شعری ادب پر تنقید کے ضمن میں پروفیسر نارنگ کا ایک جملہ
نظر سے گزرا کہ ’’اسلوبیات کے پاس خبر ہے نظر نہیں‘‘ ابھی ذہن اس جملے کی
گتھیوں میں الجھا ہوا تھا کہ ریاض شہر کے معروف شاعر اور تخیل ادبی فورم کے
سرپرست اعلیٰ منصور محبوب نے اپنی تازہ غزل کے چند اشعار فورم کے گروپ میں
عنایت کئے جن میں ایک نادر مضمون کا حامل شعر احباب کا موضوع سخن بن گیا ،
فرماتے ہیں کہ:
کان دھرنے صدائے توبہ پر
دربدر اب خدا بھٹکتا ہے
اس شعر پر ہمارے ایک دوست نے تنقید کے نشتر چلائے اور ان کے لب و لہجے اور
الفاظ نے گویا ایک ہی لمحے میں پروفیسر نارنگ کے اس جملے کو پوری طرح آشکار
کر دیا، نقاد نے اس شعر پر تقید کے لئے جن الفاظ کا سہارا لیا اول تو وہ
الفاظ ہی ادب کی سرحدوں سے کوسوں دور اور بے ادبی کے سمندر میں غوطہ زن ہیں
اور ان کی تنقید کا دوسرا پہلو ادبی تنقید سے زیادہ ذاتی عناد پر مشتمل ہے
کیونکہ ان کی تنقید بذات خود تنقید کے تخلیقی اصول کے قریب بھی نہیں، یہ
تنقید اپنے اصل میں اسلوبی تنقید ہے جس میں نقاد کو الفاظ سے کوئی خبر تو
ملی لیکن دیدہ بینا نہ ہونے کے سبب وہ اس نظر سے محروم رہے جو اس شعر میں
چھپے ہوئے آفاقی پیغام کو سمجھنے کی متقاضی ہے۔ تنقید نگاری کوئی آسان کام
ہرگز نہیں اور علمائے ادب کا کہنا ہے کہ تنقید کرنے والے کو ’’جہاں دیدہ‘‘
ہونا چاہیے ، اور اس پر پروفیسر اقبال اعجاز بیگ نے ایک اور شرط کا اضافہ
کر دیا کہ صرف جہاں دیدہ ہی نہیں بلکہ اس کو ’’صاحب ہزار دیدہ‘‘ ہونا چاہیے
کہ وہ تخلیق کے ہر ہر پہلو پر غیر جانبدار نظر رکھ سکے اور معنی کو مختلف
پیرائے میں سمجھنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔
تنقید سے پہلے اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ نقاد تخلیق کار کے ذہنی پس
منظر اور ان عوامل اور محرکات سے واقف ہو یا ان کو سمجھنے کی کوشش کرے جن
کی بنیاد پر تخلیق کار نے اپنے تخیل کو الفاظ کا جامہ پہنایا، یہاں نقاد نے
اس شعر پر تنقید کرتے ہوئے محض اسلوب کا سہارا لیا اور ایک فتویٰ صادر فرما
دیا جو بذات خود اسلوبی تنقید کے قواعد و ضوابط کی بھی نفی ہے کہ ہرگز
ضرووری نہیں کہ الفاظ کے معنی وہی ہوں جس طرح نطر آئیں، کیونکہ ہر تخلیق
کار کسی بھی مضمون کو ایک خاص پیرائے اور نظر سے دیکھتا ہے بلکل ایسے ہی
جیسے ایک پھول میں کسی کو پروردگار کی کاریگری اور صناعی نظر آتی ہے تو کسی
کو اس میں محبوب کے لب و عارض کے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔
یہاں نقاد کا تنقیدی انداز اصل میں اسی فکر کی ترجمانی اور تسلسل ہے جس نے
علامہ اقبال کی نظم ’’شکوہ ‘‘ پر طوفان برپا کیا تھا، الفاظ کو ان کے ظاہری
معنی میں سمجھنے کی غلطی نئی نہیں بلکہ ڈاکٹر ماہر القادری سے بھی ایسی ہی
چوک ہوئی جب انہوں نے فیض کی نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ
مانگ‘‘ پر تنقید کی اور اسے اپنے تئیں شاعری سے ہی خارج قرار دے دیا۔
شعری ادب پر تنقید کا ایک پہلو تو فنی تنقید ہے جو ظاہر ہے ابھی موضوع
گفتگو نہیں، اور دوسرا پہلو فکری ہے جس میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ شعر کو
کیسا ہونا چاہئے اور الفاظ اور ان کے معنی کا چناو کیسے کیا جائے، اگر محض
گذشتہ ہزار سالہ ادب کا جائزہ لیا جائے تو اس ایک سوال نے کئی مکاتب فکر کو
جنم دیا جس میں علمائے ادب کا ایک طبقہ ایسا ہے جو شعری ادب کو الفاظ کے
اصل میں دیکھتا ہے اور ان کے نزدیک شعر میں مبالغہ آرائی کا تو شائبہ تک
نہیں ہونا چاہئے اور وہ شعری ادب میں مقصدیت کے قائل ہیں اور شعر کو اعلیٰ
اخلاقی تربیت کا طریقہ قرار دینے پر مصر بھی، یہ رجحان بیشتر عرب نقادوں کے
ہاں پروان چڑھا اور ان کے زیر اثر فارسی اور اردو شاعری میں بھی داخل ہوا،
اس سلسلے کی غالبأٔ آخری کڑی مولانا الطاف حسین حالی ہیں جنہوں نے اپنی
کتاب مقدمہ شعرو شاعری میں اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کم و بیش ایسے ہی
الفاظ میں کیا ہے، اس فکر کا سب سے بڑا نقصان تو ادبی ارتقاء میں خلل اور
نئے موضوعات اور طریقہ اظہار کی نفی ہے جس سے نہ صرف ادب کی نشونما پر برا
اثر پڑا بلکہ تخلیق کاروں کی ذہنی صلاحیتوں کو بھی زنگ لگا، اس فکر کے تحت
شاعری کے لئے خاص طرح کے حالات اور ماحول کی ضرورت ہے جس کی غیر موجودگی
میں ایسی شاعری اگر غیر ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اقبال کے بعد فیض،
قاسمی اور جالب کی شاعری میں بہت حد تک مقصدیت کا عمل دخل ہے لیکن اس
مقصدیت کی تخلیق بھی ایک مخصوص معاشرتی، سیاسی، مذہبی اور معاشی حالات کی
وجہ سے عمل میں آئی اور ظاہر ہے یہ حالات حالت تغیر میں رہتے ہیں چناچہ
شاعری بربنائے مقصدیت ہر زمان و مکان میں نہ تو ممکن ہے اور نہ اس سے اس
طرح کا افادہ متوقع ہونا چاہیے۔
شعری ادب میں شعر کی افادیت، اخلاقی تربیت اور مقصدیت کے نظرئے کو دنیائے
عرب ہی کے معروف شاعر اور نقاد قدامہ بن جعفر نے ہزار برس پہلے ہی اخلاقی
تعلیم و تربیت بذریعہ شعر کے نظرئے کو رد کر دیا اور حسن کاری اور صناعی کو
شعر کی بنیاد قرار دیا، قدامہ بن جعفر نے تو یہاں تک کہا کہ شعر میں جسقدر
مبالغہ آرائی ہو گی شعر اسی قدر خوبصورت ہو گا کہ مبالغہ تخیل کی پرواز کا
واحد ایندھن ہے، ان کے علاوہ ادبی تنقید کو پروان چڑھانے والے عرب نقادوں
میں محمد بن سلام العجمی، ابن قتیبہ، جاحظ، ابن رشیق اور ابو ہلال عسکری نے
بھی یہی کہا کہ شعر کو کسی مذہبی رنگ، معاشرتی اقدار یا اخلاقیات کے پیمانے
میں نہیں تولا جا سکتا شعر کو صرف اس لحاظ سے دیکھا جائے گا کہ وہ ادبی
اصولوں کے مطابق ہے اور اس میں پیش کیا گیا خیال اور مضامین نئے اور فکر
انگیز ہیں یا محض فسرسودہ خیالات، ادب کے ان شناوروں نے نقاد اور تخلیق کار
کو ان موضوعات سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا کہ شعر کے مضمون کو
سمجھنے کی آزادی قاری کو دے دینی چاہئے کہ وہ شعر کو کیسے سمجھتا ہے اور
ظاہر ہے ہر شعر کا مضمون ہر قاری کے لئے یکساں نہیں ہوگا، اردو ادب میں اس
فکر کے سب سے بڑے داعی مولانا شبلی نعمانی ہیں حالی کے برعکس شبلی کے نزدیک
شعر کا مقصد قاری یا سامع کو مسرت عطا کرنا ہے وہ شاعری میں مینا کاری کے
قائل ہیں اس کے بدون وہ شعر کو حقیقی شعر ماننے سے معذور ہیں اور ان کے
خیال میں شعر کی وسعت تشبیہات اور استعاروں کے استعمال سے ہی ممکن ہے ،
شبلی شعر میں رومان کے قائل ہیں اور شاعر پر کسی بھی قسم کی پابندی کے
مخالف ہیں اور شاعر کی مکمل آزادی تکلم کے داعی ہیں، اور یہی وہ فکر ہے جس
کے زیر اثر منصور نے کہا کہ ’’ کان دھرنے صدائے توبہ پر دربدر اب خدا
بھٹکتا ہے‘‘ اس شعر میں کہیں بھی یہ معنی نہیں کہ پروردگار کو انسان کی
توبہ کی حاجت ہے اسکا سیدھا مطلب ہے رحمت کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے لیکن
عاصیان دنیا اپنے مشاغل میں گم ہیں اور رحمت کی برکتیں سمیٹنے میں تساہل سے
کام لے رہے ہیں۔
اس شعر کو ہمارے فاضل دوست نے شاید عقیدے سے متصادم جانا جو کہ فہم کی
نہایت خطرناک غلطی ہے، عقیدے کے ضمن میں عہد حاضر کے ایک بڑے نقاد ڈاکٹر
وزیر آغا کے نظریات سمجھے بغیر ایسی تنقید نقاد، تخلیق کار اور قاری تینوں
کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے جس سے ادب کی خدمت کی توقع عبث ہے، وزیر
آغا ادب میں عقیدے کی نفی نہیں کرتے لیکن محض عقیدے کو معیا ر سمجھ لینے کو
وہ تنگ نظری اور محدود سوچ کا فروغ قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں تخلیق
کار اپنی فطری نمو کے راستے مسدود نہیں کرتا بلکہ آزاد فضا میں پھلنے
پھولنے کا پورا موقع فراہم کرتا ہے اور ادب کی تخلیق میں اس بات کی کوئی
قید نہیں کہ شاعر نے کسی فلسفے کا یا عقیدے کا اظہار کیا ہے یا سرے سے اس
نے عقیدے کا اظہار کیا ہی نہیں دیکھنا صرف یہ ہے کہ شاعر یا ادیب نے جو پیش
کیا ہے اس میں خلوص اور فن کا کیا عالم ہے۔
اس بحث سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ جمالیاتی قدر شناسی اسلوبیات کا
کام نہیں اور نہ اسلوبیات ادبی تنقید کا بدل ہے کیونکہ اگر کوئی محض اسلوب
یا عقیدے کو ادبی تنقید کا محور اور پیمانہ جان لے تو پھر اقبال کے ان
اشعار پر کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے کہ وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ:
سُنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثَرِ فلسفہ دانی
سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل
مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اُڑانی
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھُلتی
ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
|