کراچی سیاسی فرقہ واریت

کراچی لہو لہو ہے اور اس کے درودیوار انسانی خون سے رنگین ہو چکے ہیں ،حکومتی رٹ کا دور دور تک کوئی نام و نشان تک نہیں ۔ گزشتہ دنوں کراچی سے محترم اکبر سعید کا فون آیا تو ان سے شہر قائد کی تیزی سے بگڑتی صورتحال جان کر دل پسیج کر رہ گیا ۔ باوجود اس کے کہ ذرائع ابلاغ کی ترقی کی بدولت کسی بھی علاقے کی خبر چند منٹوں تک ملک کے طول و عرض میں بکھر جاتی ہے اور پھر کراچی آج جس ناگفتہ بہ ،کربناک اور دہشت انگیز صورتحال سے دوچار ہے وہاں کے حالات تو آج کل میڈیا پر غیر معمولی اہمیت حاصل کیے ہوئے ہیں مگر پھر بھی جب آپ براہ راست کراچی کے کسی شہری سے اس ضمن میں مخاطب ہوں تو آپ کو دکھ ،درد اور ظلم و استبداد کی ایک نئی کہانی سننے کو ملے گی ،بھائی اکبر سعید صاحب بھی اس غریب پرور شہر کے حالات بیان کرتے رہے اور میرا قلم درد کی یہ کہانی رقم کرتا گیا ۔ کراچی کے حالات و واقعات سے ملت پوری طرح آگاہ اور بیدار ہے اور عوام سب جانتے ہیں کہ کراچی کے امن کو سبوتاژ کرنے میں کونسی طاقتیں اور کون سے ہاتھ ملوث ہیں مگر حکمران طبقہ کہتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کا معمہ سمجھنے کا ہے اور نہ سمجھانے کا ؟ کراچی کے مسئلے پر اگر کوئی طبقہ خاموش ہے تو وہ اس وطن کے بے ضمیر حکمرا ن ہیں جو اس قدر بے حمیت ہو چکے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر بیس سے پچیس انسانی لاشیں گر رہی ہیں مگر غیرت اور حب الوطنی نامی چیز ان کے ہاں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکی ہے اور یہ انسانی قتل عام بھی ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ناکافی ہے ۔ٹارگٹ کلنگ میں ایسے بھی لاتعداد لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں جن کا سرے سے کسی سیاسی و لسانی جماعت سے دور کا بھی واسطہ یا تعلق نہیں ہے ۔شہر کراچی کی یہ کلیجہ چیر دینے والی صورتحال سیاسی فرقہ واریت کی بدترین مثال نہیں تو اور کیا ہے ؟

ملک کا کمرشل کیپٹل سٹی بدامنی کی آگ میں چاروں طرف سے گھر چکا ہے اور لاتعداد لوگ اس ٹارگٹ کلنگ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور ہر طرف ٹارگٹ کلرز ، بھتہ خوروں اور لینڈ مافیاز کا ہی راج ہے ۔اکبر سعید سچ ہی تو کہتے ہیں کہ اب تو اس شہر سے بھاگ نکلنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ کراچی میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی مثال قائم کی جارہی ہے اور ہر سیاسی و لسانی جماعت نے سرکاری جائیدادوں پر قبضہ کر کے اپنی الگ الگ گوٹھیں اور سٹیٹس بنا رکھی ہیں اور یہ علاقے نو گو ایریاز کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں، ان لسانی و سیاسی جماعتوں کے لوگ ایک دوسرے کی گردنیں اڑا رہے ہیں اور لوٹ مار کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہے ۔ اب تک ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں سینکڑوں افراد کی زندگی کا چراغ گل ہو چکا ہے ۔ پولیس ،رینجرز و دیگر قانون کے محافظ ادارے بس اندھیروں میں ہی بھٹک رہے ہیں اور عوام کو سیاسی و لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں ۔لینڈ مافیا نے سرکاری جگہوں پر قبضے کر کے دنوں میں کئی کئی بستیاں آباد کر لی ہیں اور ان پر مختلف سیاسی و لسانی جماعتوں کے جھنڈے لہرا دیے گئے ہیں۔ پولیس ،رینجرز کے اہلکار صرف مین شاہراہوں اور اہم چوکوں پر میڈیا اور عوام کو اندھیرے میں رکھنے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں اور پردے کی دوسری طرف کشت وخون کا بھیانک اور دہشت ناک کھیل جاری ہے ۔ اس میں اب کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ پی پی پی ،ایم کیو ایم اور اے این پی کے لوگ ہی ایک دوسرے کو تہہ تیغ کر رہے ہیں جس کی تصدیق وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بھی اپنے حالیہ بیان میں کی ہے۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ انہی تین جماعتوں کے لوگ اور لیڈرز ایک دوسرے کو دہشت گرد قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ،بلکہ ذوالفقار مرزا ٹائپ لوگ تو اب خیر سے سندھ کراس کر کے پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کے دفاتر پر ہلہ بولنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ وزیرداخلہ سندھ اور ان تین جماعتوں کے لیڈروں کی زبانیں ایک دوسرے کے خلاف بھرپور اندازمیں آگ اگل رہی ہیں جس سے پوری ملت کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے ،ان لوگوں کی عادات و اطوار اور زبان کی درازی سے عوام اب بخوبی جان چکے ہیں کہ قتل و غارت گری میں کون لوگ ملوث ہیں ؟اور کس پارٹی کو بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں مہارت نامہ حاصل ہے ؟، ایک اور تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ مجھے ایک خفیہ ایجنسی کے دوست نے بتایا کہ جب ہم کئی کئی ماہ کی محنت شاقہ کے بعد کسی اہم ٹارگٹ کلرز اور دہشت گرد کو گرفتار کرتے ہیں تو ایسی سیاسی شخصیات اس کی رہائی کے لیے میدان میں کود پڑتی ہیں کہ ہمیں بادل نخواستہ اسے چھوڑنا پڑتا ہے کیونکہ ایک معمولی خفیہ اہلکار بھلا کہاں حاکم شہر کی حکم عدولی کر سکتا ہے ؟ انہی سیاسی و لسانی جماعتوں نے حالیہ دنوں میں ایک اور کارڈ بھی کھیلنا شروع کردیا ہے کہ کراچی کی بد امنی میں مذہبی جماعتیں ملوث ہیں ،یہ ایک نہایت بھونڈا پروپیگنڈہ اور چور مچائے شور ، چور چور والی بات نہیں تو اور کیا ہے؟ ۔کیا ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہے کہ اس بد امنی کی لہر میں ایک بہت بڑا نقصان مذہبی حلقوں کا بھی ہو رہا ہے اور بالخصوص اہلسنت والجماعت کی قیادت اور کارکنوں کا بے دریغ قتل کیا جا رہا ہے ۔یہ سیاسی فرقہ واریت کے علمبردار جتنا مرضی شور مچائیں اور مذہبی حلقوں کے خلاف جس قدر چاہیں پروپیگنڈہ کرلیں لیکن عوام تو خوب اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ کراچی پر کنٹرول کرنے کی خاطر کونسی طاقتیں کھینچا تانی کر رہی ہیں اور کراچی کے در و دیوار پر سیاسی و لسانی جماعتوں کی جانب سے ”کراچی ہمارا ہے“کے نعرے کن حالات کی جانب اشارہ کرتے ہیں ؟ کراچی کے اس منظر نامے کو دیکھتے ہوئے اسے سیاسی فرقہ واریت کی بدترین اور گمراہ کن مثال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے کم ازکم اب تو مذہبی جماعتوں پر فرقہ واریت کے آوازیں کسنے والی سیاسی شخصیات کی آنکھیں کھل جانی چاہیے کہ مذہبی حلقوں کو طعنے دیتے دیتے وہ خود کس راہ پر چل نکلے ہیں ؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ روزانہ بیس سے پچیس افراد کا قتل ہو رہا ہے مگر حکمران بھول کر بھی فوجی آپریشن کا نام نہیں لیتے ، اگر امریکہ کے کہنے پر قبائلی علاقوں پر فوج کشی کی جا سکتی ہے تو کراچی کی اس لمحہ بہ لمحہ ابتر ہوتی صورتحال کو پیش نظر رکھ کر وہاں ملٹری ایکشن کیوں نہیں بروے کار لایا جا رہا ہے؟ حالانکہ میرا وجدان کہتا ہے کہ اگر کراچی کو فوری طور آرمی کے حوالے کردیا جائے تو انشاءاللہ اس کے مثبت نتائج ضرور اور جلد برآمد ہوں گے۔

کراچی میں فوجی ایکشن کیوں نہیں ہو رہا ؟ اس کا آسان جواب تو ہمارے لیے یہ بھی ہے کہ جو طاقتیں کراچی کو بدامنی کی طرف دھکیل رہی ہیں ان کے سر پرست کسی نہ کسی صورت اقتدار کے ایوانوں میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں ،اور تو اور جولائی 2010میں بلاول ہاﺅس کراچی میں صدر ِ مملکت نے بھی فوجی آپریشن کے سوال پر کہا تھا کہ بھائی آپ صحافی لوگ فوجی آپریشن کروا کر مجھے اور الطاف بھائی کو کیوں لڑانا چاہتے ہیں؟ ۔
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 33247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.