مردِ قلندر، بابارحمت اﷲ ؒ ۔ پیر آف دھنکہ شریف

عمران علی

حضرت واصف علی واصف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’فقیر وہ ہے جس کو رب کُل کائنات کا اختیار دے تو وہ اسے بنا کسی کمی بیشی کے اپنے مالک کو لوٹا دے‘‘

یعنی اُس بندہ خدا کو اپنے رب کی رضا میں اس حد تک راضی رہنے کی توفیق عطا ہوتی ہے کہ وہ تمام تر اختیارات کے باوجود بھی اپنے رب کی رضا میں راضی رہتا ہے اور اُس کے حضور اپنی تمام خواہشات کی نفی کرتا چلا جاتا ہے ۔ وہ اُسی چیز کو پسند کرتا ہے جو اُس کے محبوب رب کی چاہت ہوتی ہے۔ اُسے ہر اُس چیز سے محبت ہوتی ہے جس سے اُس کا رب محبت کرتا ہے ، وہ ہر چیز سے دور رہتا ہے جس سے اُس کا رب ناراض ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے رب کی فرمانبرداری میں اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اﷲ اپنے اس بندے کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ فرما دیتا ہے ’’ہاتھ ہے اﷲ کا بندہ ء مومن کا ہاتھ ‘‘۔وہ رب بندے کی زبان کو اپنی زبان کہہ دیتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو باتیں میرا یہ بندہ کرتا ہے یہ وہ نہیں کرتا بلکہ یہ میں بولتا ہوں
گفتہ او گفتہ اﷲ بود
گرچہ از حلقوم عبد اﷲ بود

اﷲ جل شانہٗ کے ان محبوب بندوں میں ایک نام حضرت بابا رحمت اﷲ المعروف بابا دھنکے والی سرکارؒ کا ہے ۔ آپ 1930؁ء میں جسگراں میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد محترم کا اسم مبارک محمد اکبر ؒ ہے۔ محمد اکبر ایک زمیندار تنولی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور ایک درویش صفت انسان تھے ۔ حضرت بابا جی سرکار نے مخلوق خدا کی بھلائی کو اپنا مقصد حیات بنایا آپ دن بھر مخلوق خدا کی خدمت میں گزارتے اور رات اپنے رب کے حضور قیام و سجود میں بسر کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بہت جلد دور دور تک آپ کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا۔ آپ اس دنیاوی شہرت سے بے نیاز اپنے مہمانوں کی خدمت کرتے، مسافروں کے لئے پانی کی سبیل لگاتے اور اُن کی ہر ممکن مدد فرماتے تھے۔ آنے والے ہر شخص کو نماز کی تلقین کرتے اور اﷲ نبی وارث کی دعاؤں سے رخصت فرماتے تھے۔بابا جی سرکارؒ 1967ء میں دھنکہ تشریف لے آئے ۔ اور اسی مقام کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں سے آپ نے ’’دھنکے والی سرکار ‘‘کے نام سے شہرت پائی ۔ آپ قلندرِ دوراں ، مخدوم زماں ،کے القابات سے سرفراز ہوئے ۔آپ نے دھنکے کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر اپنا مسکن بنایا اور پھر اسی پر مستقل قیام کیا۔ آپ کے عقیدتمندملک کے طول و عرض میں کثیر تعداد میں موجود تھے۔

اہل اﷲ کے طریق پر چلتے ہوئے آپ اپنے پاس آنے والوں کی ہر طرح سے دلجوئی فرماتے ہر سائل کا دامن مراد بھرتے اور اُس کو اپنے رب کے ساتھ جوڑتے اور یہی اُن کا شیوا اور اصل مقصود تھا ۔ دنیاوی طمع و لالچ سے اُن کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ بڑے بڑے جرنیل ہوں یا کار مملکت چلانے والے وزراء، سربراہ مملکت ہوں یا کوئی عام آدمی، سب ہی آپ کے سامنے مؤدب انداز میں حاضر ہوتے۔ آپ سب سے یکساں محبت فرماتے ہر کسی کو اُس کی مراد ملنے کی دعا فرماتے اور آپ کا رب کبھی آپ کی دعاؤں کو خالی نہ لوٹاتا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپ کی دعاؤں سے متلاشیء اقتدار کو اقتدار عطا کیا گیا ، طالب اولاد کو رب نے اولاد جیسی نعمت عطا کی ، بیروزگاروں کو روزگار عطا ہوئے اور بیماروں کو بارگاہ ایزدی سے شفا یابی کی نعمت میسر آئی ۔آپؒ ہر آنے والے کو اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے کا درس ضرور دیتے اور یہی اولیاء کاملین کا طریق ہے ۔وہ کبھی کسی امر کی نسبت اپنی جانب نہیں کرتے وہ ہمیشہ خود کو ایک عاجز انسان کہتے ہیں اور مخلوق کو خالق سے ملانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔

دھنکہ شریف آمد کے ساتھ ہی آپ نے وہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایک وسیع و عریض جامع مسجد اور پھر اسی میں ایک اسلامک کمپلیکس بھی تعمیر کیا گیا جہاں بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائی جا رہی ہیں۔ مخلوق خدا کی دین سے رغبت اور تعلیم و تربیت کے ساتھ اُن کے لئے لنگر کا خصوصی اہتمام کرنا بھی مردان خدا کا شیواہ رہا ہے اس مقصد کے پیشِ نظر ایک مستقل لنگر بھی موجود ہے جہاں آنے والے ہر خاص و عام کو لنگر پیش کیا جاتا ہے ۔لنگر کے اتنے وسیع انتظام کے باوجود خود انتہائی سادہ خوراک وہ بھی نہ ہونے کے برابر ایک وقت میں چند نوالے روٹی اور بوقت عصر قہوہ آپ کی دن بھر کی خوراک ہوا کرتی تھی۔

حضرت بابا جی سرکار ؒ نے اپنی اس حیاتِ مستعار کو مخلوق خدا کے لئے وقف کیے رکھا اور شب و روز فقط اﷲ کی خوشنودی کے طلبگار رہے ۔ 21فروری2008ء بروز جمعرات آپ کو وصال حق کا پیغام آیا ۔ چہرے پر طمانیت کے آثار نمایا ں تھے رخِ مبارک نور سے جگمگا رہا تھا ۔ آپ نے اپنے صاحبزادے ، حضرت صاحبزادہ عبد الستار صاحب کو پاس بلایا اور فرمایا’’ہماری ڈیوٹی ختم ہو چکی اور آپ کی ڈیوٹی شروع ہوگئی‘‘اس کے بعد ذکر الٰہی کرتے آپ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ دھنکہ شریف میں آپ کی چلہ گاہ پر ہی آپ کی آخری آرام گاہ تعمیر کی گئی۔ جو مرجع خاص و عام ہے اناﷲ واناالیہ راجعون۔ ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے کم و بیش ۵۰ ہزار افراد نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
ٓٓٓٓ
آپ کے وصال با کمال کے بعد آپ کے فرزند صاحبزادہ عبدالستار ، بابا جی کے سلسلہ کو انتہائی احسن انداز سے آگے بڑھا رہے ہیں ۔ عاجزی و انکساری سے متصف صاحبزادہ عبد الستار بابا جی کے خلیفہِ مجاز ہونے کے ساتھ ساتھ آستانہ عالیہ کے مہتمم اور سر پرست اعلیٰ بھی ہیں۔ آپ تکبر اور بڑائی جیسی الائشوں سے پاک انتہائی سادہ طبیعت انسان ہیں۔ خدمت کو عظمت جانتے ہوئے خود اپنے ہاتھ سے لوگوں میں لنگر تقسیم کرتے اور اپنے مہمانوں کی آؤ بھگت میں مصروف رہتے ہیں۔ مسجد کے انتظامات کے ساتھ ساتھ بچے اور بچیوں کی تعلیم کی خاطر الگ الگ مدرسوں کا انتظام بھی احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔

حضرت بابا رحمت اﷲؒ کا سالانہ عرس مبارک اس سال 11تا13اکتوبربروز جمعہ، ہفتہ ،اتوار دھنکہ گاؤں ضلع مانسہرہ میں عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں آپ کے محبین و متوسلین شرکت کر کے فیضان و برکات سے مستفیذ ہوتے ہیں۔
 

Muhammad Amjad
About the Author: Muhammad Amjad Read More Articles by Muhammad Amjad: 17 Articles with 15443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.