انسانی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ انسان خود ہی الجھنیں
پیدا کرتا ہے پھر خود ہی بیچین ہوجاتا ہے یہ بیچینی بڑھتی ہے تو انسان کو
انقلابی بنادیتی ہے جو آخرکار ایک نئی کشاکش کو جنم دے دیتی ہے پاکستانی
تاریخ ایسے تناو سے بھری پڑی ہے اس سلسلے کی کڑیاں آج بھی دیکھنے میں آرہی
ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی ہوئی ہیں گو آج کا پاکستان ماضی کے پاکستان
سے بہت آگے آچکا ہے مگر تسلسل کے لحاظ جو کچھ آج ہورہا ہے جو ماضی بعید اور
ماضی قریب میں ہوچکا اسی راہ کا حصہ ہے نہ کسی پر کیچڑ اچھالنا مقصد ہے نہ
ہی کسی کے قصیدے پڑھنا مگر اس سلسلے کی ایک جھلک پیش کرنے کی کوشش ضرور
کررہا ہوں، ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ جب جب کسی ایک گروہ کے ذاتی مفادات کو
ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو اس گروہ نے قومی مفادات کی بھی پرواہ نہ کی
اور تمام حدیں پار کرکے انقلاب لانے میدان میں آگیا، پاکستانی تاریخ کے
تمام انقلابات کا جائزہ لیا جائے تو دو بات مشترک ملیں گی ایک مذہب کارڈ
دوسری طفیلیت یعنی کسی نادیدہ قوت کے آلہ کار ہونا خواہ وہ اندرونی ہو یا
بیرونی طاقت، ہماری روایت یہی رہی کہ جو بھی حکومت آئی اس نے ملکی و قومی
استحکام پر اپنی پارٹی و شخصیات کے مفادات کو ترجیح دی اور سب سے المناک
پہلو یہ کہ ملک و قوم کو جتنا نقصان حکومت کی غلط پالیسیوں یا ذاتی مفادات
سے پہنچا اس سے کئی گنا زیادہ نقصان اپوزیشن کی ریشہ دوانیوں و سازشوں سے
پہنچا خواہ وہ ماضی بعید کی اپوزیشن ہوں یا پھر پچھلے دو ادوار کی میڈ ان
لندن فرینڈلی اپوزیشن، ماضی میں جب کبھی کسی حکومت نے بہترین پالیسی یا
منصوبہ تیار کیا تو اپوزیشن نے حکومتی پارٹی کو عوام میں غیرمقبول و ناقص
کارکردگی دکھانے کے لیے قومی مفاد کے ان منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے
ایڑی چوٹی کے زور لگائے اس کے علاوہ فرینڈلی اپوزیشن کا حال تو کسی سے ڈھکا
چھپا ہی نہیں الغرض کہ پاکستان کسی نظام کے بغیر ہی چلتا رہا اور چند سیاسی
پارٹیوں کی مطلق العنانیت کے ہاتھوں یرغمال رہا، ان کی اس صفت کا عالمی
قوتوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ داروں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایک وقت پر
آکر ہمارے تقریباً سیاستدان خود بھی سرمایہ دار بن بیٹھے اور مشرکہ نشانہ
عوام بنی رہی، کیا یہ سرمایہ داروں کا ہی کھیل نہیں تھا کہ پورے پاکستان کا
منرل واٹر سے بہتر گراونڈ واٹر دیکھتے ہی دیکھتے خراب ہوگیا پھر ساتھ ہی
ساتھ RO پلانٹ کمپنیوں، ادویہ ساز کمپنیوں، پانی کی کمپنیوں کے وارے نیارے
ہوگئے، جو جو ہالی ووڈ کی فلموں میں ہوتا ہے وہ سب ہم نے اپنی آنکھوں سے
پاکستان میں ہوتے دیکھ لیا کہ کسی بھی فصل میں پراسرار بیماری آتی ہے تو
ساتھ ساتھ مارکیٹ میں اس کی دوا بھی اتار دی جاتی ہے، ساری زندگی جن لوگوں
نے جوائنڈس یعنی پیلیا کا مرض دیکھا وہ لوگ اس کی جدید ترین شکل ہیپاٹائٹس
بی سی کا شکار ہوکر فوت ہوے اور لاکھوں خاندان اس کا شکار ہوکر اپنی ساری
جمع پونجی اس کی دوا ساز کمپنی کو دینے پہ مجبور ہوے، کس طرح سے کوئی بھی
چیز رات ہی رات میں مہنگی ہوجاتی ہے اور کس طرح ڈرامائی انداز میں غریب
کسانوں کی ساری محنت رائیگاں چلی جاتی ہے، یہ سارا کھیل کیا ہے صرف چند
سرمایہ داروں کی حرص اور خون چوسنے کی عادت سے زیادہ کچھ نہیں، مجھے یہاں
کسی ریفرینس کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ہر ذیشعور اس پُراسرایت کو محسوس
کررہا ہے مگر مجبور ہے دنیا کی بہت سی قوموں نے اس لعنت سے خود کو آزاد
کرنے کا تہیہ کیا اور ترکی، روس، چین وغیرہ ان کی پہنچ سے بہت آگے نکل آئے،
چین تو اعلانیہ طور پر اس کا اظہار کررہا ہے چینی صدر نے تو بارہا کہا ہے
کہ ہاں ہم نے چند گاڈفادرز کے مفادات کا تحفظ کرنے والوں کو نہیں چھوڑنا،
بہتوں کو گرفت میں لیا، ترکی کل تک سک مین آف یورپ تھا مگر طیب اردگان کا
ترکی آج امریکہ جیسی طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے، اسی
راہ پر پاکستان بھی ہو لیا تو اس وقت سب کے نشانے پہ عمران خان ہے کیونکہ
عالمی طاغوتی نظام سے بغاوت کا علم اسی کے ہاتھ میں ہے، حکومت سنبھالنے سے
لیکر ابتک تمام اپوزیشن جماعتیں اس کے خلاف متحد ہیں اس کی راہ میں رکاوٹیں
در رکاوٹیں کھڑی کرتی آرہی ہیں ان کے بقول دنیا کا سب سے برا اور ان کی
زبانی عوام کا سب سے بڑا دشمن بھی کپتان ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتک
اپوزیشن کوئی ایک کام یا پالیسی بھی ایسی پیش نہیں کرسکی جس سے عمران خان
نے ملک و قوم کو نقصان دیا ہو یا دے سکتا ہے، مولانا فضل الرحمان آجکل صف
اول کا کردار ادا کررہے ہیں مولانا صاحب نے بغیر ثبوت کے بہت سے الزام
عمران خان کی ذات پہ لگائے ہیں جن میں سر فہرست اسلام دشمنی کا الزام ہے
مگر بطور دلیل کے ان کے پاس کچھ بھی نہیں جبکہ عمران خان کا سلوگین تو صرف
ملک و قوم کی بہتری کا ہے، مولانا صاحب بات دین کی کرتے ہیں تو کیا یہ بہتر
نہیں کہ وہ عوامی فلاح کے لیے بجائے حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے حکومت
کا ساتھ دیں، انکے پاس بہتر منصوبے ہیں تو پیش کریں، بہترین پالیسی ہیں تو
پیش کریں، قانون کو اس کی رو کے مطابق نافذ کروانے میں حکومت کا ساتھ دیں
اور کرپٹ اشرافیہ کے احتساب کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں نہ کہ
احتساب کو انتقام کا نام دیکر اس عمل میں رکاوٹ بنیں مگر ماضی کی طرح
مولانا صاحب صرف اپوزیشن ہی نظر آتے ہیں جس کا ہمیشہ سے ایک ہی کام رہا کہ
اپنے مفاد کو ترجیح دی، حکومت کی جائز بات و ملکی مفاد کی پالیسی یا منصوبے
کو بھی صرف اس لیے ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ کہیں وہ پارٹی عوام میں
مقبول نہ ہوجائے لہٰذا عوام مرتی ہے تو مرے لیکن اپوزیشن کا مفاد پورا ہو
بس یہی ہماری روایت ہے پاکستان میں اپوزیشن کا مطلب صرف اپوزیشن کرنا ہوتا
ہے سو وہ جائز و مفید اقدام کی بھی اپوزیشن کرتے ہیں اور بات بے بات
اپوزیشن ہونے کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔
|