چیئرمین نیب کی ’’دل دیاں گلاں‘‘․․!

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے اپنے دل کی باتیں عوام سے شیئرکر دیں ۔اچھا ہے کہ اپنی دلی خواہشات کا اظہار کیا جائے۔اسی سے دوسروں کو اندازہ ہوتا ہے کہ حالات کس جانب گامزن ہیں ۔جسٹس (ر)جاوید اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ،پاکستان کو سب سے مقدم رکھا ۔ایسا ہی ہونا چاہیے ۔معاشرہ فرد سے بنتا ہے ۔ہمارے ہاں سارا معاشرہ ہی کرپٹ ہے ۔اگر سزا کی طرف آنا ہے تو ایک پیسے کی چوری ہو یا اربوں،کھربوں کی چوری، چوری ہے ۔جسٹس (ر)جاوید اقبال نے ایک جانب اعتراف کیا کہ صرف اﷲ سبحان تعالیٰ کی ذات ہی بے عیب ہے ورنہ ہر کوئی غلطیوں کا پتلا ہے ۔خامیاں ہر کسی میں ہوتی ہیں ،لیکن اﷲ تعالیٰ نے عقل سے بھی نوازا ہے ۔تاکہ ان غلطیوں کی اصلاح کی جا سکے۔حقیقت بھی یہ ہے کہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو پہچانتے ہوئے اصلاحات کرنی چاہیے ۔

چیئرمین نیب کا یہ مؤقف درست ہے کہ آج ڈالر کی قدر بڑھنے سے ملک پر 100ارب ڈالر کا قرضہ ہو گیا ہے ۔اس میں بڑی بات نہیں کہ قرضہ لیا گیا۔تمام ممالک اپنی ضروریات کے مطابق قرض لیتے ہیں ،لیکن وہ اس کا استعمال درست جگہ پر کرتے ہیں ۔اس پیسے کا آڈٹ درست طریقے سے ہوتا ہے ۔جس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی جاتی ۔پاکستان نے بھی 100ارب ڈالر کا قرضہ لیا،لیکن وہ خرچ کہاں ہوا ․․․اس کا اندازہ کسی کو نہیں ۔حالانکہ نیب ،مقتدر ادارے اس وقت بھی قائم و دائم تھے ۔کیوں سب کی آنکھیں بند تھیں ۔فرد واحد یا چند افراد کچھ نہیں کر سکتے ۔آج صحت کی حالت دیکھیں ،ہسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں ۔ہزاروں مریض ہیں ،لیکن ڈاکٹرز کی تعداد مریضوں کے مقابلے میں نا ہونے کے برابر ہے ۔پاکستان واحد ملک ہے جہاں تڑپتے والدین کے سامنے بچہ جان دے دیتا ہے ،صرف اس لئے کہ کتے کے کاٹنے پر اسے انجکشن نہیں لگا،کیونکہ ہسپتال میں یہ سہولت موجود نہیں ۔ہسپتالوں کی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے ۔تعلیم کا حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے ۔طلباء کے تعلیمی اداروں میں فیس ادا کرنے کے باوجود ان کا مستقبل تباہ کر دیا گیا اور ایسا کرنے والے معاشرے میں اپنے آپ کو اساتذہ کہلواتے ہیں ۔’’وائٹ کالر کرائم ‘‘کی تفتیش مشکل ترین ہے اور پاکستان جیسے ملک کے لئے زیادہ مشکل ہے ۔جہاں کا چیئرمین نیب بھی بے بس ہے ،کیونکہ دنیا کے چھوٹے سے ملک سے بھی اپنے مجرم کو واپس نہیں لا سکتا ۔یہ احتساب کے سب سے بڑے ادارے کا سربراہ اپنی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں ۔

ایسی صورت حال میں نیب چیئرمین کی خواہش ہے کہ انہیں اورزیادہ اختیارات دے دیئے جائیں ۔ان کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب نے چار ہفتے ہوٹل میں قید رکھ کر سب واپس لیا تھا ،میں تین ہفتوں میں یہ کام کر سکتا ہوں۔نیب کو عوام دوست ادارہ کہا اور یہ اپنے دائرہ کار سے نہیں نکلتا۔اب اور کتنے اختیارات چاہیے․․حقیقت یہ ہے کہ جتنے اختیارات ملے ہیں اس میں ہی بہت لوگوں کی زندگیاں برباد ہوئی ہیں ۔چیئرمین حیران نہ ہوں کہ نیب کی کوئی شکایت نہیں ملتی ۔آپ نے اپنے ہی دفتر میں شکایت سیل بنا کر عوام پر احسان تو کر دیا ،لیکن یہ دل کی تسلی سے بڑی بات نہیں ۔عوام باشعور ہو چکے ہے ۔اسی ادارے کو انہیں کے ڈائریکٹر کو شکایت کر کے اپنے گلے میں پھندا ڈالنے کے مترادف ہے ،لیکن پھر بھی عوام تمام زیادتیوں کے باوجود کھلی ہوا میں سانس لینا چاہتی ہے،لیکن نیب انہیں سانس نہیں لینے دے رہا۔یہ ڈرانے دھمکانے اور جبر،زیادتی والی روش تبدیل کرنا ہو گی ۔مہذب معاشرے کی طرح اداروں کو قانون کے مطابق عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔

چیئرمین صاحب؛عوام آپ کی تمام باتوں کو مان لیتی ہے ،لیکن زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں ۔نیب کی بنیاد رکھنے کا مقصد احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنا مقصود تھااور اس کا تجربہ بار بار کیا گیا۔آج بھی یہی ہو رہا ہے۔جب کسی ادارے کی بنیاد ہی بد نیتی پر ہو ۔اس سے اچھے کی امید کرنا ممکن نہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے میں من حیث القوم کرپشن سرایت کر چکی ہے اورکرپشن نے ایک ناسور کی شکل اختیار کر لی ہے ۔نیب اس بیماری کے علاج میں اہم ترین رول ادا کر سکتا تھا،لیکن کیونکہ حکومت اور مقتدر اداروں کا اس پرشکنجا اتنا مضبوط ہے کہ چاہتے ہوئے بھی غیر جانبداری سے کام نہیں کر سکتا۔صرف سیاستدان ہی کرپٹ نہیں ہیں ۔کیونکہ چند سیاستدانوں کو پکڑ کر گھسیٹنا ضرورت ہے ۔جس کی وجہ سے اچھے کام پسِ پردا رہ جاتے ہیں ۔یہ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اپنے ادوار میں ایک دوسرے پر کرپشن کے کیسزبنائے ۔جن کا فیصلہ اب کیا جارہا ہے ،لیکن نیب اس وقت بھی تھا ۔ادارے چیئرمین سے نہیں،سٹرکچر سے چلتا ہے ۔اب اگر اس کی کارکردگی ماضی میں اتنی خراب رہی ہے تو اب یہاں فرشتے بیٹھ گئے ہیں ۔آج زیادہ تیزی سے ملک برے حالات کی جانب بڑھ رہا ہے ۔جہاں کسی کو خبر نہ ہو کہ حکومت کس کی ہے ۔دنیا میں اس مسئلے پر مذاق اڑایا جارہا ہواور واقعی ہی ایسا ہو۔یعنی تاجر برادری چیف آف آرمی سٹاف کے پاس اپنی مشکلات اورمعاملات لے کر جائیں اور آرمی چیف اپنا گھنٹوں قیمتی وقت دے ۔پارلیمنٹ کا وجود بے معنی اور انتظامیہ فعل ہو ۔حکومتی معاملات چل نہ رہے ہوں۔معاشی حالات بحرانی کیفیت اختیار کر چکے ہوں۔وہاں احتساب کا ادارہ چند لوگوں کے پنڈارا بوکس کھولنے میں مصروف ہو ۔حال میں بھی کرپشن رکی نہیں بل کہ بڑھ رہی ہو ۔ملک میں مافیاز پوری آب و تاب سے کام کر رہے ہوں اور قانون کے مطابق کاروبار کرنے والوں کو دشواریاں آ رہی ہوں،وہاں اقتدار کے ایوانوں ،احتساب کے اداروں ،فوج اور عدلیہ کو سوچنا چاہیے کہ ایسے ملک کی نہ صرف معیشت بل کہ سالمیت بھی داؤ پر لگی ہے ۔ہر کسی کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور ان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کردار ادا کرنا ہو گا۔

چیئرمین نیب نے اپنے وقار اور امیج کو بہت بڑے امتحان میں ڈال رکھا ہے ۔نیب شریف فیملی ، زرداری فیملی اور چند سیاسی شخصیات پر عتاب بن کر برستی ہے ،مگر موجودہ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی یکمشت بڑے قرضے لیے اور ان کی پُراسرار طور پر ادائیگیوں پر نیب اور مقتدر ادارے خاموش ہیں ۔یہی خاموشی مجرمانہ فعل ہے ۔اگر ابھی حکمرانوں کی گردن نہیں دبوچی گئی تو مستقبل میں یہ رقم عوام کے خون سے نچوڑی جائے گی ۔یہی پیچیدا سوالات ہیں ۔اصلاح تو تب ہو جب معاملات حل کرنے میں کوئی تبدیلی ہو ۔ماضی میں کرپشن ہو رہی تھی اور نیب ،دوسرے مقتدر اداروں نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں ۔آج بھی کرپشن پورے عروج پر ہے،لیکن ماضی کو کریدا جا رہا ہے ،حال کی کوئی فکر نہیں ۔سب سے پہلے کرپشن کا بند باندھنا ضروری ہے ۔پھر ماضی کی غلطیوں کے کفارے کا سوچا جائے ۔اگر ماضی کے نیب چیئرمین مجرمانہ فعل کر رہے تھے تو آج کے نیب چیئرمین ان سے کچھ مختلف نہیں کر رہے ۔

اس لئے نیب کو اپنے وقار اور امیج کو درست کرنے کے لئے بہت بڑے امتحان میں ڈالنا ہوگا۔نیب چیئرمین جسٹس(ر)جاوید اقبال نے 35برس جوڈیشل میں خدمات دیں ۔انہیں اپنی ’’نیک نامی‘‘کا بھرم رکھنے کے لئے کچھ ’’نیا‘‘کرنا ہو گا۔یعنی کوئی ایسا اقدام کرنا ہو گا جو انہیں پاکستان کی تاریخ میں امر کر دے ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.