وزیراعظم اور ضعیف و بیمار ماں

وزیر اعظم عمران خان محمد بن قاسم نہیں بن سکتے تو کم از کم مودی بنیں، بات تو آپ کو عجیب لگے گی مگر زیادہ نہیں چھ سال قبل ماضی میں جائیں( آج انٹرنیٹ کے ذریعے اس واقعات کا تفصیلی ریکارڈ حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے) توآپ کو پتہ چلے گا کہ ایک بھارتی خاتون جس نام دیویانی کھوبراگڈے تھا اس پر امریکہ میں ویزہ فراڈ، ہاؤسنگ اسکیم فراڈ میں وہ اور اس کا باپ بھی ملوث پایا گیا، بھارتی سپریم کورٹ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ دیویانی کھوبراگڈے کو قواعد میں ترمیم کرکے بھارتی خارجہ سروس میں اپنی پسند کی پوسٹنگ دی گئی تھی اور 2013 ء میں بھارت واپسی کے بعد بھارتی وزارت خارجہ نے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر اس کی بیٹیوں کے دہری شہرت پر حامل امریکی پاسپورٹ ضبط کرلئے تھے ۔ ان تمام واقعات کے باوجود موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جب اپوزیشن میں تھا تو اس نے اپنی قوم کی بیٹی دیویانی کھوبراگڈے کی محض جامہ تلاشی لینے پر اپنی حکومت اور قوم کے ساتھ مل کر ایسا جارحانہ رویہ اپنایا تھا کہ جس کے باعث امریکی حکومت اسے رہا کرنے پر مبتلا ہوگئی تھی۔دیویانی کھوبراگڈے نے امریکہ میں رہتے ہوئے امریکی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی جس کے باعث امریکی پولیس نے اس کو گرفتارکرکے اس کی جامہ تلاشی لی تھی جبکہ پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے نہ کوئی جرم کیا تھا، نہ اس پر امریکی عدالت میں کوئی جرم ثابت ہوا تھا مگر پھر بھی وہ 17 سالو ں سے قید ناحق بھگت رہی ہے۔ عمران خان اپنے اندر ہمت اور جراء ت پیدا کریں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے قوم کی عزت و غیرت ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کی بات کریں۔عمران خان نے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران ایک انٹرویو میں فخر سے کہا کہ میں نے امریکی صدر سے ملاقات میں امداد دینے پر بات نہیں کی ۔ خان صاحب ، پاکستانی قوم اپنی بیٹی عافیہ کے اغواء 2003 ء سے اپنے حکمرانوں سے ’’ڈالر نہیں ،عافیہ ‘‘ یعنی ہمیں ڈالر نہیں اپنی غیرت، عزت اور ناموس عافیہ چاہئے کا مطالبہ کررہی ہے۔جب آپ خود اپوزیشن میں تھے تو عوام کے اس نعرے ’’ڈالر نہیں ، عافیہ ‘‘ سے نا صرف مکمل طور پر متفق تھے بلکہ اس نعرے کے ہمنوا بھی تھے۔ مگر جب قوم نے آپ کو وزیراعظم بنادیا اور موقع آیاتو آپ ے ڈالر تو رد کردیئے مگر بیٹی واپس نہیں مانگی۔ یہ اس عزت اور غیرت کا اظہار تو نہیں ہواجس کا آپ اپوزیشن میں رہتے ہوئے دعویٰ کرتے تھے۔ ذرا سوچئے ! اگر ترک حکمران طیب اردگان اور ملائیشین حکمران مہا تیر محمد کی قوم کی بیٹی امریکی جیل میں ہوتی تو کیا وہ پاکستانی حکمرانوں کی طرح خاموش رہتے؟ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرح تحریک انصاف کی حکومت تو عوام کو مایوس نہ کرے اور ملک میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ خانوں کا سلسلہ ختم کرے ۔ کیا آپ اپنی وزارت خارجہ کو اتنا بھی مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ بستر علالت پر موجود ضعیف والدہ اور بچوں سے عافیہ کی فون پر بات ہی کرا دیں؟ یہ کیسی تبدیلی ہے کہ آپ دوسری مرتبہ امریکہ کے دورے پرگئے اور آپ کے پاس قوم کی معصوم اور مظلوم بیٹی کے لئے وقت ہی نہیں تھا؟ عمران خان صاحب ا ٓپ کو اب عافیہ کا نام لیتے ہوئے 11 ہزار وولٹ کا کرنٹ کیوں لگ جاتا ہے؟ اس ملک میں بدنام جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس5 قتل کر کے چلا گیا۔جس پر آپ اور آپ کی جماعت تحریک انصاف نے زبردست احتجاج کیا تھا۔ کرنل جوزف نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے ایک پاکستانی شہری کوکچل کے چلا گیا۔ کئی دوسرے جاسوس اور غدار مفت میں امریکہ کے حوالے کر دیئے گئے۔ قوم کی بیٹی عافیہ کی وطن واپسی کے سنہرے مواقع یکے بعد دیگر گنوائے گئے۔ کسی روز غدار وطن شکیل آفریدی کوبھی آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر امریکی اپنے ملک لے جائیں گے۔ کیا آپ کو قوم سے کئے گئے وعدے یاد دلانے کی ضرورت ہے؟ کیا آپ کو اپنی انتخابی تقاریر، پہلی پریس کانفرنس اور لاتعداد ٹاک شوز میں عافیہ کی وطن واپسی کے مطالبے اور دعوے یاد دلانے کی ضرورت ہے؟تحریک انصاف کی حکومت کے 400سے زائد دن گذرگئے ایک بار بھی فون پر عافیہ کی اپنے گھر والوں سے بات نہ کرائی گئی۔ حاضر سروس چیف جسٹس کا بیٹااغوا ہوا اور مل گیا۔ سابق گورنر کا بیٹا اغواء ہواا ور مل گیا۔ سابق وزیر اعظم کا بیٹا اغوا ہوا اور مل گیا لیکن قوم کی معصوم بیٹی چونکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور اعلی تعلیم یافتہ ہے اس لئے نہ مل سکی۔مودی سے سبق حاصل کریں۔ بھارت اپنی ایک ڈپلومیٹ کی ملازمہ کے گرفتار ہونے پر امریکہ کے سامنے ڈٹ گیااور اپنی بیٹی کو واپس لایا۔ غریب کیلئے الگ اور امیر کے لئے الگ قانون کا سلسلہ کب ختم ہو گا ؟ وزیر اعظم عمران خان خود میں ہمت و جراء ت پیدا کریں۔ عافیہ سے جیل میں ملاقات کر کے دست شفقت رکھیں اور کسی کو بھی خاطر میں نہ لائیں بلکہ قوم کی بیٹی کو وطن واپس لائیں تا کہ اپنے ملک کی بیٹی اور کشمیر کی عافیاؤں کے ساتھ مظالم کے سامنے دیوار کھڑی کی جاسکے۔ کیا ڈاکٹر عافیہ کی بستر علالت پر بیٹی کے انتظار میں بیٹھی ضعیف والدہ کے کوئی حقوق نہیں؟ ساڑھے تین برسوں سے ایک ضعیف والدہ کی اپنی بیٹی سے جیل سے فون کال تک نہیں کرائی جا رہی۔ کیا وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو بھی ضعیفوں کے حقوق نہیں معلوم کہ امریکہ کے دو دوروں کے دوران نہ عافیہ سے ملے اور نہ روانگی پر ضعیف و بیمار والدہ کو تسلی دی؟ کیا آپ ڈاکٹر عافیہ پر مظالم کا تذکرہ اپنی انتخابی تقاریر اور ٹاک شوز میں صرف عوام کی ہمدردی اور ووٹ حاصل کرنے کے لئے کرتے تھے؟ کشمیر کے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں اپنے سامنے اپنے بچوں کو خاک اور خون میں تڑپتا دیکھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ ضعیفوں کا عالمی دن تو مناتی ہے مگر اسے ضعیفوں کے حقوق نظر کیوں نہیں آتے؟ امریکہ ، اسرائیل اور بھارتی حکومتوں کی ملی بھگت پر مبنی پالیسیاں دنیا بھر کے امن کے لئے خطرہ بن چکی ہیں۔ دہشت گردی کی عالمی جنگ کا شکار معصوم پاکستانی قوم کی ذہین بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایک سازش کے تحت بنایا گیا۔ عافیہ کیس پر امریکی عدالتوں میں انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اب بھارت کشمیر میں انسانی حقوق اور ضعیفوں کے حقوق کو بری طرح پامال کر رہاہے۔ اقوام متحدہ اگر قیدیوں کے حقوق کا دفاع نہیں کر سکتی ، اقوام متحدہ اگر بوڑھوں کے حقوق اور قراردادوں کا دفاع نہیں کرسکتی تو اسے ختم کر دیا جائے۔2013 کی انتخابی مہم میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بغیر جلسہء عام منعقد نہیں کرتے تھے ۔ آخر میں پھر یہی سوال ہے کہ کیا عافیہ اور عافیہ کی ضعیف والدہ کے ساتھ ان کی ہمدردی صرف قوم سے ووٹ لینے اور وزارت عظمی تک پہنچنے کیلئے تھی؟ گذشتہ دنوں ڈاکٹر عافیہ کی بیمار ماں عصمت صدیقی کی عیادت کیلئے ان کی رہائش گاہ پر جانا ہوا۔ بستر علالت پر بیماری کی وجہ سے ایک کمزور اوردکھی ماں کے حوصلہ کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ ملک واقعی اﷲ کی ایک نعمت ہے جس کی قدر حکمران اور بااختیار طبقہ بالکل ہی نہیں کررہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی بلند ہمت والدہ نے عیادت کے موقع پرکشمیر کی موجودہ صورتحال پر حکمرانوں کے نام دو اشعار کی صورت میں جو پیغام دیا وہ پیش خدمت ہے...
جھک کر سلام کرنے میں کیا حرج ہے مگر
اتنا نہ سر جھکاؤ کہ دستار گر پڑے
دشمن بڑھائے ہاتھ تو تم بھی بڑھاؤ ہاتھ
ہاں یہ نہ ہو کہ ہاتھ سے تلوار گر پڑے
 

Altaf Shakoor
About the Author: Altaf Shakoor Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.