تحریر : عائشہ یاسین
آج میں نے اپنے بچے کے اسکول جانے کا ارادہ کیا۔ اسکول کے باہر رش تھا۔ میں
وین اور ان کے ڈرائیور حضرات کے بھیڑ کو چیرتی ہوئی اسکول کے اندر داخل
ہوئی۔ اسکول کافی صاف ستھرا تھا اور کینٹین بظاہر کشادہ اور صاف نظر آرہی
تھی پر ہر شے کی قیمت دوگنا زیادہ تھی۔ خیر میں چھٹی کی گھنٹی کا انتظار
کرنے لگی۔ میرا بیٹا کسی کونے سے ہانپتا کانپتا بر آمد ہوا اور میری بے وقت
آمد سے بہت خوش بھی۔ اس نے بتایا کہ ابھی کلاس میں کام چل رہا ہے میں تو
صرف پرنسپل کے آفس میں ٹیچر کی ڈائری داخل کروانے آیا تھا۔ اس کی حالت سے
لگ نہیں رہا تھا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کو صبح میں نے صاف ستھرا گھر سے بھیجا
تھا۔ اسے دیکھ کر یہ کہنا مشکل تھاکہ وہ کلاس میں پنکھے کے نیچے اپنی بینچ
پر بیٹھ کر اپنی درسی کتاب پڑھتا ہوگا اور ساتھ میں کاپی میں سوال جواب بھی
حل کرتا ہوگا۔ وہ کہیں سے طالب علم نہیں لگ رہا تھا۔ اس کی شخصیت ہر گز
ایسی نہیں لگ رہی تھی جو کلاس کے ایک قابل بچے کی نظر آنی چاہیے بلکہ وہ تو
تھکا ماندہ ایک مزدور لگ رہا تھا۔ معقول صحت کا مالک ہونے کے باوجود ایک
چاق و چوبند طالب علم نظر آنے کے بجائے، ایک کسان لگ رہا تھا جو کھیت میں
کام کرکے آیا ہو بس اس کے لباس پر مٹی کے بجائے قلم کی سیاہی کے داغ نمایاں
تھے۔
ذہن عجیب سوچوں میں الجھ گیا۔ وہ اپنی کلاس میں چلا گیا اور میں چھٹی کا
انتظار کرنے لگی۔ گھنٹی بجی تو بچے اپنی جماعتوں سے باہر نکلنے لگے۔ تمام
طلبہ اپنے بستوں کے وزن سے عاجز نظر آئے۔ ان بستوں کا وزن اس قدر زیادہ تھا
کہ ان کو اٹھانا محال تھا۔ کوئی اپنے بستے کو گھسیٹ رہا تھا تو کسی نے آدھی
کتابیں ہاتھوں میں اٹھا رکھیں تھی اور کسی کے کندھے تعلیم کے بوجھ سے جھکے
جارہے تھے۔ یہی حال میرے بیٹے کا بھی تھا۔
آج مجھے بے حدافسوس ہورہا ہے خود پر اور اس فرسودہ تعلیمی نظام پر۔ کیا یہ
ہے تعلیم جس میں ہم نے اپنے بچوں کو جھونک رکھا ہے؟ ان معصوم بچوں کو طالب
علم کے بجائے ایک مزدور بنادیا ہے جو تعلیم کے بوجھ کو اپنے نا توان
کاندھوں پر اٹھائے گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کے چکر لگا رہاہے۔ کیا ہم
ان کو علم و فہم دینے میں کامیاب ہیں؟ یہ آخر ہم کس راہ پر چل پڑے ہیں۔
ہماری منزل کیا ہے؟ کیا ہم اپنے بچوں کو کسی ریس میں دوڑنے والا گھوڑا تو
نہیں بنا رہے ہیں؟ اور وہ بے چارہ سرپٹ دوڑے چلا جارہا ہے۔ کبھی ہم والدین
چابک مارتے ہیں کبھی اساتذہ اور کبھی یہ معاشرہ، جہاں عزت کا معیار مہنگی
تعلیم سے حاصل کردہ ڈگری سے ہوتا ہے۔
کیا کبھی میں نے سوچا کہ میرے 10سال کے بچے پر ظلم کرنے والا کوئی اور نہیں
بلکہ میں خود اس کی ماں ہوں۔ وہ بچہ جو صبح اٹھتا ہے بغیر ناشتہ کیے جلدی
اسکول اس لیے بھاگتا ہے کہ اسکول کا دروازہ بند کردیا جائے گا اور اسکول
پہنچتے ہی اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ کا شکار میرا بچہ جب لنچ خریدنے کے لیے
کینٹین پر جائے گا تو قطار میں کھڑے کھڑے ہی گھنٹی بج جائے گی کیوں کہ میں
اس کو گھر کا لنچ صرف اس لیے بنا کے نہیں دے پائی کہ میرا موڈ گھر کے تنازع
اور سسرال والوں کی وجہ سے خراب رہا۔ اگر میرا بچہ دس منٹ وقفے میں کینٹین
سے لنچ لے بھی لے گا تو اس کی استانی اس کو کھانے نہیں دے گی۔ گھر آکے بھی
اس بچے کو سکون نہیں ملے گا۔ میں اپنی الجھنوں یا سسرال کے اختلافات میں
گھری بیٹھی ہوں گی یا مجھے اپنی سوشل میڈیا کے دوستوں کی فکر لاحق ہوگی اور
میں بچے کو ایک پیکٹ میگی بنا کے خوش کر دوں گی اور تعلیم کی اینٹوں سے
بھرا بستہ بنا کے دوبارہ ریس کورس کے میدان میں یعنی ٹیوشن چھوڑ آؤں گی۔
کیا ہمیں شرم نہیں آنی چاہیے؟ ہم کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟
کیا کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے اسکول میں پڑھا
کر ان کو قابل بنانے کے بجائے اس دوڑ میں شامل کرنا چاہ رہے ہیں جہاں اگر
وہ پیچھے رہ گیا یا خدا نا خواستہ گر گیا تو زندگی کیسے گزارے گا؟ کیا یہ
بچے کا حق نہیں کہ وہ ایک آرام دہ زندگی گزارے؟ کیا برقی آلات کی فراہمی
آسائش کے زمرے میں آتی ہے؟ کمپیوٹر، ٹیب، موبائل، زنگر برگر، پزا یا
ایئرکنڈیشن روم میں بٹھا دینا اور برانڈڈ لباس پہنا دینے سے ہم اپنی ذمے
داریوں پر پورے اترتے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں، بچہ ہم سے یہ سب ہرگز نہیں
مانگتا بلکہ ہم خود اپنی انا اور اس سوسائٹی میں اپنی ساخت کو بنانے کے لیے
اپنے بچوں کو جھانسہ دیتے ہیں۔ ہمارے بچے جیسے تیسے پل رہے ہیں۔ ہم ان کو
پال نہیں رہے۔ ہم نے ان کو اپنی گود سے نکال پھینکا ہے۔ ان کو ان کے توتلی
زبان سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے چھوٹے بچوں کو چھوٹا آدمی اور عورت بنا دیا
ہے۔
بچوں کو صرف پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں باقی قدرت ان
کو ان کی عمر کے مطابق شعور دیتی چلی جاتی ہے۔ بچوں میں تحقیق کا عنصر سب
سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہ ہر شے کو توڑ کر مروڑ کر اس کو جائزہ لیتے ہیں۔
ہم نے سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اپنے بچوں کو قدرتی حسن سے محروم کر کے ان
کے ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ تھما دیا ہے۔ ان کے ہاتھوں کو مٹی کی نمی اور
خوشبو میں بسانے کے بجائے ان کے ہاتھوں میں موبائل اور ٹیب دے دیا۔ ہم ماؤں
نے اپنی گود چھین لی اور باپ نے اپنے کاندھے۔ اب ان گود اور ہاتھوں میں لیپ
ٹاپ اور موبائل کا بسیرا ہے۔ ہم ہر وقت کسی نہ کسی الجھن کا شکار رہتے ہیں۔
بچوں کو وقت نہیں دیتے وہ توجہ نہیں دیتے جن پر ان کا حق ہے۔ بچہ ہماری
توجہ پانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے پر ہم والدین ان کی بات سنیں، یہ تو دور
کی بات ہے، ہم ان کے پیارے اور معصوم چہروں کی طرف دیکھتے بھی نہیں ہیں۔
ذرا سوچیے کہ ہم خود اپنے ساتھ اور اپنی نسل کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی
تو نہیں کر رہے؟ اس گناہ کی سزا کس کو اور کیا بھگتنی پڑے گی یہ بھی سوچیے
اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ |