اسلام جیسے جیسے عرب سے باہر
پھیلنا شروع ہوا تو اس کے بنیادی ماخذ قرآن کی تفہیم کا مسئلہ شدت سے سامنے
آنے لگا۔ وہ علاقے جہاں عربی زبان نہیں سمجھی جاتی تھی وہاں کے علماء نے
قرآن مجید کے تراجم کیے تاکہ لوگ اس آفاقی پیغام کو درست طور پر سمجھ سکیں۔
بیسویں صدی میں جب اسلام ایک مغلوب و مظلوم قوم کا مذہب تھا جن پر دنیا بھر
کے مظالم ہو رہے تھے، اس زمانے میں ہندوستان میں دو شخصیات نے ان کے اندر
حقیقی اسلامی روح پیدا کرنے کی کوشش کی ایک علامہ محمد اقبال اور دوسرے سید
ابو الاعلی مودودی۔
سید مودودی کی تمام کتب سے زیادہ شہرت ان کی تفسیر قرآن “تفہیم القرآن” نے
حاصل کی۔ جس میں انہوں نے قرآن مجید کے ترجمہ کرنے کے روایتی انداز کے
بجائے ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا اور یوں اردو زبان میں ایک ویسے ہی زور
بیان والے ترجمہ و تفسیر کی آمد ہوئی جیسا کہ عربی قرآن مجید کا ہے۔ سید
مودودی کا ترجمے و تفسیر کے اس کام میں ہاتھ ڈالنے کا مقصد اپنی ڈیڑھ اینٹ
کی مسجد بنانا نہیں بلکہ جدید مغربی ادب سے متاثر ہو کر الحاد کے پلڑے میں
جا گرنے والے نوجوان و تعلیم یافتہ طبقے کو واپس اسلام کی جانب لانا تھا۔
ان کے خلوص دل اور محنت کا نتیجہ تھا کہ تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی تعداد کا
نہ صرف جھکاؤ مذہب کی جانب ہوا بلکہ انہوں نے اسلام کو صرف ایک مذہب کے طور
پر ہی نہیں بلکہ ایک نظام زندگی کے طور پر از سر نو قبول کیا۔
قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر پر اُردو زبان میں اتنا کام ہو چکا تھا کہ
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف برکت اور سعادت کے لیے تفہیم القرآن
تحریر نہیں کیا بلکہ انکا حقیقی مقصد یہ تھا کہ عام تعلیم یافتہ لوگوں تک
روحِ قرآن اور اس کتابِ عظیم کا حقیقی مدعا پہنچ سکے۔اس کے لیے انہوں نے
لفظی ترجمہ کے بجائے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا تاکہ ادب کی تند
وتیز اسپرٹ جو قرآن کی اصل عربی عبارت میں بھری ہوئی ہے وہ متاثر نہ ہو
کیونکہ یہی تو وہ چیز ہے جو سنگ دل سے سنگ دل آدمی کا دل بھی پگھلا دیتی ہے
۔ جس کی قوت ِتاثیر کا لوہا اس کے شدید ترین مخالفین تک مانتے تھے اور ڈرتے
تھے کہ یہ جادو اثر کلام جو سنے گا وہ بالآخر نقدِ دل ہار بیٹھے گا۔ اور یہ
سارے فو ائد لفظی ترجمہ کے ذریعہ حاصل کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ مولانا نے
تفہیم القرآن میں جس انداز کو اپنایا اس نے لاکھوں دلوں کو متاثر کیا خصوصاً
نوجوان طبقے میں قرآن فہمی اور اس پر عمل کرنے کا احساس تیزی سے ابھرا۔
تفہیم القرآن چھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ (محرم ١۳٦١ھ ) فروری 1942 ء میں تفہیم
القرآن لکھنے کے کام کا آغاز ہوا ۔ پانچ سال سے زیادہ مدت تک اس کا سلسلہ
جاری رہا یہاں تک کہ سورة یوسف کے آخر تک ترجمانی اور تفہیم تیار ہو گئی۔
اس کے بعد حالات کی بناء پر مولانا کو کچھ لکھنے کا موقع نہ مل سکا ۔ بعد
ازاں ١۹۴۸ء میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے داخل ِ زنداں کردیا
گیا ۔ جہاں انہیں تفہیم القرآن کے مواد پر کام کرنے کا خاصہ موقعہ ملا۔ ۲۴
ربیع الثانی ١۳۹۲ھ بمطابق 7 جون1972ء کو تفہیم القرآن تیس سال چار مہینے کے
عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچی ۔اس کے متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ |