ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقہ پر حملہ کے بعد کئی
ممالک کی جانب سے ترکی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ اس کے جواب میں ترکی
کے صدر رجب طیب اردغان نے شمالی شام پر کئے جانے والے ابتدائی حملے کے بعد
کہا کہ اس حملے میں اب تک 109دہشت گردوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے ، انہوں نے
کہا کہ ترک افواج نے یہ حملہ شام کے کرد جنگجوؤں کے خلاف کیا ہے۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق طیب اردغان نے اس حملے کے بعد بعض یوروپی ممالک کی جانب سے
ترکی کے خلاف بیان بازی کے بعد ان ممالک کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر
تم لوگوں نے ترک افواج کے شام پر حملے کو قبضہ کرنے کی کوشش کہا تو ترکی
میں جو 36لاکھ شامی اور عراقی پناہ گزیں موجود ہیں انہیں وہ یورپ بھیج دیں
گے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق جیسا کہ اوپربتایا گیا ہیکہ ترک افواج نے شام کے
شمالی حصے پر حملہ کیا ہے اور ان کی کرد جنگجوؤں کے خلاف پیش قدمی جاری ہے۔
ترک وزارت دفاع کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ پہلے فضائی
حملے میں ہی کرد شدت پسندوں کی عراق سے سپلائی لائن کاٹ دی گئی ہے۔ذرائع
ابلاغ کے مطابق رجب طیب اردغان نے شمالی شام میں فوری جنگ بندی کی امریکی
اپیل کو مسترد کرتھی اور کہا تھا کہ ترکی کی پیشرفت جاری رہے گی۔ مریکہ کی
جانب سے ترکی پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں ۔ برطانوی ذرائع ابلاغ کے
مطابق امریکہ کی جانب سے ترکی کی وزارت دفاع اور توانائی پر پابندیاں عائد
کی گئی ہیں جب کہ ترکی کے دو وزراء اور تین سینئر عہدیداروں پر بھی پابندی
لگادی گئی ۔اس سلسلہ میں امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوشن نے واشنگٹن ڈی سی
میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پابندیاں بہت سخت ہیں جن کے ترکی کی
معیشت پر شدید اثرات مرتب ہونگے۔ترکی کو جنگ بندی پر راضی کرنے کیلئے
امریکی نائب صدر مائک پینس اور امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو 17؍ اکٹوبر
کوترکی پہنچے ۔ روزنامہ پاکستان کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردغان نے شام کے
مسئلے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست بات چیت کرنے کا عندیہ دیا
تھا لیکن امریکی نائب صدر کے ساتھ انکی ملاقات ذرائع ابلاغ کے مطابق چار
گھنٹے طویل رہی اور اس موقع پر ان قائدین کے درمیان 120گھنٹے کیلئے عارضی
جنگ بندی 1کا معاہدہ طے پایا ۔اس عارضی جنگ بندی کے دوران کردوں کو متاثرہ
علاقوں سے نکلنے کا موقع دیا جائے گا۔امریکی نائب صدر نے صحافیوں سے گفتگو
کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی اور امریکہ نے شام میں سیف زون کے قیام پر اتفاق
کیا ہے، ترکی اور امریکہ داعش کے خلاف متحد ہیں ،اوردونوں ملکوں کا داعش کو
شکست دینے کا مشترکہ مفاد ہے۔پاکستانی ذرائع کے مطابق مائیک پینس نے امریکی
صدر ٹرمپ سے اس معاہدہ کے سلسلہ میں بات کی جس پر امریکی صدر نے عارضی جنگ
بندی پر خوشی کا اظہار کیا۔ امریکی نائب صدر نے کہا کہ جنگ بندی معاہدہ طے
پانے کے بعد ترکی پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ روک دیا گیا ہے، جس
وقت جنگ بندی کا مستقل معاہدہ طے پاجائے گا اس وقت ترکی پر 14؍ اکٹوبر کے
روز عائد کی جانے والی پابندیاں بھی اٹھالی جائیں گی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر
ہے کہ ترکی کے صدر اردغان نے امریکی نائب صدر سے ملاقات سے قبل ان سے
ملاقات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ صرف امریکی صدر سے ملاقات
کریں گے جبکہ ترکی میں امریکہ سے آنے والا وفد اپنے ہم منصبوں سے ملاقات
کرے گا لیکن اب صدر ترکی کی امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملاقات سب کے
لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ ترکی کردو ں کو دہشت گرد تصور کرتا ہے ،
بتایا جاتا ہے کہ کرد فورسز کے ترک سرحد کا قریبی علاقہ خالی کرنے تک جنگ
بندی ممکن نہیں اسی لئے سمجھا جاتا ہے کہ کردوں کو یہاں سے نکلنے کیلئے
عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا ہے ۔انقرہ کا شمالی شام کے علاقے میں
اپنی فوجی کارروائی کا مقصد بتاتے ہوئے کہنا ہے کہ کرد افواج کو سرحدی
علاقے سے پیچھے دھکیلنا ہے اور انقرہ (ترکی) کی حکومت کے مطابق وہ وہاں ایک
’’محفوظ زون‘‘ کے قیام کا خواہاں ہے۔ محفوظ زون یا سیف زون کا مطلب ہیکہ
ترکی شام کے اندر 30کلو میٹر تک پہنچ جائے گا جہاں وہ بیس لاکھ شامی پناہ
گزینوں کی آبادکاری کا منصوبہ رکھتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان پناہ گزینوں
میں کرد تعداد میں بہت کم ہیں۔ اور اس سلسلہ میں ناقدین کا کہنا ہیکہ اس سے
کرد آبادی کی نسل کشی کا خدشہ ہے۔ ترکی کی جانب سے کی جانے والی کارروائی
کے جواب میں شامی فوج بھی سرحد کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
بتایا جاتا ہیکہ روس کی حمایت میں ہفتے کے دن شامی فوج نے سرحد کی جانب کوچ
کیا ہے اور کردوں کے ساتھ معاہدے کے بعد وہ ترک آپریشن کو روکنے کے لئے بڑھ
رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شمالی شام کے اس علاقے میں امریکی فوج
تھی جس کے انخلا کا گذشتہ ہفتہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا اس اعلان
کے بعد سمجھا جارہا ہے کہ ترکی کو اس حملے کے لئے امریکہ نے ہی ’’ہری جھنڈی
‘‘ دکھائی ہے اور عارضی جنگ بندی معاہدہ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتاہیکہ
امریکی ترکی کے فیصلہ پر رضا مند ہے۔ امریکہ کی جانب سے ترکی پر پابندیاں
عائد کرنے کے اعلان کے بعد رجب طیب اردغان نے امریکہ کے اس فیصلہ کو
نظرانداز کرتے ہوئے اپنی فوجی کارروائی کو جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا ۔
عارضی معاہدہ سے قبل رجب طیب اردغان نے گذشتہ دنوں صحافت سے بات کرتے ہوئے
کہاتھا کہ وہ جنگ بندی کے اعلان کی بات کہتے ہیں ، ہم کبھی بھی جنگ بندی کا
اعلان نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ وہ ہم پر آپریشن بند کرنے کے لئے دباؤ
ڈال رہے ہیں ، وہ پابندیوں کا اعلان کررہے ہیں، ہمارا مقصد واضح ہے ، ہم
کسی بھی پابندی سے پریشان ہونے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مسئلہ پر ڈیل
بھی صرف امریکی صدر سے بالمشافہ کرنے کی بات کہی تھی لیکن اب معاملہ کچھ
تبدیل ہوچکا ہے۔ ادھر روس کا کہنا ہے کہ وہ ترکی اور شامی فوجوں کے درمیان
تصادم ہونے نہیں دے گا۔روس شامی صدر بشارالاسد کا اہم اتحادی ہے اور روس کی
افواج 2015سے شام میں موجود ہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ ترکی صدر رجب طیب اردغان
اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اور کردوں کو اس علاقے سے نکال کر
شامی پناہ گزینوں کو بسانے میں انہیں کس حد تک امریکہ کا تعاون حاصل ہوگا
اور کس طرح انہیں روس، شام، اور کرد ملیشیاؤں سے نبرد آزما ہونا پڑے گا ۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کیلئے عمران خان کی پیشقدمی
سعودی عرب اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دور کرنے کیلئے
مصالحتی کردار ادا کرنے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی شخصیت نمایاں حیثیت
اختیار کرتی جارہی ہے۔ عمران خان گذشتہ دنوں ایران کا دورہ کرچکے ہیں اس
موقع پر انہوں نے ایران کے صدر حسن روحانی اور ایرانی مذہبی پیشواآیت اﷲ
خامنہ ای سے ملاقات کی، اس دورے کے بعد عمران خان نے سعودی عرب ریاض کا
دورہ کیا ۔سعودی عرب میں عمران خان کا شاندار استقبال کیا گیا ،انہوں نے
سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولیعہد محمد بن سلمان سے علحدہ
علحدہ ملاقات کی۔عمران خان کی یہ کوشش کتنی کامیاب ہوتی ہے یہ تو آنے والا
وقت ہی بتائے گا لیکن دونوں ممالک کی جانب سے مثبت ردّعمل سامنے آیا ہے ۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں مزید
بگاڑ چند روز قبل اس وقت پیدا ہوئی جب بحیرہ احمر میں جدہ کی بندرگاہ سے
تقریباً 60میل دور ایرانی ٹینکر پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا ، ایران نے
اشارتاً سعودی عرب پر حملے کی ذمہ داری عائد کی ہے ، جبکہ سعودی عرب نے
حملے میں ملوث ہونے کے اس الزام کی تردید کی ہے ، سعودی وزیر خارجہ عادل
الجبیر نے کہا کہ ’ہم اس طرح کے حربے استعمال نہیں کرتے‘۔ اسی طرح گذشتہ
ماہ سعودی عرب کے دوشہروں ابقیق اور خریص میں آرامکو کمپنی کی تنصیبات پر
ہونیو الے حملوں کا الزام امریکہ اور سعودی عرب نے ایران پر عائد کیا تھا۔
تاہم یمن میں حوثی باغیوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کرتے
ہوئے کہا تھا کہ یہ حملہ انہوں نے سعودی جارحیت کے جواب میں سعودی عرب کی
تیل کی تنصیبات پر کیا ہے۔ ایران نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا ،
اس سے قبل بھی ایران کے ساحل اور عمان کے ساحل کے قریب بھی آئیل ٹینکروں پر
حملے ہوئے تھے اور ان حملوں کیلئے بھی ایران پر الزام عائد کیا گیا تھا
تاہم ایران نے اس وقت بھی اس کی تردید کی تھی۔ان حملوں کی ذمہ داری بھی یمن
کے حوثیوں نے قبول کی تھی۔ان تمام حملوں کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب کے
درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے
کے بعد امریکہ نے اپنی فوج سعودی عرب میں تعینات کرنے کا اعلان کیا
ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کی جانب سے سعودی عرب میں بڑھتے ہوئے خطرات
سے نمٹنے کے لئے مزید فوجی اور جدید ہتھیار بھیجے جارہے ہیں۔ امریکی دفاع
کا کہنا ہے کہ تین ہزار اضافی فوجی سعودی عرب بھیجے جارہے ہیں ، لڑاکا
طیارے، ایئر ڈیفنس سسٹم اور پیٹریاٹ میزائل سعودی عرب بھیجے جائیں گے۔
پینٹا گون کا کہنا ہے کہ ٹرمینل ہائی الٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس سسٹم ’تھاڈ‘
بھی نصب کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ 360ڈگری کوریج کرنے والے 64ریڈار بھی
نصب کیے جائیں گے پینٹاگون کا کہنا ہے کہ سلطنت کو بڑھتے خطرات سے نمٹنے
کیلئے اقدامات ضروری ہیں، امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ سعوی ولی عہد نے فوجی
تعاون کی درخواست کی تھی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ سعودی عرب ہمیں
ملک میں ہزاروں اضافی امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی قیمت ادا کرے گا۔بتایا
جاتا ہیکہ وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ
ہم سعودی عرب کی مدد کے لئے مشرق وسطیٰ میں فوجی اور دیگر سازوسامان بھیج
رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کی درخواست پر سعودی عرب ہر چیز کی ادائیگی
پر رضامندی کا اظہار کیا ہے جس کے لئے انہوں نے سعودی عرب کو سراہا
ہے۔امریکہ تو اپنے ہتھیاروں کی نکاسی اور فوج کے تمام اخرجات کروڑوں ڈالرس
سعودی عرب سے حاصل کرلے گا لیکن سعودی عرب اور ایران کے درمیان اگر جنگ
چھڑجاتی ہے تو اس کا نقصان عالمی معیشت پر خطرناک حد تک پڑے گا۔ایران اور
سعودی عرب کے درمیان کسی بھی فوجی کارروائی کا اثر ہندو پاک اور عرب و دیگر
ممالک پر پڑیں گے۔ ان کشیدہ حالات سے نکالنے کیلئے اور دونوں ممالک کے
درمیان امن وآمان کے قیام کے لئے پاکستانی وزیراعظم کی کوششیں اہم رول ادا
کرسکتی ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی مرتبہ تعلقات کشیدہ بھی رہے
ہیں ۔ سعودی عرب اور ایران امریکہ کے حلیف ممالک رہے ہیں ، ذرائع ابلاغ کے
مطابق ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات 1929ء میں قائم ہوئے تھے لیکن
جب ایران نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو اس کے سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ
ہوگئے تھے لیکن اب ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید مخاصمت دکھائی دیتی ہے
۔ 1960ء میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی اور
1966ء میں اس وقت کے سعودی عرب فرمانروا شاہ فیصل نے ایران کا دورہ کیا تھا
کیونکہ وہ اپنے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے تھے اور اسی
پالیسی کے نتیجہ میں انہوں نے ایران کا دورہ کیا تھا ۔ انکے دورے کے بعد
شاہ ایران نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا جسمیں وہ مکہ معظمہ اور مدینہ
منورہ میں عمرہ اور زیارات کیلئے گئے۔ لیکن یہ تعلقات زیادہ دیر قائم نہ رہ
سکیں۔خیر سعودی عرب ایران کے درمیان تعلقات میں کئی مرتبہ اتار چڑھاؤ آتا
رہا کبھی کشیدگی پائی گئی تو کبھی تعلقات میں کچھ بہتری پیدا ہوئی۔1979ء
میں انقلاب ایران کے بعد سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک نے ایران کے خلاف
متحد ہوگئے تھے اس کی وجہ بادشاہوں کوامام خمینی کی جانب سے انقلاب برآمد
کرنے کی بات پر خطرہ محسوس ہوا تھا۔ عراقی صدر صدام حسین کے بارے میں شدید
تحفظات کے باوجود سعودی عرب نے عراق ایران جنگ کے موقع پر عراق کا بھرپور
ساتھ دیا تھا، بتایا جاتا ہے کہ اس جنگ میں دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس موقع پر اُس وقت کے پاکستانی صدر مرحوم جنرل ضیاء الحق نے مصالحتی
کوششیں کی تھیں اور انہوں نے بغداد، تہران، ریاض اور کئی اسلامی ملکوں کے
ہمراہ اس جنگ کو رکوانے کیلئے دورے کئے تھے لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں
ہوئی۔بتایا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان پر دباؤ تھا کہ وہ ایران پر حملہ
کریں لیکن جنرل ضیاء الحق نے انکار کیا اسی طرح2015میں بھی یمن کی جنگکے
آغاز پر سعودی عرب نے حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیاتھا اور اس
موقع پرسعودی عرب نے پاکستان سے فوجی امداد مانگی تھی لیکن پاکستان نے دو
مسلم ملکوں کے درمیان جنگ میں کسی کا فریق بننے سے گریز کیا۔ اس وقت کی
نواز شریف حکومت نے پارلیمنٹ میں تاریخی فیصلہ کے ذریعہ اس جنگ میں شرکت نہ
کرنیکا فیصلہ کرکے سعودی عرب سے ناراضگی حاصل کرلی۔ اب جبکہ ایران اور
سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات دوستانہ رہے ہیں اور دونوں ممالک
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کی جانے مصالحت کی کوشش کا خیر
مقدم کرتے ہوئے مثبت ردّعمل کا اظہار کئے ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ، فرانس نے
سعودی عرب کی تیل تنصیبات پرحملہ کیلئے ایران پر ذمہ داری عائد کی ہے لیکن
اب تک ایران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کی ہے ، چین نے سعودی عرب کی
تیل کی تنصیبات پر حملہ کی ذمہ داری ایران پر عائد کرنے سے گریز کیا ہے
جبکہ روس نے کہا ہیکہ اسے علم نہیں کہ تیل کی تنصیبات پر حملہ کس نے کیا ہے
اس طرح صاف ظاہرہوتا ہیکہ عالمی طاقتیں ایران پر جنگ مسلط کرنا نہیں چاہتے
۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بھی سعودی عرب کے دورے کے موقع پر سعودی عرب
اور ایران کے درمیان مصالحت کی پیشکش کی ہے اور اب عمران خان کی جانب سے
مصالحت کی کوشش بارآور ثابت ہوسکتی ہے ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا امن
و آمان کے قیام اور تمام اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری دشمنانِ
اسلام چاہیں گے کیونکہ انہیں اپنے کروڑوں ڈالرس کے ہتھیاروں کی نکاسی کرنا
ہے اور اپنی فوج کا خرچہ بھی کسی نہ کسی صورت میں اسلامی ممالک سے حاصل
کرنا ہے ۔ کاش اسلامی ممالک کے حکمراں اس بات کو سمجھ پاتے!
برطانوی شاہی جوڑے کی پاکستان میں خوب پذیرائی
شہزادہ ولیم اور شہزادی ڈچز آف کیمبرج کیٹ مڈلٹن گذشتہ دنوں پاکستان کی سیر
و سیاحت کیلئے پانچ روزہ دورے پر آئے ہوئے تھے۔ شہزادہ ولیم ،شہزداہ چارلس
اور لیڈی ڈیانا کے بڑے بیٹے ہیں ۔شہزادہ ولیم اور انکی اہلیہ شہزادی کیٹ
مڈلٹن پاکستان پہنچ کر مشرقی تہذیب و اقدار میں گھل مل گئے ، اس جوڑے نے
پاکستان کی سیر و سیاحت کے دوران پاکستانی لباس زیب تن کیا اور پاکستانی
عوام کے ساتھ خوشیاں بانٹیں۔ برطانوی شاہی خاندان کے کئی افراد پاکستان کے
دورے کرچکے ہیں ۔ خاص طور پر شہزادہ ولیم کی والدہ لیڈی ڈیانا پاکستان کا
تین مرتبہ دورہ کرچکی تھیں۔ وہ سب سے پہلے 1991ء میں پاکستان کا دورہ کیا
تھا اور اس موقع پر انہو ں نے سادہ انداز میں اور مقامی فیشن کو اپنانے کی
کوششوں کے ذریعہ پاکستانی عوام کا دل جیت لیا تھا۔ اس کے بعدانہوں نے 1996ء
میں عمران خان کی سابق بیوی جمائما خان کی دعوت پر دو دن کے نجی دورے پر
لاہور آئیں اور یہاں انہوں نے شوکت خانم کینسر ہاسپتل کیلئے پیسے اکھٹے
کرنے کی غرض سے منعقد کئے جانے والی چند تقریبات میں حصہ لیا ، اس دورے کے
وقت لیڈی ڈیانا اور شہزادہ چارلس کے درمیان علحدگی ہوچکیت تھی ۔ اس کے بعد
حادثہ میں ہلاکت سے قبل لیڈی ڈیانا نے 1997ء میں شوکت خان کینسر ہاسپتل کی
افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی۔ شوکت خانم کینسر ہاسپتل وزیر اعظم عمران
خان کی والدہ کے نام سے موسوم ہے اور یہ عمران خان کی جانب سے قائم کیا گیا
ہے۔اسی طرح ملکہ الزبتھ دوم برطانیہ نے 1961ء میں برصغیر کا دورہ کیا اور
پاکستان بھی آئیں، اس وقت کے صدر پاکستان ایوب خان نے انکا استقبال کیا
تھا۔ ملکہ الزبتھ نے 1997ء میں بھی پاکستان کی آزادی کے 50سال مکمل ہونے کے
سلسلے میں منعقدہ تقریبات میں حصہ لیا تھا اور یہ دورہ شہزادی ڈیانا کی
ہلاکت کے صرف پانچ ہفتوں بعد منعقد کیا گیاتھا۔ اس وقت صدر فاروق لغاری تھے
۔ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن نے پاکستانی عوام کے درمیان جس طرح
پاکستانی لباس یعنی شلوار قمیص ، روایتی لباس شیروانی پہنی تو ان کی خوب
مدح سراہی ہوئی۔
***
|