جاتے، تلووؤں میں گدگدی محسوس ہوتی اور خنکی کی ایک لہر سارے بدن میں کرنٹ کی طرح دوڑ جاتی،کبھی کبھی تو ایسا لگتا جیسے مکھن سے بھرے ٹب میں کھڑا ہوگیا ہوں۔تب میں سوچتا کہ مٹی اگر دھن نہ ہوتی تو اس پر مکھن کا گمان کیسے ہوتا ۔میں اکثر اپنے ابو کے لیے کھانا لے کر جاتا اور خود بھی ان کے ساتھ سبز گھاس پر آلتی پالتی مارکر کھانے کے لیے بیٹھ جاتا۔کبھی کبھی روٹی پر تھوڑا سا سالن رکھ کر اسے پاپڑ کی طرح بنا لیتا اور ایک کچی سی ہر ی مرچ اپنے کھیت سے توڑ کر اس میں رکھ لیتا اور ندی کے گھاٹ پر چلا جاتا۔ندی میں جانوروں کو نہاتے ہوئے دیکھنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔

یہ گھاٹ گاؤں سے ایک میل کی دوری پر تھا اور گاؤں کے گرد کمان کی صورت بہتی ہوئی ندی کا سب سے قریبی گھاٹ تھا۔یہاں اکثر گاؤں کی بوڑھی عورتوں اور جوان لڑکیوں کی بھیڑ رہتی تھی۔وہ یہاں مٹی کھودنے آیا کرتی تھیں،پیلی چکنی مٹی، جسے گوبر کے ساتھ ملاکر گھروں کے کچے فرش پر لیپا جاتا ہے۔جب ساری عورتیں اور لڑکیاں اپنی اپنی ٹوکری پیلی، نرم مٹی سے بھر لیتیں تو ایک دوسری کو سہارا دے کر ٹوکریاں اٹھواتیں۔ آخر میں ایک لڑکی اور ایک ٹوکری رہ جاتی جب اس کو کوئی سہارا دینے والی نہ ملتی تو وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنی آنکھوں پر چھجا سا بناتی اور اونچی آواز میں مجھے پکارتی۔ میں دوڑ کر جاتا اور تیس چالیس کلو وزنی ٹوکری اٹھانے میں اس کی مدد کرتا۔اسے ٹوکری اٹھانے سے زیادہ اپنے دوپٹے اور کپڑوں کی فکر ستاتی تھی ۔حالانکہ میں اس وقت بچہ تھا مگر پھر بھی اسے یہ ڈر ستاتا تھا کہ اس کے کھلے گریبان پر میری نظر نہ پڑجائے۔

”تم اتنی بھاری ٹوکریاں اتنی دور تک کیسے لے جاتی ہو،تمہاری گردن اور کمر میں جھٹکا نہیں لگتا؟“میں اکثر یہ سوال اس آخری لڑکی سے پوچھا کرتا جو ٹوکری اٹھوانے میں میری مدد لیتی تھی ۔مگر ہر لڑکی جواب میں صرف مسکراتی اور اپنے کپڑے سنبھالتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ۔میں اونچے ٹیلے پر جا کھڑا ہوتا اور لہلہاتے کھیتوں کی مینڈھوں پر ایک قطار میں چلتے ہوئے ان لڑکیوں کو دیر تک دیکھتا رہتا۔مجھے ایسا لگتا جیسے انہیں جنت سے خاص اس لیے بھیجا گیا ہے کہ یہ اسی طرح اپنے سروں پر مٹی ڈھوتی رہیں او ر قدرتی حسن میں اپنے فطری حسن کے جلوے بکھیر کر ایک نئے حسن کی قوسِ قزح بناتی رہیں۔

میرے لیے سب سے زیادہ دلچسپ منظر کنگ فشر کے مچھلی پکڑنے کا تھا ،بلکہ یہ کچھ عجیب سا تھا دلچسپ بھی اور کریہہ بھی۔ جب وہ دیر تک فضا میں ایک جگہ پر ٹہر ا رہتا اور پھر اچانک بیس پچیس فٹ کی اونچائی سے پانی میں غوطہ لگاتا اور پھر بجلی کی سی تیزی سے دور بجلی کے تاروں پر جا بیٹھتا تو مجھے عجیب سا سرور آتا ۔اتنی دیر تک میں اپنی روٹی کھانا بھی بھول جاتا اور دوسرے لمحے میں اس کی لمبی سی نوکدار سنہری چونچ کے درمیان پھڑ پھڑاتی ہوئی مچھلی دیکھ کر رنجیدہ ہوجایا کرتا۔

”مگر میں کیا کرسکتا ہوں۔خدا نے دنیا کو اسی طرح بنایا ہے۔میں نہ تو مچھلی کو تحفظ فراہم کرسکتا ہوں اور نہ کنگ فشر کے خلاف پارلیمنٹ میں کوئی قانون پاس کرواسکتا ہوں، جس کی رو سے کنگ فشر کے شکار پر پابندی عائد کی جاسکے۔اور میں یہ سب کرنے کے لیے ابھی بہت چھوٹا بھی ہوں“

میری یہ سوچ رنجیدگی کے احساس کے مضبوط خول کو توڑ دیتی اور میں نسبتا بہتر محسوس کرنے لگتا۔کچھ دیر یونہی سونچوں میں غرق رہتا اور پھر کولہوں کی مٹی صاف کرتے ہوئے اٹھتا اور ایک بار پھر اپنے باپ کے ساتھ بھیگے کھیت میں ننگے پاؤں گھس جاتا۔

مگر دوسرے دن جب میں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پکڑ کر گھر لے جاتا اور ماں انہیں صاف کر کے گرم توے پر بھوننے لگتی تو میرے تمام سینس صرف ایک ہی سمت میں کام کرنے لگتے۔زبان، تالو اور رخساروں کے اندرونی حصوں کے تمام غدود سے پانی کے فوارے پھوٹ نکلتے۔ اس وقت کبھی بھولے سے بھی مجھے مچھلی پر رحم نہیں آتا ۔میں نے کبھی بھی خود کو کنگ فشر کی جگہ محسوس نہیں کیا۔نہ مچھلیا ں پکڑتے وقت ، نہ انہیں بھونتے وقت ا ور نہ ہی چٹخارے لے لے کر کھاتے وقت ۔یہ منظر نہ تو میرے لیے کریہہ تھا اور نہ میں اس سے رنجیدہ خاطر ہوتا تھا۔بلکہ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ گڑیا میری چھوٹی بہن جب مجھ سے کسی بات پر خفا ہوکر الگ تھلگ رہنے لگتی اور مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا تو میں اس کو ببو بھائی کے ہوٹل سے تلی ہوئی مچھلیاں لاکر کھلاتا اور وہ پھر سے پہلے کی طرح چوکڑیاں بھرنے لگتی اور میں محسوس کرتا کہ میرے من کے چمن میں آج پھر کئی سارے نئے پھول کھلے ہیں۔

شاید کہانی میں یاد رہ جانے والی صفت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ ہماری زندگی کے کسی زاوئے کی ترجمان بن جاتی ہے ۔ ”مٹی کسان کا دھن ہے“ شاید اس کہانی کا معاملہ بھی کچھ ایساہی ہے، میں نے اکثر وبیشتر اپنے آپ کو اس کے ایک کردار کی جگہ پر رکھ کر دیکھا ہے۔اور اسی لیے یہ کہانی آج تک میرے ذہن کی شریانوں سے چپکی ہوئی ہے۔

سورج اس کہانی کے بارے میں کیا سوچتا تھا یہ تو نہیں معلوم، پر اتنا معلوم ہے کہ وہ اس کہانی سے خوش نہیں تھا۔رامو نے یہ کہانی اپنے باپ سے سنی تھی اور انہوں نے اپنے باپ سے ۔ بے شمار برسوں تک یہ کہانی اسی طرح سینہ بسینہ چلتی رہی اور پھر پتہ نہیں کب اور کس طرح چٹان جیسے مضبوط سینوں سے نکل کر کتابوں کے کاغذی صفحات پر پھیل گئی۔

”اگر کسان مٹی کو دھن سمجھنے کی غلطی نہ کرتے تو آج ان کی زندگی مٹی کی طرح میلی نہ ہوتی بلکہ کھدر پوش کی زندگی کی طرح اجلی ہوتی، نہ ان کی قمیص پر داغ ہوتے اور نہ دھوتی پر بے شمار سلوٹیں“
”اگر دھن نہ سمجھتے تو کیا سمجھتے؟“ میرے ہم جماعت دوست نے کتاب کا ورق الٹتے ہوئے پوچھا۔
”وہی جو فلسفی سمجھتے ہیں اور“
”اور کون؟“وہ میری باتوں کو مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا اسی لیے بیچ میں بول پڑتا تھا۔
”اور سائنسداں سمجھتے ہیں اور کون؟“ میں نے اس کے استہزائیہ انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے جلدی سے کہا۔
”کیا سمجھتے ہیں وہ؟“ اب وہ میری باتوں میں دلچسپی لے رہا تھا۔حالانکہ اسے پتہ تھا مگر پھر بھی اس نے پوچھا۔وہ مجھے دق کرنا چاہتا تھا۔
”زندگی کے لئے ضروری عناصر میں سے ایک عنصر اور کیا؟ یار تم بھی نرے بدھو ہوپڑھتے وڑھتے تو ہو نہیں اور خالی باتیں بناتے ہواس بار امتحان آنے دو، تب بتاؤں گا۔“میں اس کے استہزائیہ انداز سے زچ ہورہا تھا۔اس لیے میں نے اس کو اس کی اوقات دکھانے کی سوچی تاکہ وہ ایک حد پر رہے۔اور مجھ پر ہنسنے کا سلسلہ دراز نہ کرے۔
”اچھا بند کرو اپنی یہ بکواس چلو بہت پڑھ لیا تم نے مجھے پتہ ہے تم کتنے پڑھتی ہو“
اس نے میرے ہاتھ سے کتاب چھین لی اور زبردستی کھینچتے ہوئے چائے خانے میں لے گیا۔

گزشتہ کچھ دنوں سے میں ترقی پسند ادب کا مطالعہ کررہا تھا اور پتہ نہیں کیوں کسانوں کے بے لباس بچوں کی دھما چوکڑی اور کھیت پر روٹی لے جاتی ہوئی ان کی جوان بہو بیٹیوں کے ننگے پیروں کی دھمک میرے ذہن کے پردوں کومرتعش کررہی تھی۔یہ دھمک اتنی شدید تھی کہ کبھی کبھار مجھے زلزلے جیسا گمان ہونے لگتا تھا۔جس دن سے میں نے جاپان کے زلزلے کے بارے میں سنا تھا تب سے کئی بار مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے وجود کی کھڑکیاں بج رہی ہیں اور میں اپنے آپ میں سے نکل بھاگنے کے لئے کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں ہوں۔

”تم بلا وجہ کنفیوژن پیدا کرتے ہو۔مجھے تو ہر چیز مٹی ہی سے لگتی ہے۔ تمام جاندار اور غیر جاندار چیزیں مٹی ہی سے وجود پذیر ہوئی ہیں۔اللہ نے انسان کو مٹی سے بنایا، مرنے کے بعد اس کو مٹی میں دفن کیا جاتا ہے اور پھر اللہ اسی مٹی سے قیامت کے دن اس کے سالم وجود کو اٹھائے گا۔جتنے خزانے ہیں سب مٹی ہی سے تو نکلتے ہیں۔ اگر مٹی نہ ہوتی تو غلہ پیدا نہ ہوتا۔کیا غلہ کہیں پتھر پر بھی پیدا ہوتا ہے کیا تم ہتھیلی پر سرسوں اگا سکتے ہو،نہیں ناتو پھر کیوں مٹی میں کیڑے نکالتے ہو“ اس نے چائے خانے میں سب سے آخری میز کرسی کا انتخاب کیا اور بیٹھتے ہی شروع ہوگیا۔

”میں تھوڑی نکال رہا ہوں مٹی میں کیڑے ،وہ تو خود ہی نکلتے ہیں مٹی سے“ میرے پاس اس پر مغز تقریر کا کافی وشافی جواب نہ تھا اس لیے میں نے بحث کو تنزومزاح کی راہ پر ڈالنا چاہا۔

”اور دیکھنا جس دن تمہارے اندر کا یہ فلسفی مرجائے گا تو اس کو بھی اسی مٹی میں چھپایا جائے گا۔پھر قیامت کے دن اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کی زبان کو تالو سے لگا کر اس میں ایک لمبی سی میخ ٹھوک دی جائے گی۔ وہ کہے گا یہ کس گناہ کی سزا ہے۔ تو جواب ملے گا کہ تو اسی زبان کے ذریعہ بھولے بھالے لوگوں کو بے وقوف بنایا کرتا تھا یہ اسی کی سزا ہے“

مگر وہ مذاق کے موڈ میں نہ تھا۔وہ پوری طرح سنجیدہ ہوچکا تھا۔اور بحث کرنے میں تو اسے ید طولیٰ حاصل تھا، ایسی ایسی دلیلیں لاتا کہ اچھے اچھے ذہین لڑکے اس کے سامنے لاجواب رہ جاتے۔میری حالت ایسی ہورہی تھی جیسے کتے کے سامنے ڈرپوک بلی کی ہوتی ہے۔

اچانک دروازہ کھلا اور گرم ہوا کا جھونکا میرے چہرے کو جھلسا گیا۔

”بیٹا، دروازہ تو بند کردو“میں کالج کی زندگی کے خیالوں سے باہر آیا اور عینک کے اوپر سے بیٹی کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔وہ تیز دھوپ میں پندر ہ منٹ کا راستہ پیدل چل کر آئی تھی ۔دھوپ کی شدت سے اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔میں اپنی درخواست کا کوئی تاثر ان میں نہیں دیکھ سکا۔آخر کا ر میں خود ہی اٹھا اور دروازہ بھیڑ کر پھر کہانی لکھنے میں مصروف ہوگیا۔

آج سے تقریبا دس سال پہلے جب مجھے اس بات کا پختہ یقین ہوچلا تھا کہ مٹی کسی قیمت پر بھی دھن نہیں بن سکتی تو میں اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر شہر آگیا تھا، چھوڑ کر کیا آگیا تھا بلکہ ناراض ہوکر چلا آیا تھا۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی لاکھ کوشش کی مگر انہیں اپنی مٹی سے اتنا پیار تھا کہ وہ گاؤں چھوڑنے پر کسی صورت راضی نہ ہوئے۔جب میں کہتا کہ مٹی کے بغیر بھی دھن حاصل ہوسکتا ہے تو ان کا سیدھا سا جواب تھا کہ اُس دھن میں مٹی کی خوشبو نہیں ہوسکتی،اگر تم ہماری زمینوں کی ساری مٹی اپنے ساتھ شہر لے جاسکتے ہو تو ہم تمہارے ساتھ جا سکتے ہیں۔مگر یہ ناممکن بات تھی۔اور میں اپنے من میں مٹی کی بوباس سے پاک دھن حاصل کرنے کی امید کی شمع جلائے شہر چلا آیا۔

یہاںمیں نے ایک ماہر نفسیات سے پوچھا کہ جس مٹی نے گاؤں کے لوگوں کو سوائے بھوک اور پیاس کچھ نہ دیا آخر انہیں اس مٹی سے اتنا پیار کیوں ہوتا ہے کہ وہ خون دیدیتے ہیں مگر مٹی نہیں دیتے۔

”ہوں! سوال تو آسان سا ہے پر اس کا جواب خاصہ پیچیدہ ہے در اصل اس کی جڑیں آدمی کے ضمیر اور روح تک اتری ہوئی ہیں اور جب تک ہم اس کے ضمیر اور روح کی کارکردگی سے واقف نہیں ہوجاتے تب تک اس کا جواب ڈھونڈ پانا ناممکن ہے۔اس کا تعلق بڑی حد تک کلچر کے ساتھ نفسیاتی اور فطری وابستگیوں سے بھی ہے اور اس سے بھی زیادہ اس کا تعلق فلسفہ عادت سے ہے آدمی جس خاص افتاد طبع کا عادی ہوجاتا ہے تو وہ اس کے خلاف نہیں جاسکتا۔“اس نے اپنی آنکھوں سے چشمہ اتار کر کتاب پر رکھا اور دونوں ہاتھوں کا حلقہ بناتے ہوئے ایک لمبی سی انگڑائی لی۔

مجھے پتہ تھا کہ اس کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہوگا ۔مگر پھر بھی میں نے اسے عزت دی تھی۔ حالانکہ میرے پڑوسی نے جو اس کے بچپن کے دوست تھے مجھے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ وہ ماہرنفسیات ضرور ہے مگر اسے بھولنے کی بیماری ہے اور اس کی اس عادت سے بھی بہت سارے لوگوں کو شکایت ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب انسانی نفسیات کی بھول بھلیوں کی اندھی گلیوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایک بار میں نے اس سے اپنی یادداشت کی کمزوری کے بارے میں مشورہ کیا تو وہ مجھ سے الٹے سیدھے سوال کرنے لگا۔مثلا، تمہاری شادی کس تاریخ میں ہوئی تھی،بڑی بیٹی کی عمر کتنی ہے اور تمہیں کس طرح کی فلمیں دیکھنا پسند ہیں۔اب آپ ہی بتاؤ کہ ان سوالوں کا یادداشت کی کمزوری سے بھلا کیا تعلق۔ اب وہاں اور زیادہ بیٹھنا بیکار تھا اس لیے میں وہاں سے اٹھ آیا۔اور اس ذہنی الجھن میں اس کی فیس دینا بھی بھول گیا۔

مجھے کہانیوں میں شروع ہی سے دلچسپی رہی تھی ۔میری ماں کہتی ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو اپنی پردادی سے جل پریوں کی کہانیاں بہت شوق سے سنتا تھا۔اور جب وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں تو اپنی دادی ماں سے کہانیاں سننے کی ضد کیا کرتا تھا پر میری ماں نے مجھے آج تک کوئی کہانی نہیں سنائی ان کے پاس کام جو اتنا زیادہ تھا نا اس لیے۔وہ صبح اندھیرے منہ اٹھ جاتی تھیں اور دیر رات تک کام میں جٹی رہتی تھیں۔ میں کہانی سننے کے لالچ میں تھوڑی دیر تک جاگتا رہتا مگر جب مجھے یقین ہوگیا کہ ان کا کام کبھی ختم نہیں ہوگا تو میں نے دیر تک جاگنا چھوڑ دیا اور کہانی سننے کی امید توڑ دی۔

شہر آکر میرے اس شوق کو پر لگ گئے۔جب سے مجھے ایک جانکار شخص نے بتایا تھا کہ کہانیاں لکھنے سے اتنا دھن حاصل ہوتا ہے جتنا مٹی سے نہیں ہوتا۔بس پھر کیا تھا ،مٹی کی بوباس کے بغیر دھن حاصل کرنے کی میری پرانی امید جیسے ایک دم نہال ہوگئی ۔میں گاؤں والوں کو بتانا بھی چاہتا تھا کہ مٹی کے بغیر بھی دھن حاصل کیا جاسکتا ہے۔میں نے اسی وقت فیصلہ لیا اور کہانیوں کو مٹی کے نعم البدل کے طور پر چن لیا۔کہانیاں لکھنے میں نہ پیر مٹی میں سنتے تھے اورنہ کپڑے میلے ہوتے تھے ۔

گاؤں کی عورتوں کے لیے سب سے مشکل کام کپڑے دھونا ہی تھا۔ ہر دوسرے روز انہیں ایک گٹھری کپڑے دھونے پڑتے تھے۔کپڑے دھوتے دھوتے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے،ناخون ٹوٹ جاتے اور ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصہ میں درد کی شدت سے دھواں سا اٹھنے لگتا۔مجھے دھوئیں سے سخت نفرت تھی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میری شریک سفر کی ریڑھ کی ہڈی میں بھی اسی طرح دھواں اٹھے۔میں دیہاتی زندگی کے مختلف پہلوؤوں پر جتنا زیادہ غور کرتا مجھے کورے کاغذ کو کالا کرنے کا فن اتنا ہی زیادہ خوش نما دکھائی دینے لگتا۔

مگر اب جب کہ آٹھ نو سال پر محیط رات ودن کی مسلسل محنت سے میری اپنی ہڈیوں سے دھواں اٹھنے لگا تھا ، یہاں تک کہ مجھے اٹھنے بیٹھنے میں بھی تکلیف محسوس ہونے لگی تو میرا خیال پانی کی طرح بھاپ بن کر سفید بادلوں کے دوش بدوش اڑنے لگا۔اب میں اس جانکار شخص سے ملنا چاہتا تھا تاکہ اس سے پوچھ سکوں کہ اس نے مجھ سے جھوٹ کیوں کہا تھا مگر وہ اس کے بعد آج تک کبھی دکھائی نہیں دیا مجھے اڑتی اڑاتی خبر ملی تھی کہ اچانک ہارٹ اٹیک سے اس کا انتقال ہوگیا، مرنے سے پہلے اس نے عجیب وغریب وصیت کی تھی اس نے کہا تھا کہ مجھے کفن نہ دینا بلکہ میری کہانیوں کی ورق سے میرا تن ڈھانک دینا۔ایسی وصیت کوئی پاگل ہی کرسکتا ہے۔یا پھر وہ جو اپنے فن کی محبت میں پاگل ہوگیا ہو۔ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس کفن کے لیے پیسے ہی نہ ہوں۔اور اس نے اپنی غربت کو چھپانے کے لیے یہ وصیت کی ہو۔ کبھی کبھی میں سوچتا کہ مٹی سے محبت کرنے والوں میں اور کہانی سے محبت کرنے والوں میں آخر فرق ہی کیا رہ گیا۔وہ مٹی پر زندہ رہتے ہیں اور مٹی اوڑھ کر ابدی نیند سوجاتے ہیں۔ یہ کہانیوں کے لیے زندہ رہا اور آخر کار کہانیاں ہی اوڑھ کر ہمیشہ کے لئے سوگیا۔

میں کافی دیر سے بیٹھا بیٹھا لکھ رہا تھا ، سوچا تھوڑا سستا لوں۔ اپنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنے پکڑ کر بمشکل تمام اٹھا اور بالکنی میں جاکھڑا ہوا۔شام کے چار بج رہے تھے دھوپ کی تمازت ذرا کم ہوچکی تھی۔ نیچے گلی میں پھیری والے گھومنے لگے تھے۔سامنے والی چھت پر ایک نو بیاہتا جوڑا نہایت چھچھورے انداز میں مستیاں کررہا تھا، میری آنکھوں میں حیا اتر آئی اور میں اپنے دکھتے ہوئے گھٹنوں کے سہارے واپس اندر آگیا۔

بٹیا اسکول سے لوٹی تھی تو بہت تھکی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔اس نے تیزی کے ساتھ دروازہ کھولا، بیگ ایک طرف میز پر پھینکا اور بستر پر بے سدھ گر گئی۔اسے آئے ہوئے کچھ منٹ ہی گزرے تھے اور اب وہ گہری نیند کے ساتھ سورہی تھی۔اس کی ماں نے بتایا کہ آج اس کے اسکول میں کوئی فنکشن تھا اسی لیے آج وہ دیر سے آئی ہے اور اتنی تھک گئی ہے کہ لیٹتے ہی خراٹے بھرنے لگی ہے۔

”تو ڈریس تو کم از کم تبدیل کرلیتی۔ اب اتنی بھی نہیں تھکی ہوگی کہ ڈریس تک بھی نہ بدل پاتی اور دیکھو موزے تک بھی نہیں اتارے تم اس کو سمجھاتی کیوں نہیں ہو؟“

میں نے بیگم سے کہا اور اس کے موزے اتارنے لگا۔

”ارے بچے ایسے ہی کرتے ہیں۔امی کہتی ہیں کہ آپ جب اتنے چھوٹے تھے تو آپ بھی ایسی ہی حرکتیں کرتے تھے۔“
”سچ“
”تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں“بیگم کے لہجہ سے حقیقت عیا ں تھی۔ یقیناً وہ جھوٹ نہیں کہہ رہی ہوگی۔جب میں بچپن میں اس کی طرح تھا تو کیا یہ بھی بڑی ہوکر میر ی طرح ہوجائے گی۔ضدی ،وہمی، بھلکڑ اور کھوسٹ۔میرے بدن میں جھرجھری پیدا ہوئی۔
” یا اللہ اس کو میری طرح نہ بنانا۔اس کو خوبصورت سی زندگی دینا اور اسے مریم بتول کی پاکیزہ زندگی کے سانچے میں ڈھالنا۔“

میں دل ہی دل میں اسے دعائیں دینے لگا۔ میں اس بات سے پناہ مانگتا تھا کہ کوئی میری طرح ہوجائے اور یہ تو میری اپنی لاڈلی بیٹی تھی۔

میری صحت گرنے لگی تھی، کہانیاں لکھنے میں دلچسپی جو پہلے ہی سے کم ہوچلی تھی اب بالکل ماند پڑگئی تھی۔ دس سال پہلے جس امید کی شمع کا سودا میں اپنے تن من میں سمائے شہر میں وارد ہوا تھا اب وہ سیہ پوش ہوچلی تھی۔اور ایک بار پھر مجھے اپنے کھیت کی نرم چکنی مٹی یاد آنے لگی تھی۔ ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان پتلی پتلی پکڈنڈیوں پر مٹی کی ٹوکریاں سروں پر اٹھائے لمبی قطار میں چلتی ہوئی پریوں جیسا دل فریب منظر دامن ِدل کھینچنے لگا تھا۔میں نے خود کو بہت تھامنے کی کوشش کی مگر تھام نہ سکا اور پھر جب اگلے ماہ کے پہلے سورج کی سہانی کرنیں میرے چھوٹے سے گاؤں کو رنگ ونور میں نہلانے لگیں تو میں اپنے کھیت کی ڈور پر کھڑا اس حسین ودل فریب منظر سے لطف اندوز ہورہا تھا۔

رات اور دن ایک دوسرے کا پیچھا کرتے رہے اور وقت کی چین دھیرے دھیرے پیچھے کی طرف سرکتی رہی۔ مٹی نے دھن اگلنا شروع کردیا اور بوڑھے کسانوں کے بے رنگ خوابوں میں نقرئی رنگ ابھرنے لگا ۔وہ اپنی جوان بیٹیوں کو سرخ جوڑے میں سرسے پیر تک لپٹی ہوئی، مہندی اور زیور سے آراستہ پیر وں کے ساتھ گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے دیکھنے لگے ۔سورج نے ابھی اپنا نصف سفر ہی قطع کیا تھا کہ موسم نے ایک انگڑائی لیاس نے گزشتہ کئی سالوں سے ایسی انگڑائی نہیں لی تھی ۔اس کے جوڑوں کے چٹخنے کی چرچراہٹ سے کبوتروں کا دل تھرا اٹھا۔کسان کھیتوں اور چوپالوں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اپنی کٹیوں میں دبک گئے۔گھنیرے بادلوں نے باہم مل کر موٹی کالی چادر گاؤں کے آسمان پر تان دی ۔اس کالی چادر تلے پرندے بوکھلائے ہوئے بے ترتیب اڑ رہے تھے۔بگلے اور بطخیں وی شیپ میں اڑنے کی اپنی کلا بھول چکی تھیں۔ ابھی شام کافی دور تھی کہ بادلوں کی گھن گرج سے ہم سب کے دل دہل گئے ، گلیوں میں چھجوں کے نیچے دبکے بیٹھے کتے اچھل پڑے ، سال میں بندھے جانور رسی تڑا کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگے۔ میری بیٹی اور بیوی میرے پاس آکر کھری کھاٹ پر بیٹھ گئیں امی ابو اپنے کمرے میں تھے وہ بھی میرے پاس آگئے ہم سب ایک دوسرے کو ابلتی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور پھر ایک دم بادل پھٹ پڑے آسمان کی بلندیوں سے پانی اس طرح گر رہا تھا جس طرح اونچے آبشاروں سے ڈھیر سارا پانی ایک ساتھ گرتا ہے مسلسل تین دن تک کوئی باہر نا جاسکا۔ گاؤں کے کچے مکانات تو تباہ ہوچکے تھے اور جو مکان پختہ تھے وہ بھی خستہ حالت میں آگئے تھے۔گاؤں کے لوگ مقدور بھر ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔ چوتھے دن جب بارش تھمی اور میں گھر سے نکلا تو تباہی کا وہ منظر تھا کہ دیکھا نہ جاتا تھا۔لوگ بدحواسی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگے پھر رہے تھے۔ کسی کا بیٹا غائب تھا تو کسی کا باپ۔کسی کو ماں کی تلاش تھی تو کسی کو بیٹی کی فکر۔

میں کسی طرح گرتے پڑتے کھیت تک پہونچا، مگر وہاں نہ کھیت تھا نہ مٹی او ر نہ دھن سب کچھ بہہ چکا تھا۔ ایک میل دور ہی سے ندی کی پھنکاریں سنائی دے رہی تھیں پانی اس طرح اچھلتا کودتا آگے بڑھ رہا تھا جس طرح پہاڑ سے لڑھکایا ہوا پتھرڈھلان کی طرف بڑھتا ہے۔

میں وہیں ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔اپنے کھیت سے لپ بھر کیچڑ اٹھائی اور اپنے چہرے پر لیپ دییہ شاید اپنی مٹی سے نفرت کا صلہ تھا میں نے دل میں سوچا اور مٹی میں سنی ہوئی آنکھیں کھولیں، میرے چہرے میں آنکھوں کے حلقوں میں دھنسی ہوئی سفید اور کالے رنگ کی گولیاں ہی دکھائی دے رہی تھیں میرے اندر کا فلسفی مر چکا تھا۔مگر اسے مٹی میں دبانے کے لئے نہ مٹی باقی بچی تھی اور نہ میرا ہم جماعت زندہ رہا تھا خدا جانے میں کتنی دیر اسی حالت میں بیٹھا رہا۔

اس حادثہ کو کافی وقت گزرچکا ہے ، زخم دھیرے دھیرے مندمل ہورہے ہیں ۔زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آرہی ہے میں نے خود کو سورج کے کردار کی جگہ رکھ کر دیکھنا چھوڑ دیا ہے اب میں قابیل کی طرح اپنے اندر کے فلسفی کی نعش اٹھائے پھر رہا ہوں۔
mohammad ilyas Rampuri
About the Author: mohammad ilyas Rampuri Read More Articles by mohammad ilyas Rampuri: 22 Articles with 22497 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.