کیا پیرس بھی جہنم جیسا ہی ہے؟

( پوپ کہانی-7 )

وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا، اس وقت جلسہ گاہ میں ایک انتہائی دھواں دھار تقریر جاری تھی اور وہ اسٹیج کے عین سامنے لگے کھمبے جسپر چہار اطراف لاوڈ اسپکرز نصب تھے کے عین نیچے ہی زمین پر بیٹھا تھا۔

تقریر کرنے والے لیڈر کے ایک ایک جملے پر فلک شگاف نعرے بلند ہورہے تھے تو ایسے میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی اپنے خیالات کا تسلسل قائم رکھ سکے۔

تقریر کرتے لیڈر نے اچانک کوئی ایسی بات کہہ دی تھی کہ وہ اپنے خیالات کے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں سے باہر آنے پر مجبور ہو ہی گیا، لیڈر کہہ رہا تھا:۔

"میں یقین دلاتا ہوں کے اگر اس الیکشن میں آپ سب نے مجھے اس حلقہ ِانتخاب اور میری پارٹی کو ملک بھر سے کامیاب کر کے اقتدار میں پہنچا دیا تو میں آپ کے اس علاقے، جو ہمارا قدیمی و پشتینی سیاسی گڑھ ہے، کو پیرس بنادوں گا"۔

اس بات پر جلسہ گاہ ڑندہ باد، آؤے ہی آؤے اور ناتھمنے والیں تالیوں سے گونج اٹھا تھا لیکن اسکے چہرے پر تو بس ایک زہرخند مسکراہٹ ہی رقصاں تھی۔

کوئی20 یا 25 سالوں پہلے ٹھیک اسی جگہ پر ہونے والے اسی سیاسی پارٹی کے جلسے میں وہ ایک ایسا ہی وعدہ پہلے بھی سن چکا تھا، بس فرق اتنا تھا کہ وہ اس وقت صرف 8 یا 10 سال کا ایک بچہ ہی تو رہا ہوگا اور جس لیڈر نے اٌس روز وہاں تقریر کرتے ہوئے وہ وعدہ کیا تھا وہ آج تقریر کرنے والے لیڈر ہی کے سیاسی خانوادے کا سرہراہ تھا۔

اس روز کیئے گئے وعدہ کے بعد وہ سیاسی جماعت متعدد بار اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی اور خود اس علاقے کے عوام کا تو یہ عالم تھا کہ مذکورہ سیاسی پارٹی اپنی تائید و حمایت کے ساتھ اگر بیچ چوراہے پر ایک کھمبے بھی گاڑ دیتی تو وہاں کے باسی اسے بھے اپنا ووٹ دیکر اسمبلیوں میں پہنچا دیتے۔

لیکن اسکا وہ علاقہ جو کہ ویسے ہی شہر ہھر کا سب سے پسماندہ ترین علاقہ شمار کیا جاتا تھا، مزید پسماندگیوں کی تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ پانی، گیس و بجلی، تعلیم، صحت، روزگار اور امن و امان کی بنیادی سہولیات کا تو ویسے ہی فقدان تھا اب دھیرے دھیرے یہ حال ہوا کہ چوری، ڈکیتی،جبری بھتہ وصولی، اغوا برائے تاوان، ٹارگیٹ کیلنگ، منشیات فروشی، گینگ وار و ڈرگ مافیا الغرض وہ کونسا جرم ہے جو اسے علاقے سے منسوب نہ کیا جاتا۔

وہ اکثر سوچا کرتا کہ میں نے اپنے بزرگوں کو کہتے سنا تھا کہ جلد ہمارا علاقہ پیرس بنے والا ہے اور اب میں اپنے بچوں سے یہ ہی کہا کرتا ہوں اور شاید وہ بھی اپنی آنے والیں نسلوں کو یہ ہی دلاسہ دیتے رہینگے لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!!۔

میرے علاقے کو جو بنا دیا گیا ہے کیا یہ اٌسی وعدہ کی تکمیل ہے؟

کیا میرے علاقے اور جہنم میں اب کوئی فرق باقی ہے بھی یا کے نہیں؟

تو کیا پیرس بھی ہمارے اس جہنم کے جیسا ہی ہے؟

اس نے پیرس تو نا دیکھا تھا، ہاں البتہ اپنے علاقے اور خود اپنی زیست کو لحظہ بہ لحظہ جہنم بنتے ہوئے ضرور دیکھا تھا،اسکا جی چاہتا کہ یا تو وہ خودکشی کر لے یا کسی کو مار دے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ خودکشی کرنے والا جہنمی ہے، لیکن اب بھی وہ کونسا جہنم کی آگ میں جھلس نا رہا۔

مفلسی کا جہنم، بھوک کا جہنم، بےروزگاری کا جہنم، بیماری کا جہنم، بےچارگی کا جہنم، حقارت و نفرت کا جہنم اور نہ جانے کتنے ہی انگنت جہنموں کی آگ ہر ہر لمحہ اسے جھلسائے دی رہی تھی۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور آس پاس بیٹھے لوگوں پر سے دوڑتا پھلانگتا اسٹیج کے بالکل قریب پہنچ کر اپنی جیکٹ کے اندر ہاتھ ڈالا اور پھر اگلے ہی لمحے ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور چاروں طرف تقریر کرتے لیڈر سمیت لوگوں کی لاشیں ہی لاشیں بکھریں پڑیں تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!!۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 51636 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.