شگفتہ نامہ:کہانیاں، افسانے اور شاعری۔ ایک مطالعہ

کراچی کی ادبی فضا ؤں میں شگفتہ شفیق اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔ ان کی چوتھی کتاب ’’شگفتہ نامہ ‘‘ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ کسی بھی تخلیق کارکے لیے نئی تخلیق کا احساس عید کی خوشی سے کم نہیں ہوتا۔ یہ خوشی میں نے کل رات شگفتہ شفیق کے چہرہ پر اس وقت دیکھی
جب وہ اپنی کتاب دینے میرے گھر تشریف لائیں ۔ میرے گھر میرے ایک فیس بک دوست فیصل جوش آئے ہوئے تھے جو بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں، کتاب سے محبت کررکھتے ہیں، مصور بھی خوب ہیں، پبلشنگ بھی، آڈیو بک اسٹوڈیو اورHot FM 105 Pakistan ریڈیو سے بھی وابستہ ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ فیس بک دوست سے برسوں کے دوست ہوگئے۔ فیصل جوش کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو اپنے عروج پر تھی اس دوران شگفتہ شفیق کا فون آیا، گویا ہوئیں کہ اگر آپ گھر پر ہوں تو میں اپنی کتاب آپ کو دینے آجاؤں۔ میں نے کہا آجا ئیے میرے پاس ایک اور ادبی شخصیت موجود ہے ان سے بھی تعارف ہوجائے گا، کچھ ہی دیر میں دستک ہوئی ، وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ آموجود ہوئیں، ہاتھ میں شگفتہ نامہ، نئی تخلیق کی خوشی صاف عیاں تھی ، لمحہ بھر میں چند جملوں کا تبادلہ ہوا، انہوں نے مجھے اور فیصل جوش کو اپنی کتاب عنایت فرمائی اور یہ جا اور وہ جا۔ کتاب اگر بذریعہ ڈاک آتی تب بھی ،اگر کسی مہرباں کے ہاتھوں موصول ہوتی تب بھی کتاب پر لکھنا تو مجھے تھاہی ، اب جب کہ وہ بہ نفسِ نفیس گھر تشریف لائیں تو اخلاقی فرض نبھانا ضروری ہوگیا، چنانچہ میں نے اپنی دیگر مصروفیات ترک کیں اور شگفتہ نامہ میرا موضوع بن گیا۔“

کتاب کا ظاہر ی حسن دیدہ زیب ہے یعنی اس کا عنوان، رنگ برنگی پینٹنگ سے مزین ہے،آسمان سے ڈھلتے سورج کی کرنوں نے ساحل کو روشن کیا ہوا ہے، سمندری لہریں سفید جھاگ بن کر دم توڑتی زمین میں تحلیل ہو رہی ہیں ۔اس منظر میں اوپر’ شگفتہ نامہ‘ نیچے مصنفہ کا نام ،بیک کور پر مصنفہ کی تصویر ، کتابی خلاف پرکشش اور دیدہ ذیب ہے۔ کتاب تین حصوں پر منقسم ہے پہلا حصہ 14افسانوں پر مشتمل ہے ، ان افسانوں میں تیری گلی میں ، نقش وفا، سلسلے چاہ کے، چہرے نہ دیکھ، خود آگہی، ہم اکیلے ہیں، کھیل مقدر کا ، سحرا کا اندھیرا، وہ اک لمحہ، خالی گھر کے مکین، ایک سوال ، حقیقی سہارا ہے وہ، ایک موڑ ایسا آیا اور ایک روشن تاراڈوب گیا ۔ دوسر ا حصہ شاعری اور تیسرا حصہ احباب کی رائے نثر کے علاوہ منظوم خراج تحسین ہے۔

شگفتہ شفیق کے افسانے موجودہ عہد کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔افسانہ کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ان کی نظرزمانہ حال کے قاری کے مزاج اور اس کی علمی پیاس پر بھی دکھائی دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کہانیوں اور افسانوں اور ان کے کرداروں پر طول نہیں دیا۔ ان کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت ان کا مختصر ہونا ہے۔ ان کی زبان آسان اور سادہ، لہجے میں پختگی، الفاظ کا چناؤ اور استعمال عمدہ اور بر وقت ، اس کی نشست و برخاست دل میں اتر جانے والی ہے ، ان کے افسانوں کا پلاٹ دیو مالائی اور کردار مصنوعی نہیں بلکہ ان کی کہانیاں زندگی کے ارد گرد ہونے والے واقعات ، حادثات، رسم و رواج کے گرد گھومتی ہیں جب کہ ان کے کردار معاشرہ میں موجود عام کردار ہیں جو ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتے ہیں۔ ان کرداروں کو انہوں نے اپنے افسانوں میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ 352صفحات پر مشتمل شگفتہ نامہ شاعری ، افسانہ نگاری اور کہانی کاری کا خوبصورت مرقع ہے۔انہوں نے کسی سے انٹرویو میں یہ کہا بھی ہے کہ اگر وہ شاعرہ نہ ہوتیں تو افسانہ نگار ہوتیں۔ حالانکہ وہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔ ان کے مجموعہ ’’شگفتہ نامہ کا پہلا حصہ افسانوں کا ہی ہے۔مجموعے میں شامل تمام افسانے مجموعی طور پر معاشرہ میں ہونے والے حالات، واقعات، اچھائیوں اور خرابیوں کا احاطہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے ایک شعر میں شاعری اور افسانہ نگاری کے بارے میں کہتی ہیں۔

لکھتی ہوں میں کہانیاں افسانے تبصرے
لیکن ہے میرے دل کو پسند شاعری بہت
شاعری کے افق پر خواتین شاعرات میں شگفتہ ایک روشن اور چمکتا ستارہ کی مانند ہیں ۔ انہیں بطور شاعرہ نمایاں و معتبر مقام حاصل ہے۔وہ ایک پختہ کار نثر نگار بھی ہیں ، ان کی کہانیاں ، افسانے ، سفرنامے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ پیش نظر مجموعہ میں شاعری بھی ہے، کہانیاں بھی، افسانے بھی، کوئی پچاس کے قریب احباب کے مصنفہ کی شخصیت ، شاعری اور نثر نگاری پر تبصرے اور تجزیے شامل ہیں ، ان احباب کا تعلق امریکہ، کنیڈا، بھارت اور پاکستان سے ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’میرا دل کہتا ہے ‘‘ ، 2010ء میں منظر عام پر آیا تھا ۔اپنے پہلے مجموعہ کے بارے میں شگفتہ نے لکھا ہے کہ ’’میرا کتاب لانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ہم کو 2010ء میں بلڈ کینسر ڈائیگونس ہوا تھا تب ہم نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے ایکٹیوٹی تلاش کی اور اپنی چھپی ہوئی تخلیقات کو کتاب کی صورت دی ‘‘۔ دوسرا مجموعہ ’’یاد آتی ہے‘‘، 2012ء ، تیسرا ’’جاگتی آنکھوں کے خواب ‘‘، 2013،تھا اوراب ’’شگفتہ نامہ‘‘ ہمارے سامنے ہے جو کہ مصنفہ کی کہانیوں ،افسانوں اور شاعری کا خوبصورت مجموعہ ہے۔گویا وہ ایک شاعرہ ہی نہیں بلکہ اچھی نثر نگار بھی ہیں۔ اپنے کسی مکالمے میں انہوں نے ایک اورشعری مجموعے ’’سلسلے چاہ کے‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے یقینا وہ بھی جلد جلوہ افروز ہوگا۔ساتھ ہی سفر نامہ بھی زیر ترتیب ہے جو جلد منظر عام پر آجائے گا۔

کہتے ہیں کہ دل پر چوٹ پڑے یا من میں لڈو پھوٹیں تو شاعری کی صورت میں دل سے نکلے ہوئے وہ الفاظ ہوتے ہیں جن میں خوشی یا درد کا سمندر ٹھاٹھے ماررہا ہوتا ہے۔ شگفتہ نے یہ بات اس طرح کہی کہ ’شاعری تو انسان کے اندر کے موسم کی محتاج ہوتی ہے‘۔ شگفتہ کی شاعری کا آغاز درد، غم والم، حزن ، آزردگی، اندوہگیں کی کیفیت میں ہوا، وہ غم اور دکھ تھا ماں کے بچھڑجانے کا ، ماں کی اچانک موت نے شگفتہ سے شاعری کرائی ۔ بقول خود شگفتہ کہ ’’میری جان سے عزیز ہستی میری ماں جس کے بغیر مجھے سانس نہیں آتی تھی شدید ہارٹ اٹیک کے باعث دس منٹ میں مجھ سے بچھڑ گئیں تو اس وقت میں نے بہتے آنسووں کے درمیان کچھ نظمیں لکھیں جن کو لوگوں نے پسند کیا پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور ہم نے لکھنا اور چھپنا شروع کیا ، تب میں نویں جماعت کی طالبہ تھی‘‘۔ گویا شگفتہ نے المیہ شاعری سے اپنی تخلیق کا آغاز کیا، اور یہ کہ شاعری کا آغاز اس وقت سے شروع ہوا جب وہ نویں جماعت میں تھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ماں جیسی ہستی کا بچھڑجانا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے اس کا احساس اسی وقت ہوپاتا ہے جب یہ حادثہ رونما ہوتا ہے۔ شاعرہ سمیرہ سلطانہ کا ماں کے بارے میں ایک شعر۔
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مرجاتی ہے ماں
شگفتہ نے اپنی ماں کو خراج عقیدت اپنی نظم ’خواہش‘ میں اس طرح بیان کیا ؂
ماں تو کیا گئی ملکِ راہ عدم
میرا میکہ گیا ، میرا بچپن گیا
میری میٹھی سہانی نیندیں گئیں
میری چھاؤں گئی

شگفتہ کی زندگی کو غم والم کا دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب وہ بلڈ کینسر جیسے موزی مرض میں مبتلہ ہوئی اور اس مرض کا مقابلہ بلند ہمتی، حوصلے اور صبر شکر سے کرتے ہوئے اس مرض کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ دور اور مرحلہ شگفتہ کی زندگی کا کوئی آسان وقت نہیں ہوگا،
بڑے برے بہادر ، حوصلہ مند ایسے دشمن کے سامنے حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں لیکن ایک دھان پان سی لڑکی نے جس بلند ہمتی اور حوصلے سے اس مرض کا مقابلہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ مختلف مشکلات و امراض میں مبتلا ہوکر حوصلہ ہارجانے والوں کے لیے شگفتہ ایک مثال بھی ہے کہ اگر انسان چاہے ، اﷲ پر پختہ یقین، حوصلہ اور ہمت سے کام لے تو اﷲ بھی اس کی مدد کرتا ہے اور وہ اپنے اس دشمن کو شکست سے دوچار کرسکتا ہے۔ایسی صورت میں شگفتہ اگر اپنی قسمت پہ ناز کرتی ہیں تو وہ حق بہ جانب ہیں ؂
کس قدر مہر بان ہے مجھ پر خدا
اپنی قسمت پہ ناز کرتی ہوں

شاعری انسان کے اندر کی منفی یا مثبت کیفیت کا خوبصورت الفاظ سے اظہار ہے۔ بقول شگفتہ ’کوئی بھی خوبصورت یاد یا لمحہ نہ صرف میرے لبو پر مسکراہٹ بکھیر جاتا ہے بلکہ میں اس کا فوراً لکھ کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیتی ہوں ، ویسے مجھے ساون کا حسین موسم دل سے بھاتا ہے اور بہت کچھ لکھنے پر اُکساتا ہے اور ایسے موسم میں ادھورے وعدے اور رشتے یاد آکر دل تڑپاتے ہیں اور آنکھیں بھگوجاتے ہیں‘۔ ایک جانب موسم شاعر کو مجبور کرتا ہے تو دوسری جانب احساس، خیال ، اچھے برے حالات اور واقعات بھی لکھاری کو قلم اٹھانے سچائی کو سامنے لانے پر مجبور کرتے ہیں۔ لکھاری چاہے شاعر ہویا نثر نگار اپنے ارد گرد کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا وہ انہیں محسوس کرتا ہے اور اس کا اظہار کرتا ہے ۔ شگفتہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ ’’وہ عام معاشرتی مسائل دیکھ کے اپنی روح کو سکون دینے کے لیے کاغذ اور قلم تھام لیتی ہیں‘‘۔ اردو کی مختلف اصناف میں شاعری شگفتہ کی پسندیدہ اصناف ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے شعری مجموعو ں کی ہیٹرک ہوچکی ہے ۔شگفتہ کی شاعری میں بناوٹ یا الفاظ کا بے جا استعمال نہیں ہے بلکہ اس میں سادگی ہے، رچاؤ ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس کی شاعری میں اس کے اندر کے دلی احساسات اور جذبات کا سادہ طریقے سے اظہار ہے۔ گویا شگفتہ کی شاعری اس کی روح کی ترجمان ہے ، عشق و محبت ، حسن و دل کشی اور اس کے اندر چھپی شاعرہ کے احساسات و جذبات نمایاں ہیں۔ یہی بات اس نے اپنے ایک شعر میں تسلیم بھی ہے ؂
خدا کی عطا میرا تخلیقی جوہر
مری شاعری ، روح کی ترجمان

شگفتہ کی شاعری پر متعدد اہل قلم اپنے نثر اور نظم میں اظہار خیال کیا ہے۔ جن میں شگفتہ کی شاعری کو روح کی ترجمان ، سبک لہجے کی شاعرہ، نئی نسل کی نمائندہ شاعرہ، محبت کی علامت، باصلاحیت شاعرہ کہا۔ اور ان سب باتوں میں کوئی ابہام نہیں وہ واقعی ایک اچھی شاعرہ ہے۔ اس کے کلام میں سچائی ، دردمندی، جان سوزی اور جذبہ حیات اثار کے احساسات پائے جاتے ہیں۔شگفتہ نے حمد بھی کہیں نعتِ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم بھی، نظمیں بھی ، غزلیں بھی، قطعات بھی ، رباعیات بھی۔ اس کے کلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ چاہے مصرعے چھوٹے چھوٹے ہوں لیکن ان کے پیچھے وسیع مفہوم پوشیدہ نظر آتا ہے۔ گویا اس کا ظاہری پن مختصر لیکن باطن میں اس کے کلام کا قد کاٹ بلند ہے۔ غزل کا مطلع دیکھیں ؂
طلبِ عشق مٹا دی ہم نے
اُس کو روکا نہ صدا دی ہم نے

شاعری میں دکھ و تکلیف، غم و اندوہ، دکھ اور کرب کے احساسات کو خوبصورت الفاظ میں ڈھالنا شاعر کا فن قرار پاتا ہے۔ زندگی میں شاعر پر جو گزرتی ہے یا معاشرے میں جو کچھ اس نے دیکھا ، محسوس کیا اسے اشعار کی صورت میں پیش کردیتا ہے ۔ شگفتہ ایک درد مند دل رکھتی ہیں، انہوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا، پرکھا اور محسوس کیا ہے۔ ان کی شاعری گویا ان کے انہی تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔شگفتہ نے شاعری میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو عام زندگی میں معروف اور عوام الناس ان سے اچھی طرح آگاہ ہیں ۔ ان کا انداز اور لب و لہجہ سیدھا سادھا اور عام فہم ہے ؂
یہ آنسوؤں کے خزانے یہ جاگتی آنکھیں
ترے دئے ہوئے تحفے کدھر چھپاؤں گی

شاعرہ نے اپنی بات کو بیان کرنے کے لیے بے تکلفی سے کام لیا ہے وہ اشارون اور کنایوں میں بات نہیں کرتیں بلکہ جو بات کہنی ہوتی ہے اسے صاف صاف کہہ ڈالتی ہیں۔ یہی ادا ان کی شاعری کو منفرد بناتی ہے۔ بلا شبہ مصنفہ نہ صرف ایک اچھی شاعرہ ہی نہیں بلکہ وہ ایک اچھی افسانہ نگار بھی ہیں۔شگفتہ شاعرہ ہی نہیں بلکہ افسانہ نگار اور کہانی کار بھی ہیں ۔ ؂
چھپ گیا ہے’ شگفہ نامہ‘ شگفتہ شفیق کا
شاعری میں ایک مقام ہے شگفتہ شفیق کا
ادب کے تمام ہی رنگ ہیں اس میں
پسندسب ہی نے کیا مجموعہ شگفتہ شفیق کا
(21اکتوبر2019ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277403 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More