(یہ تنقیدی مضمون پاکستان-آسٹریلیا لٹریری فورم کے زیرِ
اہتمام ایڈیلیڈ میں منعقدہ تقریبِ پذیرائی میں پڑھا گیا۔)
ادب، ادیب اور اور زبان کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہوتا ہے اور اردو زبان تو
ایک زبان ہے جو تعلیم وتربیت اور ادب نیز ادب ِ عالیہ کی زبان ہے۔ اس زبان
میں شاعری بھی ہوتی ہے اور نثر بھی لکھی جاتی ہے۔ نثر کی بہت سی اقسام ہیں
جن میں سفر نامہ ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس نے زمانہ حال میں بے حد ترقی کی
ہے۔ یوں تو بے شمار سفر نامے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں لیکن میں سمجھتی
ہوں کہ سفر نامہ”دنیا رنگ رنگیلی“ ایک بہترین فن پارہ ہے، جو نیوزی لینڈاور
جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک اور تھائی لینڈ جیسے ترقی پذیر ملک کی سیاحت
کے بعد لفظوں میں ڈھل کر زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔
سیاحت کے اعتبار سے ان ممالک کا انتخاب زبردست تو ہے ہی لیکن مصنف کا اندازِ
تحریر اُس سے بھی بڑھ کر ہے۔مصنف ان ممالک کا چند دن سیر سپاٹا کرکے واپس
نہیں آجاتے بلکہ وہ ایک ایک ایک منظر کو اپنی آنکھ کے کیمرے سے sketchکرتے
ہیں اور پھر صفحہ ئ قرطاس پر بڑی ہنر مندی اور خوب صورتی سے بکھیر دیتے ہیں۔
اپنے اس سفر میں طارق مرزا صاحب جہاں ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت
کی جھلک دکھاتے ہیں وہاں وہ ان کے جغرافیائی خد وخال کو بھی موضوع بناتے
ہیں۔ ان کی تاریخی اہمیت اور حیثیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔لوگوں کے طرزِ
عمل، بود و باش، عقائد، مذہب، رسومات، رجحانات، رہن سہن، میل ملاپ اورآسائش
و مشکلات پر نظرِ عمیق رکھتے ہیں نیز اس کا بیان بھی کرتے ہیں۔ان جگہوں کی
خوب صورتی کا ذکر بھی کرتے ہیں اور ان کی ترقی کے راز کی پردہ کشائی بھی
کرتے ہیں کہ یہ ممالک اپنی حکومتوں کی بہترین حکمتِ عملی کی بدولت شاہراہِ
ترقی پر گامزن ہیں۔ مثلاً: تھائی لینڈ کی تعریف میں لکھتے ہیں، ”انہوں نے
ایسا سسٹم develop کیا ہے کہ لاکھوں نہیں کروڑوں سیّاح ہر سال وہاں جاتے
ہیں اور ملک کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ اُن کے ہاں سیّاحوں کی آمد ہے۔ جس
سے مصنف نے یہ تاثر لیاہے کہ دنیا میں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد تھائی لینڈ
کا رخ کرتی ہے حالا نکہ اس ملک کی آب وہوا گرم مربوط ہے اور ماسوائے بڑے
بڑے مندروں کے سیاحت کے لیے دیگر کوئی قابلِ ذکر مقامات نہیں۔
مصنف جس ملک میں بھی جاتے ہیں، وہاں کی بہت سی چیزوں کا موازنہ وطن عزیز
پاکستان سے بھی کرتے ہیں۔مثلاًً: جاپان کے بارے لکھتے ہیں،”زمین کی کمی کے
باعث گھر چھوٹے ہوتے ہیں حالانکہ جاپانیوں کوپھول اورپھل دار پودے اگانے کا
بہت شوق ہے۔ یہ شوق وہ گھروں کے آگے گملوں میں پودے اُگا کر پورا کرتے
ہیں۔“ دوسری طرف راولپنڈی میں جہاں گندی اور غلیظ نالیاں بہتی ہیں،
ٹوکیومیں ایسی ہی نالیوں کے کناری پھول اگتے ہیں۔ یہ قوم دنیا میں یونہی
ممتاز مقام نہیں رکھتی، اس کے پیچھے بہت محنت، ایمانداری، صفائی اور نطم و
ضبط کار فرما ہے۔کاش! اس کا عشرِ عشیر ہماری حکومتوں اور عوام تک بھی پہنچ
جائے۔
اب تھوڑی سی بات مصنف کی منظر نگاری کی بھی ہو جائے۔مرزا صاحب منظر نگاری
سے آشنا ہیں۔ نا صرف ان مناظر سے خود لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اپنے قاری کو
بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔وہ خوب صورت سبزہ زاروں کا، بل کھاتی سڑکوں کا،
نیلگوں شفاف پانیوں کا، لہلہاتے کھیتوں کا، آسمان کو چھوتی عمارتوں کا،
بہتے دریاؤں اور ٹھہری ہوئی جھیلوں کا، پچیدہ راہوں کا، خوب صورت باغوں کا،
گنگناتے جھرنوں کا، بلند پہاڑوں کا ایک نظرِ عمیق رکھنے والے فطرت شناس کی
طرح تذکرہ کرتے ہیں۔ جب یہ مناظر مصنف کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں تو مصنف
ان کے بیان مین تشبیہات کا استعمال دل کھول کر کرتے ہیں۔نیز موقع کی مناسبت
سے کہیں کہیں اشعار بھی لکھ دیتے ہیں جس سے تحریر میں اور بھی روانی اور
دلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔پھر یہی نہیں کہیں کہیں قافیہ پیمائی بھی ہے نیز
محاورات کا ستعمال بھی خوب ہے اور ایک مقام پر”گل کھلانا“ کا استعمال خوب
ہے۔یون تو مصنف کا یہ سارا سفر منظر نگاری کے بہترین مرقعے پیش کرتا ہے جو
اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مصنف کو فطرت شناسی سے گہرا لگاؤ ہے۔اب میں ”دنیا
رنگ رنگیلی“ سے ایک چھوٹا سا اقتباس پیش کرکے اپنی بات ختم کرتی ہوں۔یہ
منظر کوئنز ٹاؤن کا ہے۔
یہ جھیل اتنی نیلی تھی جیسے اس میں کسی نے نیل گھول رکھا ہو۔ اتنی صاف و
شفاف جیسے صاف پانی کو نتھار کر کرسٹل کلیئر گلاس میں ڈال رکھا ہو۔اتنی
پرسکون جیسے محوِ خواب ہو۔ اتنی خاموش جیسے گاؤں کی رات ہو۔ یہ جھیل دائیں
جانب دور پہاڑوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ جب کہ بائیں جانب بھی اس کا سِرا
دکھائی نہیں دیتا تھا۔اس جھیل کے نیلے پانی،اس کی خاموشی،اس کا سکون،اس کی
وسعت،اس کی گہرائی اور اس کی شفافیت سے آنکھیں خیرہ ہورہی تھیں۔جھیل کی
وسعتوں میں کہیں کہیں رنگین کشتیاں کھلونوں کی طرح حسین لگ رہی تھیں۔ جھیل
کے کناروں پر رنگا رنگ پھول سر اٹھائے کھڑے تھے۔
آپ کی سماعتوں کا بہت شکریہ!
|