محمد اسلم لودھی کی تازہ کتاب محبت کا ایک تجزیہ

 نگراں کار: www.wadi-e-urdu.com (ابن صفی پر ایک غیر تجارتی ویب سائٹ)

جنوری ۱۱۰۲ میں منظر عام پر آنے والی جناب محمد اسلم لودھی کی کتاب محبت دراصل ان کی خودنوشت سوانح حیات لمحوں کا سفر کا ایک تسلسل ہے ۔ لمحوں کا سفر ۷۰۰۲ میں لاہور سے شائع ہوئی تھی ۔ مختلف النوع مضامین کے مجموعے کی حامل محبت ایک ایسی کتاب ہے جس میں حساس دل رکھنے والوں کو متاثر کرنے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے۔ مذکورہ کتاب میں لودھی صاحب نے جہاں اپنی والدہ محترمہ کا ذکر انتہائی عقیدت سے کیا ہے وہاں ہمیں ان کی نجی زندگی کی ایک تلخ جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کتاب کا قاری ان کی خرابی صحت، بھائیوں سے اختلافات اور نوکری میں درپیش نامساعد حالات کو پڑھتے وقت نہ صرف ایک اپنائیت سی محسوس کرتا ہے بلکہ کئی مقامات پر خود کو ان کے ہمراہ ان مصائب سے نبرد آزما ہوتا بھی محسوس کرتا ہے۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک عام انسان جن مصائب و آلام کا سامنا تمام عمر کرتا ہے، ان میں بین السطور تین بنیادی مسائل سر اٹھائے نظر آتے ہیں۔

وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آج وہ جس مقام پر ہیں، وہاں پہنچنے میں ان کی والدہ کی دعاﺅں کا کلیدی ساتھ رہا ہے۔ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جن کو اوائل عمر ہی سے غربت اور افلاس سے جنگ کی خاطر مزدوری کرنا پڑی ہو ؟ اور مزدوری بھی ایسی کہ جو انسان کو اندر سے توڑ کر رکھ دے۔ ان کے والد نے میٹرک کے بعد ان سے یہ کہہ کر سلسلہ تعلیم منقطع کرنے کو کہا کہ کالج کی تعلیم تو امیروں کے چونچلے ہیں، ہم ایسے غریبوں کے بس کی بات نہیں ۔ لودھی صاحب کے والد بھی اپنی جگہ مجبور تھے کہ حالات سے اکیلے لڑنے کی ان میں سکت نہ تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے زندگی کی گاڑی دھکیلنے میں ان کی مدد کریں۔

زیر نظر کتاب میں موجود ایک مضمون زندگی درد مسلسل کی طرح کاٹی ہے کا مطالعہ کر کے ان کی جدوجہد کا اندازہ ہوتا ہے۔ ۱۷۹۱ میں لودھی صاحب نے لاہور کینٹ ریلوے اسٹیشن پر چیچا وطنی اور چھانگا مانگا سے آنے والی لکڑی کے ریل گاڑی کے ڈبوں کو خالی کرنے کا کام کیا ۔ صبح سے شام تک جاری رہنے والے اس انتہائی مشقت آمیز کام کی مزدوری انہیں صرف تین روپے کی صورت میں ملا کرتی تھی۔ اس کام کے دوران بارہا ان کے ہاتھوں اور پاؤں پر گہرے زخم آئے جن کو وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے انہوں نے ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کو پانی پلانے کا کام کیا، گڑھی شاہو کے علاقے میں واقع ایک اون فیکٹری میں پانچ روپے روز پر ملازمت کی جو صرف دو دن بعد فیکٹری کے آسیب زدہ غسل خانوں کے خوف سے چھوڑ دی اور ماں کے قدموں میں سر رکھ کر اپنی مصیبت بیان کی۔ شفیق ماں کا دل تڑپ اٹھا اور انہوں نے اعلان کیا کہ میرا بچہ یہ نوکری نہیں کرے گا۔منہ اندھیرے اٹھ کر گائے بھینسوں کا گوبر جمع کرتے تھے اور کوئلے کے برادے میں ملا کر ، اسے چھت پر سکھا کر بارہ آنے ٹین کے حساب سے ریلوے اسٹیشن پر فروخت کیا کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ رات کو اچانک بارش ہوجاتی تھی اور تمام محنت ضائع ہوجایا کرتی تھی اور پھر ماں اور اس کے بیٹے دیر گئے ملول رہتے تھے۔ کاغذ کے لفافے بنا کر بیچنے اور گھر میں کریانے کی چھوٹی سی دکان چلاتے چلاتے کچھ وقت مزید بیت گیا۔اس کے بعد پائلٹ انیجینئرنگ کمپنی میں ساٹھ روپے ماہانہ پر نوکری کی۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ کا لفافہ اپنی والدہ کے ہاتھ پر رکھ دیا کرتے تھے، کبھی یوں بھی ہوتا کہ ان پیسوں میں سے کچھ والدہ سے مانگ بیٹھتے اور والدہ محبت سے ٹال دیا کرتی تھیں کہ اتنے قلیل پیسوں میں سے بیٹے کو کیا دے پاتیں۔ ہیکو آئسکریم کی فیکٹری میں بھی کچھ عرصے کام کیا ۔ اسی دوران ان کے والد نے اپنے کسی لالچی واقف کار سے ۰۰۵ روپے رشوت دے کر لودھی صاحب کی ملازمت ریلوے میں کرانے کی کوشش کی۔ پانچ کلو مچھلی لودھی صاحب خود ریلوے کے ایک افسر کے گھر واقع گرجا چوک دے کر آئے لیکن بقول ان کے : مچھلی افسر کے حریص پیٹ میں گئی لیکن نوکری پھر بھی نہ ملی۔۔۔۔۔۔

اسی دوران وہ شارٹ ہینڈ اور اردو ٹائپنگ کا کورس کرچکے تھے جس کی بنیاد پر انہیں لوکل گورنمٹ کے تعلیم بالغاں کے ادارے میں نوکری مل گئی جو تین برس جاری رہی۔ ۵ مئی ۹۷۹۱ کو پنجاب انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بورڈ میں نوکری اختیار کی اور ۳۱ جنوری ۴۹۹۱ کو یہاں سے پندرہ برس کی ملازمت کے بعد فارغ ہوئے۔ مذکورہ ادارے سے کی جانے والی ان کی آخری تنخواہ چھ ہزار روپے تھی۔ بلاآخر بنک آف پنجاب میں گیارہویں اسکیل میں اردو اسٹینو گرافر منتخب ہوئے اور تادم تحریر اسی ادارے سے وابستہ ہیں لیکن یہاں بھی روز اول ہی سے آزمائشوں نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا اور وہ محکمانہ سازشوں کا شکار ہی رہے۔ اسی دوران ۰۱ جون ۷۰۰۲ کو ان کی والدہ ان کا ساتھ چھوڑ گئی تھیں جو ان کے لیے ایک نہ بھولنے والا سانحہ بن گیا۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ لودھی صاحب تمام عمر نوکری کے معاملے میں مشکلات کا شکار رہے اور اس سے عجیب بات یہ ہے کہ ان کے والدہ بھی یہ کہا کرتی تھیں کہ جب بھی وہ کہیں کسی چیز کے حصول کی غرض سے جاتی تھیں تو وہ چیز ان کے جاتے ہی ختم ہوجایا کرتی تھی۔ بقول ان کے ، شاید ماں کی خراب قسمت کا تسلسل بیٹے کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔

لودھی صاحب کی اپنی والدہ محترمہ سے محبت و عقیدت اس کتاب کے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور بے اختیار قدرت اللہ شہاب کا یادگار مضمون ماں جی یاد آجاتا ہے۔

صاحبو! حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی سے کلام کیا کرتے تھے، ایک روز اللہ سے پوچھا کہ جنت میں میرا ساتھی کون ہوگا ؟ جواب آیا کہ موسیٰ وہ تیری بستی میں رہنے والا فلاں قصائی ہے جو تیرا رفیق ہوگا۔ حضرت موسیٰ مارے تجسس کے اس قصائی کی دکان پر پہنچ گئے۔ قصائی کڑی محنت میں مصروف تھا۔۔۔ موسیٰ اس کو دیکھتے رہے ! ۔۔۔۔ دن ڈھلا اور قصائی نے دکان بند کر، گھر کی راہ لی۔ موسیٰ اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ قصائی اپنی دھن میں چلتے چلتے ایک کچے گھر میں پہنچا۔ وہاں ایک بوڑھی اور لاغر عورت اس کا انتظار کرتی تھی۔ قصائی نے جلدی جلدی ہانڈی چڑھائی، کھانا پکایا، روٹیاں ڈالیں اور نوالے بنا بنا کر بوڑھی عورت کے منہ میں ڈالنے لگا۔ جب وہ سیر ہوچکی تو اس کا منہ صاف کیا ۔ بوڑھی عورت نے قصائی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر وہ ہنسنے لگا۔۔۔۔ موسیٰ جو یہ منظر حیرت سے دیکھ رہے تھے بے اختیار قصائی سے پوچھ بیٹھے کہ یہ عورت کون ہے اور تیرے کان میں کیا کہہ رہی تھی ؟ قصائی نے جواب دیا کہ یہ میری ماں ہے ۔۔۔ چلنے پھرنے نے معذور ہے ۔۔یہ مجھے دعا دے رہی تھی کہ اللہ تجھے جنت میں موسیٰ کا ساتھی بنائے اور مجھے ہنسی آگئی کہ کہاں میں اور کہاں موسیٰ ؟

کچھ عرصہ قبل اسلم لودھی صاحب قوت سماعت کی اچانک خرابی کا شکار ہوئے اور یہ روگ بھی ان کے لیے سوہان روح بن گیا۔گویا آزمائشوں کا سلسلہ ابھی تھما نہیں۔ وہ اپنی والدہ کے فرمابردار بیٹے رہے لیکن قسمت کے کھیل اپنی جگہ۔ ان کی اولاد فرمابردار نکلی لیکن دوسری جانب اپنے سگے بھائیوں کا رویہ ان کے لیے بیحد تکلیف دہ رہا۔ قلم کے ذریعے ان کو عزت حاصل ہوئی لیکن روزگار میں وہ پے درپے پریشانیوں اور ناانصافیوں کا شکار رہے!

لیکن راقم کو یہ یقین کامل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی تمام دنیاوی پریشانیوں اور آزمائشوں کا آخرت میں ان کو بہترین صلہ عطاء کرے گا۔ آئیے آپ بھی میرے ساتھ اس دعا میں شریک ہوجائیے!

(کتاب ملنے کا پتہ: سدرہ ایمپوریم پبلشرز۔۸۲ کبیر اسٹریٹ۔اردو بازار۔لاہور۔ 042-37244358)
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 279723 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.