وقت کا بے لگام گھوڑا

ہونی ہوکررہتی ہے۔جوپیشانی میں ہے،اسے پیش آناہے۔جوکاتب تقدیرنے لکھاہے اسے پوراہوناہے۔خیریاشر۔برایابھلا۔جوکچھ بھی آنے والے ایک پل کے پردے میں چھپاہے۔پل گزرتے ہی سامنے آجاناہے۔اگلے پل کے پیچھے کیاچھپاہے،کیاسامنے آئے گا۔ پچھلے پل کاتسلسل یااس کے بالکل برعکس۔کون جانے،کس کومعلوم؟
انسان کے بس میں کب کچھ ہے؟جوکچھ ہے سلطان کے بس میں ہے جورحمان ورحیم بھی ہے،قہاروجباربھی لیکن کیاواقعی ایسا ہے؟کیاکوئی کاٹھی نہیں،جووقت کی بے لگام گھوڑے پرڈالی جاسکے۔ کوئی لگام نہیں جواس گھوڑے کامنہ موڑدے؟کیاکوئی چابک نہیں جواس اڑیل کوصحیح سمت میں رواں رکھ سکے؟کیا کوئی رکاب نہیں جوسوارکوسواری کی پیٹھ سے چپکاسکے، اسے اوندھے منہ گرنے سے بچاسکے؟
نہیں ایسانہیں ہے،رب رحمان نے انسان کوسمجھایاکہ ہونی ہوکررہتی ہےجوپیشانی میں ہے اسے پیش آناہے۔کاتب تقدیرنے لکھاہے اسے پوراہوناہےلیکن ہونی کیا ہے،پیش کیاآنا ہے، کاتب تقدیرنے کیالکھاہے،سوائے اس کے کہ”بِمَا كَسَبَتْ ایدھم” جوکچھ تم نے اپنے ہاتھوں سے کمایاہے۔اس نے راستے دکھائے ہیں۔”۔بھلائی اوربرائی کے راستے۔اس نے تو سمجھایاہے”ہم نے الہام کیاہے،برائی کابھی،بھلائی کابھی”۔اس نے توبارباریاددلایاہے۔”اس نے تووعدہ کیاہے۔”وہ کسی عمل کرنے والے کاعمل ضائع نہیں کرتا”۔اورپھراس نے کہاہے تول لیاجائے گاتمہاراہرعمل اچھایابرا، چھوٹا یابڑا،اورفیصلہ کردیاجائے گا تمہارے فلاح یا خسارے کا۔اس نے انسان کومتنبہ کیاہے۔
“وقت کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں۔”اوریہ بھی بتایاہے کہ اس خسارے سے کیسے بچاجائے۔اس نے وقت کامنہ زور گھوڑاہی تخلیق نہیں کیا،اس نے کاٹھی بھی دی ہے،لگام بھی،چابک بھی دی ہے،رکاب بھی۔ایمان کی کاٹھی،عمل صالح کی لگام ۔تواصی حق کی چابک اورتواصی صبرکی رکاب۔تاریخ سے پوچھ کردیکھئے۔کون ہے جس نے وقت کے بے لگام گھوڑے کو قابوکرنے کیلئے ان اجزاءکواستعمال کیاہو،اورناکام رہاہو۔کون ہے جس نے ان اجزاءسے دامن چھڑایاہواورکامیاب ہواہو۔
لیکن ہمارامعاملہ عجیب ہے۔ہماراحال یہ ہے کہ”تمنابرق کی رکھتاہوں اورافسوس حاصل کا”۔سمجھانے والے سمجھاتے رہ جائیں ۔راہ دکھانے والے راہ دکھاتے رہ جائیں۔ہم کسی کی کب سنتے ہیں۔ہم کہ عقل کل ٹھہرے،کب کسی کی مانتے ہیں۔ہم اللہ کو مانتے ہیں لیکن نہ اس کے دین کومانتے ہیں نہ یوم الدین سے ڈرتے ہیں۔ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اس سے ہدایت نہیں لیتے۔ہم نبی کریمۖ سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کی اطاعت نہیں کرتے۔زندگی ہم فرعونوں کی طرح گزارتے ہیں لیکن عاقبت موسیٰ کی مانگتے ہیں۔ہم اپنے آپ کواعتدال پسند،روشن خیال اورجمہوریت کے شیدائی کہتے نہیں تھکتےلیکن اپنے رویوں میں انتہاپسندی، تاریک خیالی،اورآمریت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کہیں اقتدارکاسنگھاسن نہ ڈول جائے۔اقتدارقائم رکھنے کاخاندانی رازبزرگوں سے سیکھاکہ باپ دادانے بھی اطاعت میں زندگی گزاری،جس کسی نے حق کی طرف توجہ دلائی اس کوزنداں کی تاریکی میں پھینک دوکہ اس کاعلاج یہی ہے!
کشمیرمیں مسلمانوں کی اکثریت تودین حق کی مرہونِ منت ہے،اس کواقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش توان حق کی قوتوں سے جنگ کے مترادف ہے۔اس کے سامنے بھلاپہلے کون ٹھہراہے۔وہ تواپنے بندوں کویاددلاتاہے…..”اورہم ضرورتمہیں خوف وخطرہ،فاقہ کشی،جان ومال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے،ان حالات میں جوصبرکریں اور جب کوئی مصیبت آن پڑے ، توکہیں کہ،ہم اللہ ہی کے ہیں اوراللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کرجاناہے،انہیں خوشخبری دے دو،ان پران کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،اس کی رحمت ان پرسایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست روہیں۔اس کھلی خوشخبری کے بعدبھلاکوئی حق پرست کیسے ان زندانوں سے ڈر سکتاہے!
کیاایک لاکھ سے زائدجانوں کی قربانی اس بات کی روشن دلیل نہیں کہ جس رب نے ہرانسان کوآزادپیداکیاہے،وہ ہرحال میں حریت کیلئے اپنی جاں تک قربان کر دینے کاعزم رکھتاہے۔اس مردم شماری سے اگرسروں کی گنتی مقصودہے توپھران مجبورو مقہوربے گناہ سرفروشوں کی تعدادبھی سامنے آنی چاہئے جوکشمیر کی آزادی کیلئے قلم کر دیئے گئے۔ان اجتماعی قبروں میں دفن گمنام شہداءکابھی حساب ہوناچاہئے جن کی مائیں ابھی تک نوحہ کناں ہیں،جن کے معصوم بچے اپنے والدین کی صورت دیکھنے کوترس رہے ہیں۔ان معصوم جوان بچیوں کابھی حساب ترتیب دیناہوگاجن کی عصمتیں لوٹ لی گئیں۔
سات دہائیاں پہلے اسی ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرونے خودپاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی کو ٹیلیگرام میں کشمیریوں کوحقِ خودارادیت دینے کاوعدہ کیاتھااوربعد میں بھارتی وفدنے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کاوعدہ کیاتھااورآج تک وہ قراردادیں عمل درآمدکی منتظرہیں اوراس تمام عرصے میں کشمیریوں کوحق خوداردیت سے محروم رکھ کے بھارت نے خوداپنی شکست تسلیم کرلی ہے اورایک لاکھ سے زائدشہداءاور ہزاروں بیٹیوں کی عصمت وعفت کی قربانی اوروقت نے کشمیرکافیصلہ سنادیاہے کہ ریاست کشمیر کے باسی بھارت کے ساتھ رہنے کیلئے قطعاًتیارنہیں۔اگر بھارت کواپنی کامیابی کاایک فیصد بھی یقین ہوتاتواب تک وہ اس عمل سے گزرچکاہوتا۔ کشمیریوں کی ثابت قدمی اوربے پناہ قربانیوں کے سامنے اس نے ہتھیار پھینک دیئے ہیں اوراسی وجہ سے وہ ایسے حیلے بہانے ڈھونڈرہاہے کہ کس طرح کشمیریوں کی تعدادکوکم دکھاکرعالمی فورم کے دباؤکوکم کیاجاسکے۔
کیادنیاکواتنابڑادھوکہ دینے میں وہ کامیاب ہوسکیں گے کہ ہندوستان میں توپچھلے72سالوں میں مسلمانوں کی آبادی 24٪سے زائدبڑھ جائے اورکشمیرمیں مسلمانوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جائے۔جموں،کٹھوعہ اوراس کے گردونواح میں غیرریاستی باشندوں کوغیر قانونی طورپرآبادکرنے کی مکروہ سازش اسی بنیادپرکی گئی ہے کہ تناسب میں تبدیلی لائی جاسکے جوکہ عالمی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔کشمیرکے مردحرسیدعلی گیلانی نے بروقت کشمیری قوم اورساری دنیا کواس سازش سے خبردارکیاہے کہ”حکومت مردم شماری کی مہم کے تحت نہ صرف یہاں تعینات فوج اورفورسزکی گنتی کررہی ہے بلکہ ان بھکاریوں کی بھی گنتی کی جارہی ہے جوپچھلے چھ مہینوں سے مقیم ہیں۔”مزیداس حکومتی خطرناک چال سے آگاہ کرتے ہوئے جناب سیدعلی گیلانی نے بالکل صحیح فرمایا”دراصل ایک منظم سازش کے تحت بھارت کی ہندوشدت پسند تنظیموں کے ان عزائم کوپوراکرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کامقصدجموں و کشمیرکے مسلمانوں کواقلیت میں تبدیل کرناہے”۔
تاریخ کایہ عبرتناک عمل ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتاہے تومٹ جاتاہے۔کشمیریوں نے اپنے ایک لاکھ شہداءسے زائد کی قربانیوں سے یہ ثابت کردیاہے کہ اگرروس اورامریکااپنی بے پناہ طاقت کے بل بوتے پرعراقیوں اورافغانیوں کونہ دباسکے تو بھارت توان سے زیادہ طاقتورنہیں ہے۔مجھ سے ایک امریکی صحافی نے سوال کیا کہ”آخرنہتے کشمیری اور کتنی دیرلڑتے رہیں گے؟ “”بہترہوتااگرتم یہ سوال بھارتی حکومت سے کرتے کہ وہ کتنی دیراورکشمیریوں سے لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں”!میرے دل سے اٹھنے والی یہ آوازشائدکشمیریوں کے ترجمانی کرسکی یانہیں لیکن اس امریکی صحافی نے فوری اس بات کااعتراف کیاکہ مظلوم کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرسکا،یہی تاریخ کاعبرتناک سبق ہے جوبالآخران ظالموں کامقدربنے گا”۔
مجھے چنددن پہلے ایک کشمیری نوجوان کی ایک طویل ای میل موصول ہوئی،اس نے اپنے طویل پیغام میں یہ تین سوال بھی پوچھے ہیں:
1۔بھارت دنیاکے کئی پلیٹ فارم پرسب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ توکرتاہے لیکن اس نے آج تک کسی آزادپریس میڈیااور الیکٹرانک میڈیاکوکشمیرکی حالتِ زار دیکھنے اوران کی آزادانہ رائے کودنیاکے سامنے لانے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟
2۔اگرچندلمحوں کیلئے(صرف سمجھانے کیلئے)فرض کرلیاجائے کہ کشمیر بھارت کاحصہ ہے توبھارت کے آئین کی کون سی شق اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کوبے رحمی سے قتل کردے؟
3۔اگربھارتی فورسزکے افرادرات کی تاریکی میں حکومتی اندھی طاقت اوراسلحے کے زورپرایک گھرمیں داخل ہوکرایک بوڑھی عورت سے لیکرایک دس سالہ بچی کی عصمت دری کردے اورگھرکے تمام افرادکوگولیوں سے بھون کراپنے جرم کو چھپانے کیلئے اس گھرکونذرِآتش کردے ،بعدازاں اس بدنصیب گھرکا ایک زخمی بچ جائے اورانصاف نہ ملنے کی صورت میں وہ خودانتقام لینے کیلئے کوئی کوشش کرے تواسے آپ دہشتگردکہیں گے ؟
آج توپہاڑوں کودیکھتاہے اورسمجھتاہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں،مگراس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے”۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.