مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے

 وہ انتہائی جابر ، ظالم اورسفاک بادشاہ تھا ۔ انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح جان سے مارنا اسکے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اسکا تعلق فرانس کے خاندان نورمینڈی سے تھا۔ وہ نارمینڈی سے فرانس آیا اور اسنے فرانس کے بادشاہ فلپ کی حکومت کو تخت و تاراج کیا ۔ محل میں موجود لوگوں کو گاجر مولی کیطرح کاٹا۔ تمام علاقے کا محاصرہ کرکے ہزاروں لوگوں کا خون بہایا انکی املاک اور فصلوں کو کو آگ لگا کر خاکستر کر د یا گیا ۔ کلیساوں کو آگ لگا کر مسمار کر دیا گیا ۔ مینٹس دیہات کی آبادی کو ختم کرنے کیلئے ان پر چاروں اطراف سے حملہ کر کے انہیں مار دیا گیا۔ اس خون ریزی کے بعد و ہ واپس نارمینڈی پہنچا وہ سخت بیمار ہو چکا تھا انتہائی اذیت میں مبتلا ہے وہ 59 سال کا ہو چکا ہے اسنے انگلینڈ پر 21سال حکومت کی اور نورمینڈی پر 31سال حکومت کی۔ وہ اپنی بیماری کیوجہ سے کافی پریشاں تھا اسکا پیٹ پھول کر کُپا ہو چکا تھا۔ وہ اپنی بیماری کیوجہ سے کافی خوفزدہ تھا۔ وہ اپنی موت کے خوف سے کراہ رہا تھا۔ اسے اپنے تمام گناہ ایک ایک کر کے یاد آ رہے تھے مگر اسکی سننے والا کوئی نہ تھاَ ۔ وہ لوگوں کی منتیں کر رہاتھا کہ وہ اسکے لئے دعا کریں۔ وہ اپنے خدا سے اپنے کیئے ہوئے تمام گناہ اور ذیادتیوں پر شرمندہ ہو ہو کر رو رو کر معافی مانگ رہا تھا۔ اسکے بچنے کی تمام امیدیں ختم ہو چکی تھیں۔اسکی اکٹھی کی ہوئی دولت غریبوں میں بانٹ دی گئی۔ اس کے سونے اور چاندی کے اکٹھے کئے ہوئے تحائف مینٹیس کے کلیسا میں بھیج دئے گئے تاکہ جو تباہی اسکی فوج نے وہاں مچائی تھی اور جن کلیساوں کو آگ لگا کر تباہ کیا تھا انہیں دوبارہ تعمیر کیا جا ئے۔

اس کے تمام ذاتی معالج، پادری، پوپ، کاہن،اور ذہد اء اسکے پلنگ کے ارد گرد جمع تھے۔ مگر اسکا بڑا بیٹا رابرٹ موجود نہیں تھا۔ وہ اپنے باپ کے کئے ہوئے مظالم کے بارے میں خوب جانتا تھا۔اسکی موت قریب سے قریب تر آ رہی تھی۔ مو ت کے خوف سے اسکی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ وہ درد اور خوف سے بلبلا رہا تھا مگر اسکے پاس کھڑے تمام لوگ بے بس تھے۔ وہ خوف سے چلا رہا تھا ۔ ایکدم اسے ہچکی آئی اور اسکی روح اسکے جسد خاکی سے آذاد ھو گئی۔آپا دھاپی میں پاس کھڑے ہوئے تمام لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ اسکے بدن سے کپڑے اتار لئے گئے، اسکے ہاتھوںِ، گلے اور بدن پر پہنے ہوئے سونے اور جواہرات کے زیورات اتا ر لئے گئے اور اب اسکی ننگی لاش گھر کے فر ش پر تنہا پڑی ہوئی تھی۔ وہاں موجود چند لوگوں نے یہ تعین کیا کہ اسکی لاش کو اسکی بیوی میتلڈا فلینڈر کے علاقے سین میں دفنایا جائیگا ۔ یہ وہ خاتون تھی جس سے اسنے پوپ کی خواہش کے خلاف شادی کی تھی۔ وہاں پر اسکے کفن دفن کیلئے کوئی موجود نہیں تھا یہاں تک کہ یہاں کے پوپ نے بھی شرکت نہ کی۔ بڑی مشکل سے لوگ آئے ۔ دفنانے سے پہلے پادری نے اسکے حق میں خدا سے اسکے گناہوں کی معافی کی دعا کی۔ اور لوگوں سے کہا کہ ولیم کو اسکی ذیادتیوں پر معاف کر دیا جائے ۔ اسنے اگر کسی سے کچھ بھی غلط کیا ہو اب وہ موت سے ہمکنار ہوچکا ہے بہتر ہے کہ اسکی ذیادتیوں کو بھلا کر اسے معاف کر دیا جائے۔ وہاں موجود لوگوں میں سے ایک شخص اٹھا اور زوردار ٓواز میں گرجا اور کہا کہ جب ولیم یہاں کا نواب تھا تو اسنے میرے باپ سے زبردستی زمین چھین کر اس پر چرچ تعمیر کرایا تھا اسلئے میں اس پر حق فائق رکھتا ہوں کہ اس ڈاکو کے ہاتھوں لوٹی گئی میرے باپ کی زمین مجھے واپس دلائی جائے ورنہ میں اسکی لاش کو دفن نہیں ہونے دونگا۔ اس شخص کو ساٹھ شلنگ ادا کئے گئے۔ اسی اثناء میں جب دفنانے کی تیاری کی جا رہی تھی ایک دم پخت واقعہ رونما ہوا کہ ولیم کا پھولا ہوا پیٹ پھٹ گیا اور اسکے جسم کا سارا گند باہر آ گیا ہر طرف ایک نا قابل برداشت بدبو پھیل گئی ۔ لوگوں کیلئے سانس لینا مشکل ہو گیا ایسے میں انتہائی جلدی میں لاش کو د فنا دیا گیا۔ ولیم کے چھوٹے بیٹے روفوس ویلیم نے اپنے باپ کی یاد میں ایک یاد گار مقبرہ تعمیر کرو ا یا جس پر ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کا کام کیا گیا 1552عیسوی میں ولیم کی خوشبو ذدہ لاش کو اسکی قبر سے نکال کر اسکا معائینہ کیا گیا اور دوبارہ دفنا دیا گیا۔ چا لیس سال کے بعد اسکے مقبرے کو کیلوینیسٹ بم مار کر تباہ کر دیا گیاَ جس سے اسکی لاش مکمل طور پر تباہ ھو گئی۔ صرف ایک ٹانگ کی ہڈی بچی جسے 1642ء میں نئے تعمیر شدہ مقبرے میں د فنایا گیا مگر یہ بھی فرانس کے انقلاب میں تباہ ہو چکی ہے۔ اب اسکی جائے مدفون پر پتھر کی سلیب رکھی ہوئی ہے جس پر اسکی رزمیہ نظم درج ہے۔’’ وہ جو اپنے وقت کا طاقتور ترین بادشاہ تھا اور زمین کا مالک تھا اب اسکے پاس زمین نہی رہی۔جسکے پاس ہیری جواہرات اور سونے چاندی کے زیورات ہوا کرتے تھے۔ اب وہ محض زمین کے سات فٹ ٹکڑے میں مدفون ہے‘‘۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 136618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.