مولانافضل الرحمن کے آزادی مارچ کے اعلان سے دینی مدارس
،مذہبی رہنماء ایک عذاب کاشکارہیں ایک طرف حکومتی زعماء مولاناپرمذہبی
کارڈاوردینی مدارس کے طلباء کے استعمال کاالزام عائدکرتی ہے تودوسری طرف
حکومت خود دینی مدارس کے ذمے داران اورعلماء سے ملاقاتیں کرکے حمایت حاصل
کرنے کی کوشش کرتی ہے اس معاملے میں بھی تحریک انصاف نے
دوہرامعیاراپنارکھاہے علماء اوردینی مدارس کے ذمے داران وزیراعظم سے ملاقات
کریں تواسے اپناحق گردانتے ہیں یہی علماء اگرایک آدھ بیان مولانافضل الرحمن
کے حق میں دے دیں تویہ مذہبی کارڈ بن جاتاہے ،حالانکہ ملک بھرمیں دینی
مدارس اورعلماء کوآزادی مارچ سے روکنے کے لیے انہیں خوفزدہ کیاجارہاہے
چھوٹے چھوٹے شہروں میں انہیں اجلاس منعقدکرنے پرمقدمات کی دھمکیاں دی جارہی
ہیں مگردوسری طرف انہی علماء کوسرکاری خرچے پراسلام آبادبلاکرفائیوسٹارہوٹل
میں ٹہرایاجاتاہے ان کی آؤبھگت کی جاتی ہے اورسرکاری طورپریہ بیان
دیاجاتاہے کہ علماء اوردینی مدارس حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں،
وزیراعظم عمران خان علماء کرام کورام کرنے کے لیے مدرسہ اصلاحات کی بات
کریں تواسے مدارس کوقومی دھارے میں لانے سے تعبیرکیاجاتاہے مگرمولانافضل
الرحمن مدارس کے تحفظ اوران کی آازادی وحریت کی بات کریں تویہ مذہبی کارڈ
بن جاتاہے ،وزیراعظم جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکرناموس رسالت کی بات کھریں
تووہ مردمجاہدکہلاتے ہیں مگرمولانافضل الرحمن اپنے جلسے میں تحفظ ناموس
رسالت کی بات کریں تویہ مذہب کوسیاست کے لیے استعمال کرناہوجاتاہے
،وزیراعظم ریاست مدینہ کانعرہ لگائیں( اگرچہ عملی طورپراس طرف ایک قدم بھی
نہ اٹھائیں) توتعریف کے ڈونگرے بجائے جاتے ہیں مگرمولانافضل الرحمن آئین
میں موجوداسلامی شقوں کے اعلان کریں تویہ مذہبی کارڈ ہے ،وزیراعظم
اسلاموفوبیاپربات کریں توتقریرشاہکارکہلاتی ہے مگرجمعیت علماء اسلام کے
سربراہ اسلام کی بات کریں تویہ سیاست کہلاتی ہے ،وزیراعظم کوعلامہ
طاہراشرفی جبہ پہنائیں یاقاری حنیف جالندھری کوشاہ محمود قریشی جبہ پہنائیں
تویہ علماء دوستی ہوتی ہے مگرمولانافضل الرحمن دینی مدارس کے طلباء پرہاتھ
رکھیں تواسے مفادات سے تعبیرکیاجاتاہے ۔
اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ مولانافضل الرحمن آزادی مارچ کے لیے بلاول
بھٹو ،شہبازشریف ،محمود خا ن اچکزئی،اسفندیارولی ،میرحاصل بزنجوسے ملاقاتیں
کریں تویہ پروپیگنڈہ کیاجاتاہے کہ مولاناسیاسی مقاصدکے لیے مذہبی کارڈ
استعمال کررہے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں وزیراعظم عمران خان مفتی منیب
الرحمن ،مفتی عبدالرحیم ،صاحبزادہ حامدرضا،علامہ طاہرمحمود اشرفی
،مولاناعبدالخبیرآزاد،علامہ راغب حسین نعیمی ،علامہ عارف حسین واحدی،علامہ
یاسین ظفرسے ملاقات کریں تویہ قومی سیاست بن جاتی ہے ،جمعیت علماء اسلام
اپوزیشن جماعتوں کواپنے آزادی مارچ میں شریک کرنے کے لیے رابطے کرے تویہ
،،مذہبی کارڈ،،بن جاتاہے مگرحکومتی وزاراء پیرنورالحق قادری اورعلی زیدی
سرکاری خرچ پرکراچی جاکرمفتی نعیم سے ملاقات کرکے آزادی مارچ کی مخالفت
کااعلان کروائیں تویہ سیاست نہیں بلکہ حکومت کاحق بن جاتاہے ۔
حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اوروفاقی وزراء آزادی مارچ والوں کوسرعام دھمکیاں
دیں تویہ سیاست ہے جبکہ مولانافضل الرحمن اداروں کے اپنے حددومیں کام کرنے
کابیان دیں تویہ ملک دشمنی ہے ،وزیراعلی خیبرپختونخواہ اعلان کریں کہ آزادی
مارچ کے شرکاء کوہمارے کارکن گھروں سے نہیں نکلنے دیں گے ان کایہ بیان
،،قومی بیانیہ ،،ہے مگرجمعیت علماء اسلام کے رضاکارمولانافضل الرحمن
کوسلامی دیں تواس پرپابندی کی دھمکی دے دی جائے،ایک طرف حکومت آزادی مارچ
کے لیے چندہ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے تویہ قانون کاراستہ ہے
تودوسری طرف حکومت الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس سے بھاگے تویہ ان
کاآئینی حق ہے غرضیکہ جوچیزحکومت کے حق میں بہترہے وہی چیزمولانافضل الرحمن
کے لیے گناہ بن جاتی ہے ۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی
ایک سال قبل تک جوحکومت کنٹینراورکھانادینے کااعلان کررہی تھی وہ ایک آزادی
مارچ سے اتناگھبراگئی ہے کہ اسے سمجھ نہیں آرہی کیاکرے ،حکومت مہنگائی
اوربے روزگاری کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ،عام آدمی حکومتی پالیسیوں
سے نالاں ہے ہے ایسے میں حکومت نے بھی وہ کام کیاجس کاالزام وہ مخالفین
پرلگارہی تھی ،الزام دوسروں کودیتے رہے قصوراپنانکل آیاکے مصداق حکومت نے
علماء کارڈکھیلناشروع کردیا حکومتی وزراء مختلف درباروں ،مدارس اورمشائخ کی
خانقاہوں میں جاکرحاضری دے رہے ہیں ان سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے
ہیں ، حالانکہ ان کے مقابلے میں مولانافضل الرحمن نے کسی بڑے مدرسے ،خانقاہ
کاآزادی مارچ کی غرض سے دورہ نہیں کیا ہے ،کل تک جس مفتی منیب الرحمن
کورویت ہلال کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہٹانے کامطالبہ کیاجارہاتھا آج اسی
مفتی منیب الرحمن کے منت ترلے کیے جارہے ہیں ،کل تک جس مفتی منیب الرحمن کے
متعلق یہ پروپیگنڈہ کیاجارہاتھا کہ انہیں چاندنظرنہیں آتاآج اسی مفتی منیب
الرحمن سے وزیراعظم ہاؤس کے چاندکو دیکھنے کی گواہی لی جارہی ہے ۔
مولانافضل الرحمن کے خلاف جتنامنفی پروپیگنڈہ کیاجائے گا وہ اتناہی زورسے
آئیں گے حکومت یہ سمجھتی ہے کہ زہریلے پروپیگنڈہ سے مولانایاان کی تحریک
پرکوئی اثرپڑے گا تویہ ان کی خام خیالی ہے کیوں کہ سواسال سے عوام یہ
بھڑکیں سن رہے ہیں ،کردارکشی سے بات نہیں بننے والی، صرف باتوں سے عوام کے
دل نہیں بہلائے جا سکتے ،عوام جانتے ہیں کہ حکومتی معاشی پالیسی مرغیوں
،انڈوں اورکٹوں سے ہوتے ہوئے لنگرخانوں تک پہنچ چکی ہے ،ایک طرف آپ علماء
کے سرخیل مولانافضل الرحمن کی کردارکشی کرتے ہیں تودوسری ان سے وابستہ
علماء کی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ایساتوکبھی ممکن نہیں ،ایک
طرف وزیراعظم اوران کی ٹیم کے ارکان ٹی وی چینلزپرچلنے والی براہ راست
تقریروں میں مولانافضل الرحمن کوبرے القابات سے نوازیں تودوسری ان میں اتنی
اخلاقی جرات نہیں کہ وہ مولانافضل الرحمن کی پریس کانفرنس چینلزپرلائیوسن
سکیں ،میڈیاپرقدغنیں لگائی جارہی ہیں حالانکہ یہ وہی میڈیاہے
جوجلاؤگھیراؤپرمبنی تقریریں بھی ڈنڈے کے زورپربرارہ راست نشرکرتاتھا ۔
سیاسی میدان کے بعد مولانافضل الرحمن دینی حلقوں میں سب سے زیادہ معتبرآدمی
ہیں ۔مولانافضل الرحمن اوران کے خاندان کی جہاں ایک سیاسی تاریخ ہے تووہاں
علمی میدان میں بھی ان کاایک مقام ہے ،مولانافضل الرحمن کی تیسری نسل قومی
سیاست میں اپناکرداراداکررہی ہے مگرانہیں وہ لوگ ہدف تنقیدبنارہے ہیں جنھیں
سیاست میں آئے ہوئے ابھی چاردن بھی نہیں ہوئے ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کی
حکومت صرف سیاسی ،معاشی میدان میں ہی ناکام نہیں ہوئی بلکہ اخلاقی میدان
میں بھی شکست کھاگئی ہے ۔
علماء کرام بھی حکومتی ہتھکنڈوں میں آنے والے نہیں ،وفاق المدارس کے قائدین
کایہ فیصلہ نہایت احسن ہے کہ ہم اس موقع پرحکومت کے مقاصدکے لیے استعمال
نہیں ہوں گے ، وفاق المدارس العربیہ کے قائدین اوردیگرعلماء کرام جن میں
مفتی محمدتقی عثمانی ،مفتی محمدرفیع عثمانی ،قاری محمدحنیف جالندھری
،مولانافضل الرحیم اشرفی ،علامہ محمدطیب طاہری ،مولاناقاضی نثاراحمد شامل
تھے نے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کرنے سے انکارکردیا جبکہ علامہ شاہ اویس
نورانی ،مفتی زرولی خان ،خواجہ مدثرتونسوی ،مولاناسعیدیوسف نے پہلے ہی ان
اجلاسوں میں شرکت سے معذرت کرلی تھی،مفتی زرولی خان نے نہ صرف اس ملاقات کے
لیے اسلام آبادآنے سے انکارکردیا بلکہ ان کاایک آڈیوپیغام وزیراعظم سے ہونے
والی ملاقات والی خبرپربھاری رہاجبکہ دوسرے دن جیدعلماء کرام نے وزیراعظم
سے ملاقات سے انکارکرکے نہرے پردہلہ مارا،ان کاکہناتھا کہ موجودہ سیاسی
صورتحال میں کسی ایک فریق کے ساتھ بیٹھنا غیر جانبداری متاثر کرے گا ان
علماء کرام کی اصل ملاقات ان سے ہوئی جن سے ہوناتھی اوران قوتوں نے بھی
علماء کرام پرکوئی دباؤنہیں ڈالاکہ وہ وزیراعظم سے ملاقات کریں یاآزادی
مارچ میں شرکت نہ کریں انہوں نے اپنی بات کہی اورعلماء کواعتمادمیں لیا ۔
حکومت اگریہ سمجھتی ہے طاقت کے زورپرآزادی مارچ کوروک لے گی یامولاناکی
تحریک کودبالے گی تویہ حکومت کے لیے مشکل ہوگا کیوں کہ مولانافضل الرحمن کے
آباؤاجداد کی زندانوں یاعقوبت خانوں کی ایک طویل تحریک ہے اس طرح کے
اقدامات سے ایسی تحریکیں نہیں رکاکرتیں بلکہ نئے جذبے اورعزم سے نکلاکرتی
ہیں جبکہ حکومت پہلے ہی ایک ناپائیدارعمارت پرکھڑی ہے ۔
|