بابا رحمت اﷲؒ کے سالانہ عرس پر تحریر
فہد فاروق
نیکی اور بدی کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود انسان۔تخلیقِ آدمؑ ہوئی
اور ملائکہ کو آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ تمام ملائکہ نے حکم خدا
وندی کو بجا لاتے ہوئے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا جبکہ ابلیس نے سجدہ کرنے سے
انکار کیااور یوں فرمانبرداری اور نافرمانی کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہوا
جو تا قیامت جاری رہے گا۔ ابلیس کے انکار سے دو راستے وجود میں آئے ایک
صراط المستقیم جبکہ دوسرا صراط الضالین ۔ایک رحمن کا راستہ جبکہ دوسرا
شیطان (گمراہی)کا راستہ۔ حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار پر ابلیس راندہِ
درگاہ ہوا اور شیطان قرار پایا۔شیطان نے بارگاہِ ایزدی سے مہلت چاہی کے وہ
بنی نوع انسان کو گمراہ کرتا رہے گا۔اﷲ تبارک و تعالیٰ نے مہلت عطا کی اور
ارشاد فرمایا کہ جو میرا بندہ ہو گا وہ کبھی تمہارے بہکاوے میں آکر گمراہ
نہیں ہوگا۔
رحمن و رحیم رب نے اپنے بندوں کو شیطانِ لعین کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے
اپنے برگزیدہ بندوں کو لوگوں کی رہنمائی کے لئے دنیا میں بھیجا یہ بندگانِ
خدا انبیاء و رسل بنا کر مبعوث کیے گئے ۔ ہر نبی و پیغمبر نے لوگوں کو واضح
طور پر صراط مستقیم اور صراط الضالین میں فرق سمجھایا اور لوگوں کو رب ِ
رحمن کے راستے پر چلنے کی تاکید فرمائی نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ نبی آخر
الزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ پر آکر مکمل ہوا ۔آپ نے نور ہدایت سے امت کو
گمراہی کی تاریکیوں سے نکالا اور اُسے صراط مستقیم پر گامزن کیا ۔ ۱۴۰۰ سو
سال قبل جب نبوت کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا تو یہ ذمہ داری امت کے صلحاء اور
اُن بندگانِ خدا کی سپرد ہوئی جنہوں نے اپنی زندگیوں کو حکمِ خدا وندی کا
تابع کر لیا جنہوں نے نہ صرف خود کو شیطانِ لعین کے شر سے محفوظ کیا بلکہ
اپنے آس پاس لوگوں کو بھی گمراہی کے راستوں سے نکال کر ہدایت اور کامیابی
کے راستے پر چلایا۔
جیسا کہ مومنین کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی کی
تلقین اور بدی کے کاموں سے روکتے ہیں۔ ان ہی چنیدہ انفاس میں حضرت بابارحمت
اﷲ المعروف پیر آف دھنکہ شریف بھی اﷲ کے ان ولیوں میں سے ہیں جنھوں نے
مملکتِ خداداد کی بقاء اور استحکام کے ساتھ ساتھ عوامی فلاح و بہبود کا
بیڑا بھی اٹھایا۔ حضرت بابارحمت اﷲ ؒدین مبین کی سرفرازی اور مملکت خداداد
پاکستان کی سر بلندی کے پیچھے ایک ایسے رجل عظیم کا نام ہے جو نہ تو کوئی
سیاسی لیڈر تھا،نہ کسی حکومتی عہدے پر متمکن وزیر۔ یہ دنیوی ہنگاموں سے دور
، تن تنہاپہاڑی کی ایک چوٹی پر بیٹھا اک بے نیاز درویش صفت مردِ قلندر تھا
جس کے روحانی تصرف میں تسخیر کے سارے رنگ موجو د تھے ۔اﷲ کا یہ بندہ ورکنگ
آف اﷲ ،کا مظہر تھا۔
مرشد بابا کا تعلق مانسہرہ کے ایک ایسے زمیندار گھرانے سے تھا جس کا کوئی
صوفیانہ پس منظر نہیں ۔ بابا جی ؒ اپنے اس روحانی منصب کو اپنی والدہ
محترمہ کی خدمت کے مرہون منت قرار دیتے ہیں۔ جن کے علاج کی غرض سے آپ ان کو
کئی کئی کوس کندھوں پر اٹھا کرمعالج کے پاس لے جاتے رہے۔ اسی خدمت کا صلہ
تھا کہ اس عظیم المرتبت ماں نے آپ کو یہ دعا دی ’’ خدایا میرے بیٹے کی
زندگی کو اس پھول کی مانند بنا دے جس کی خوشبو چار دانگ ِعالم مہکے، اور
کبھی ختم نہ ہو‘‘۔پھر یوں ہوا کہ اُس عظیم ماں کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا
کیا گیا اور خوشبوؤں نے اس عظیم بیٹے کو اپنے جلومیں لے لیا۔ لذتِ آشنائی
کی تشنگی میں آپ داتاکی نگری لاہور آئے ، حضرت بڑے میاں ؒ سرکار کے ہاں
زانوئے تلمذطے کیے اور قریباََ دس سال تک حضرت داتاگنج بخشؒ کے فیضان سے
دامن مراد بھرتے رہے ۔ کراچی میں حضرت عبداﷲ شاہ غازی ؒ سے بھی برکات
سمیٹیں ۔ بعد ازاں اپنی والدہ ماجدہ کے گاؤں دھنکہ شریف کو اپنا مستقل مسکن
بنایا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس جنگل نما جگہ پر اﷲ کی نعمتوں کا ایسا نزول
شروع ہو ا کہ وسائلِ رسد و نقل خود بخودپہنچ گئے ۔عقیدت مندوں ، ارادت
مندوں اور زائرین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلاگیا۔ ان میں بادشاہ
بھی تھے، اور وزیر بھی۔ جرنیل بھی تھے اور عہدیدار انِ سلطنت بھی۔ امیر بھی
تھے اور غریب بھی۔ خاص بھی تھے اور عام بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں وسیع و
عریض مسجد اور اس سے ملحقہ بچے اور بچیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ جدید طریقہ
ہائے تعلیم سے آراستہ مدرسے قائم ہوئے۔ لنگر خانے وسیع اور آنے والوں کی آؤ
بھگت میں اضافہ ہو تا گیا۔
حضرت بابا رحمت اﷲؒ ایک صاحب نظر، ولیِ کامل اور قلندرِ دوراں کا درجہ
رکھتے ہیں ۔بابا جی کا کھانا پینا نہ ہونے کے برابر تھاصبح کے وقت روٹی کے
چارنوالوں، عصر کے وقت قہوے کے چند گھونٹوں اور گاہے گاہے پانی کا پیالہ
پینے کے علاوہ ان کی کوئی خوراک نہ تھی۔ اس کے باوجود قریب نصف صدی تک رو
بصحت رہنا ایک معجزہ تھا۔ تقریباََ نصف صدی تک آپ ایک ہی پتھر پربراجمان
رہے۔ آپ کے بال اس طرح نظر آتے تھے جیسے ابھی تازہ تازہ کنگھی کی ہو۔ جسد
انور سے ہمیشہ خوشبوئیں آتی تھیں۔ آپ پہاڑی کی جس چوٹی پر جوا گر ہوئے وہاں
قریب قریب پانی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ مصاحبوں کو بہت دور سے پانی لانا
پڑتا تھا۔ ایک دن کسی نے کہا کہ سرکار دعا فرمائیں کہ پانی قریب ہی نکل
آئے۔ آپ نے کہا، اچھا، میں پتھر پھینکتا ہوں، جہاں جا کے رکے گا وہاں کنواں
کھود لینا۔ گویا آپ کے حکم کی تعمیل ہوئی اور اس مقام پر کنواں کھودا گیا
جو آج بھی تشنہ لبوں کو سیراب کر رہا ہے ۔
آپ کے پاس بیمار ، بے روزگار ، مقدمات میں پھنسے اور مشکلات میں گھرے گویا
ہر طرح کے مسائل سے دوچار لوگ حاضر ہوتے ، ہر کوئی اپنی مشکل بتاتا اور آپ
ہر آنے والے کی ایسی تشفی و تسلی فرماتے کہ وہ شاد کام لوٹتا تھا۔ آپ کی
نگاہ فیض رساں سے ہری پور کی مشہور خوبرو گانے اور ناچنے والی نہ صرف اپنے
پیشے سے تائب ہو ئی بلکہ باقی ماندہ زندگی اسلام کی تبلیغ اور ترویج میں
گزار دی۔ باباجی اہل ِ مجمع کے سامنے بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھا کر اس
طرح دعا کرتے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے۔ ان کی دعا پوری امت مسلمہ اور
خاص طور پر پاکستان کی سلامتی اور سربلندی کے لئے ہوتی۔ ان کی دعا میں کچھ
بھی اپنی ذات کے لیے نہ ہوتا۔ یوں لگتاتھاجیسے یہ مردِ درویش اپنے سامنے
پوری دنیاکانقشہ، اقوامِ عالم اور بالخصوصِ امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا
منظردیکھ کر رنجیدہ ہے۔ آپ اپنے ملک کی خوشحالی کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے۔
آپ لوگوں کو نماز اورروزے کی پابندی کی تلقین کرتے،نیک کاموں کی ترغیب اور
برے کاموں سے اجتناب کا حکم د یتے ۔ آ پ کی زبان مطہرہ سے نکلا ہوا ایک ایک
لفظ حقوق العباد اور حقوق اﷲ کی ادائیگی کی تلقین کا مظہر ہوتا تھا۔ اپنے
بڑے بوڑھوں، ماں باپ اور اساتذہ کی خدمت کا درس اور بچوں کے ساتھ شفقت سے
پیش آنے کی نصیحت آپ کی تاکیدات میں شامل تھا۔
بابا جی اپنے مقام و مرتبے کے پیش نظر کوئی بڑی ڈیوٹی سر انجام دینے پر
مامور تھے ۔ اس ڈیوٹی کا براہ راست تعلق اسلام کے قلعے ، مملکت خدادا
پاکستان سے تھا۔ اپنی دعاؤں میں بارہافرماتے کہ اﷲ پاکستان کو سلامت رکھے۔
۱۹فروری۲۰۰۸ء کو آپ کو ہلکا سا بخار آیا اور دو دن بعد آپ نے اس فانی دنیا
سے کوچ کر کے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناﷲ واناالیہ راجعون۔ ملک کے طول و
عرض سے آئے ہوئے کم و بیش ۵۰ ہزار افراد نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
آپ کی لحد اسی پتھر کے نیچے بنائی گئی جس پر ساڑھے چار دھائیاں پہلے آپ
براجمان ہوئے تھے۔
ٓٓٓٓ
آپ کے وصال با کمال کے بعد آپ کے فرزند صاحبزادہ عبدالستار نے بابا جی کے
سلسلہ کو انتہائی احسن انداز سے آگے بڑھا رہے ہیں ۔ عاجزی و انکساری سے
متصف صاحبزادہ عبد الستار بابا جی کے خلیفہِ مجاز ہونے کے ساتھ ساتھ آستانہ
عالیہ کے مہتمم اور سر پرست اعلیٰ بھی ہیں۔ آپ تکبر اور بڑائی جیسی الائشوں
سے پاک انتہائی سادہ طبیعت انسان ہیں۔ خدمت کو عظمت جانتے ہوئے خود اپنے
ہاتھ سے لوگوں میں لنگر تقسیم کرتے اور اپنے مہمانوں کی آؤ بھگت میں مصروف
رہتے ہیں۔ مسجد کے انتظامات کے ساتھ ساتھ بچے اور بچیوں کی تعلیم کی خاطر
الگ الگ مدرسوں کا انتظام بھی احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔
اس سال حضرت بابا رحمت اﷲؒ کا عرس مبارک 11تا 13اکتوبر بروز جمعہ ، ہفتہ
اتوار کو دھنکہ گاؤں ضلع مانسہرہ میں عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے جس
میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کر کے فیضان و برکات سے مستفید ہوتے ہیں۔
|