گزشتہ 73دن سے شدیدپابندیوں کے باوجود کشمیری عوام کرفیو
توڑتے ہوئے گھروں سے باہر نکل کر پاکستانی جھنڈے لہراتے،پاک سرزمین کے قومی
ترانے کی صدائیں بلندکرتے ہیں جس کے ردعمل کے طورپر بھارتی فوج آنسو گیس
اور پیلٹ گنوں کا استعمال کرتی ہے،نوجوانوں کواغواء کرتی ہے شہیدکردیتی ہے
پھربھی کشمیری حوصلہ نہیں ہارے، شکست تسلیم نہیں کررہے تواس کے پیچھے
پاکستان سے وابستہ اُمیدیں ہیں،وزیراعظم عمران خان نے کشمیری عوام پربھارتی
ظلم وستم کاپردہ فاش کرکے کشمیرکاسفیرہونے کاحق اداکردیاہے پراپنے مسلمان
بہن بھائیوں کوبھارتی تسلط اورقبضے سے آزادی دلواناابھی باقی ہے،عمران خان
کی تقریرانتہائی شاندارتھی لہٰذااب اپنے ہی گھرمیں قید،بھارتی ریاستی
دہشتگردی کے شکارکشمیریوں کوآزادکروانے کیلئے اقدامات بھی جاندارکئے جانے
چاہیے،کیایہ ممکن ہے کہ وزیراعظم عمران خان پوری دنیاکوپیغام دیں کہ
پاکستان کے 22کروڑعوام مقبوضہ کشمیرکے عوام کوکھانا،ادویات اوردیگرضروریات
زندگی خودپہنچاناچاہتے ہیں لہٰذا22کروڑنہیں توکم ازکم 5کروڑمسلمانوں
کواقوام متحدہ کی نگرانی میں ہی سہی مقبوضہ کشمیرجانے کی اجازت دی جائے ؟اہل
یورپ کی نظراورنظام میں سنگین جرائم میں سزاپانے والے قیدیوں کے بھی حقوق
ہوتے ہیں توکیااقوام متحدہ نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کوحقوق دلوانے میں
کردارادانہیں کرسکتی؟مقبوضہ کشمیرسے متعلق سلامتی کونسل کی درجن سے زائد
منظورشدہ قراردادوں کی موجودگی میں کوئی نئی قراردادپیش کرنے کی ضرورت اس
لئے نہیں ہے کہ کشمیری عوام اورپاکستان سلامتی کونسل کی ان قراردادوں
کوتسلیم کرتے ہیں جن میں اہل کشمیر کواپنے مستقبل کافیصلہ کرنے
کااختیاردینے کی بات کی گئی ہے،اقوام متحدہ کی منظورشدہ قراردادوں اورکمیشن
کی رپورٹس کی روشنی میں ہی تنازعہ کشمیرپرامن طریقے سے حل ہوسکتاہے،اہل
پاکستان آج انتہائی مجبوری کے عالم میں اپنے ہی وزیراعظم سے سوال کررہے ہیں
کہ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں،مجاہدین کااپنی مددآپ جہاد دہشتگردی
سمجھاجاتاہے،خالی ہاتھ پرامن طریقے سے لائن آف کنٹرول پارکرنے کی اجازت
نہیں،اقوام متحدہ اوراقوام عالم خاموش ہیں،مسلمانوں کوہرطرف شدیدظلم
وجبرکاسامناہے،مسلم ممالک متحدنہیں ہورہے،سعودی حکمران مقدس سرزمین امریکی
افواج کے قبضے میں دے رہے ہیں،اہل کشمیردوماہ سے زائد عرصے سے
قیدہیں،مقبوضہ وادی میں بنیادی ضروریات زندگی ناپیدہوچکی ہیں،زندگیاں
اورعزتیں غیرمحفوظ ہیں،ان حالات میں ہم اہل کشمیرکے ساتھ فقط آوازملاکرسکون
سے کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟جب دشمن پیارکی زبان نہ سمجھے،سمجھانے والے بھی
اپناموثرکردارادانہ کریں اورحق کاساتھ نہ دیں تب دین اسلام انسانیت کی بقاء
کی خاطرحیوانیت کیخلاف جہادیعنی جنگ کاحکم فرماتاہے،مقبوضہ وادی میں اہل
ایمان بہن،بیٹیوں کی عزتیں پامال ہورہی ہیں،بچوں،نوجوانوں کی زندگیاں
غیرمحفوظ ہیں اوربھارت کسی طورامن کی زبان میں بات سننے کوتیارنہیں
توپھرپیچھے کونسی وجہ باقی ہے جس کے باعث ہم مقبوضہ وادی سے بھارتی
دہشتگردوں کونکالنے کیلئے فوجی کارروائی نہیں کرسکتے؟دنیاکوپیغام
دینامقصودتھاجوپہنچ چکاہے،دنیاکاکوئی ملک اہل کشمیرکوبھارتی ظلم جبرسے
بچانے کیلئے اس وقت تک آگے نہیں آئے گاجب تک پاکستان سخت لہجہ اورفوجی
کارروائی کاالٹی میٹم نہیں دے گااورپھرہم کسی بھی قیمت پر آخری سپاہی،آخری
گولی اورآخری سانس تک لڑنے کاعزم وحوصلہ رکھتے ہیں توپھراس سے قبل کے بھارت
مقبوضہ وادی میں بڑے پیمانے پر خون ریزی کرے ہمیں سخت فیصلے کرنے ہوں
گے،پاکستان سعودی،ایران کشیدگی ختم کروانے میں مخلص کرداراداکرسکتاہے
توکیاسعودی عرب اپنے درینہ دوست بھارت سے کشمیرسے کرفیوختم کرکے نظام زندگی
بحال کرنے کامطالبہ نہیں کرسکتا؟یقیناکرسکتاہے،سعودی حکومت نے بھارت سے یہ
مطالبہ کیابھی ہوگاپربھارت نرم لہجے نہیں سمجھتااسے سخت پیغام دینے کی
ضرورت ہے،جس طرح ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے عندیہ دیا ہے کہ وہ
بھارت کے ساتھ تجارت کو محدود کرنے پر غور کر رہے ہیں،ملائیشیاکے سرکاری
خبر رساں ادارے’برناما‘ کے مطابق اتوار کو مہاتیر محمد نے کہا کہ ان کی
حکومت بھارت کے ساتھ تجارت کے معاملات پر نظر رکھے گی،وائس آف امریکہ کے
مطابق بھارت ملائیشیا سے ناریل کے تیل کا سب سے بڑا درآمدی ملک ہے،رواں سال
کے ابتدائی نو ماہ میں بھارت اب تک ملائیشیا سے 30 لاکھ 90 ہزار ٹن پام آئل
درآمد کر چکا ہے،جب کہ ملائیشیا پیٹرولیم مصنوعات،گوشت،لائیواسٹاک،دھاتیں
اور مختلف کیمیکل بھارت سے برآمد کرتا ہے، امریکہ،برطانیہ،سعودی عرب سمیت
دنیاکے اُن تمام ممالک جوانسانی حقوق کے حامی ہیں کوملائیشیا کی طرح بھارت
پردباؤبڑھاناچاہئے تاکہ بھارت مسئلہ کشمیرکے پرامن حل کی طرف لوٹنے
پرمجبورہوجائے بصورت دیگر یہ کہنامشکل ہے کہ پاکستانی حکومت اپنے ہی عوام
کے شدیددباؤکاسامناکب تک کرپائے گی پاکستان باربارکہہ چکاہے کہ ہم آخری
سپاہی،آخری گولی اورآخری سانس تک مقبوضہ کشمیرکے عوام کاساتھ دیں گے چاہے
اس کیلئے کوئی بھی قیمت اداکرنی پڑے
|