آئندہ کالائحہ عمل یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت
فوراًسے پہلے ختم کی جائے ۔کرپشن کے الزامات میں گرفتارقیدیوں کوباعزت بری
کیاجائے اورآئندہ عام انتخابات اس قدرصاف۔شفاف اورجانبدارانہ ہونے چاہئے کہ
مجھے وزیراعظم بنایاجائے۔یہاں مجھے سے مرادصرف میاں شہبازشیریف۔مولانافضل
الرحمان یابلاول بھٹوزرداری ہی نہیں بلکہ میاں نوازشریف۔مریم نوازاورکہیں
کہیں آصف زرداری بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔عوام نے عام انتخابات میں ووٹ دے
کر ملک وقوم کی خدمت کاموقع دیاتوسب سے پہلے ملک کی لوٹی گئی دولت بیرون
ملک سے واپس لائیں گے۔گزشتہ کرپٹ اورنااہل حکمرانوں کاپیٹ پھاڑکرقومی دولت
کی پائی پائی نکالیں گے۔فلاں فلاں کولاہور۔کراچی کی سڑکوں پرنہ
گھسیٹاتومیرانام فلاں فلاں نہیں۔چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کی توفلاں
کافلاں فلاں نام نہیں اوراب پھر میاں شہبازشریف نے کہہ دیاہے کہ ہمیں موقع
ملا تو 6 ماہ میں اسی تباہ معیشت کو مکمل بحال کر کے دیکھائیں گے۔میاں صاحب
قوم ابھی کپتان کے پہلے سودن میں قسمت بدلنے کے دعوؤں کے سحروطلسم سے
باہرنکلنے کی کوشش کررہی ہے اورآپ نے چھ ماہ میں تباہ حال معیشت کوبحال
کرنے کادعوہ کردیاہے۔میاں صاحب کیاآپ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت میں
ملک وقوم کی خدمت نہیں کرسکتے؟تباہ حال معیشت کوچھ ماہ میں بحال کرنے والی
گیدڑسنگھی حکمران بنے بغیرکام میں نہیں لاسکتے؟ تباہ حال معیشت کوچھ ماہ
میں بحال کرنے والافارمولا قوم کونہیں بتاسکتے؟میاں صاحب عوام توآپ سے آپ
کے 35سالہ ادواراقتدارکے متعلق سوال کرتے ہیں یہ بھی پوچھتے ہیں کہ گزشتہ
پانچ سال میں آپ نے معیشت کواس قدرکمزورکیوں رکھاجوآپ کی حکومت جاتے ہی
مرگئی؟اُمیدکرتے ہیں کہ میاں صاحب اس سوال کے جواب کیلئے قوم کواپنے مرحوم
والد۔بھائی یابھتیجے حسن۔حسین نوازیاپھرسلیمان شہبازکے پاس جانے کانہیں
کہیں گے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر۔سابق وزیراعلی پنجاب اورپاکستان مسلم
لیگ ن کے حاضرسروس مرکزی صدرمیاں شہبازشریف نے مولاناکے آزادی مارچ کی
بھرپورحمایت کرتے ہوئے31اکتوبرکوجلسہ اورمولاناکااستقبال کرنے کااعلان بھی
توقعات کے عین مطابق وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہوئے کردیاہے۔میاں شہبازشریف
نے مارچ یاجلسے میں اپنی شمولیت کوچیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی
شمولیت سے مشروط کردیا۔انہوں نے کہاکہ ہم مارچ کی بھرپورحمایت کرتے ہیں
اورہم جلسہ کریں گے۔میاں شہبازشریف نے دھرنے میں شمولیت سے انکارکیانہ
اقراربلکہ دھرنے کاذکرتک نہ کرکے اپنی آزادی کی حفاظت کی جبکہ آئندہ
کالائحہ عمل جلسے میں دینے کاکہہ کرقبل ازوقت وکٹ کے کسی ایک طرف کھیلنے کے
پروگرام کارازبھی رازہی رہنے دیا ۔میاں شہبازشریف یابلاول بھٹوزرداری مارچ
میں شامل ہوں یانہ ہوں۔دھرنے کی حمایت کریں یامخالفت مولاناپیچھے نہیں ہٹنا
چاہتے۔میاں شہبازشریف اپنے بیٹے۔بھائی اوربھتیجی۔بلاول بھٹوزرداری اپنے
والداورپھپھو کی قیدواحتساب پرسمجھوتہ کرسکتے ہیں پرمیاں نوازشریف۔آصف
زرداری اورمولاناکسی صورت وزیراعظم عمران خان کی حکومت کومزیدوقت نہیں
دیناچاہتے۔مولاناکالہجہ صاف بتارہاہے کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت کوفوربلکہ۱ً
فوراً سے پہلے گراناچاہتے ہیں اوروہ اس کیلئے کسی بھی قیمت پرکسی بھی حدتک
جانے کیلئے تیارنظرآرہے تھے۔میاں شہبازشریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے
قبل مولاناوزیراعظم عمران کے استعفے اوراپنے لئے وزارت عظٰمہ یاصدارت سے کم
پرراضی ہوتے معلوم نہیں ہورہے تھے جبکہ میاں شہبازشریف کی محفل سے مایوس
ہونے کے فوراًبعدچوہدری پرویزالٰہی سے ملاقات کامطلب ہے کہ آئندہ مولانابھی
وکٹ کے دونوں طرف کھیلیں گے۔مولانا اب کشتیاں جلاکرنہیں کنارے لگاکراحتجاج
کرتے معلوم ہورہے ہیں۔مولانااب بھی آزادی مارچ کی کامیابی کیلئے
پورازورلگائیں گے۔میاں شہبازشریف 31اکتوبرکوجولائحہ عمل پیش کریں گے وہ کچھ
یوں ہوگا۔مولاناکے دعوے کے مطابق اورتمام اپوزیشن جماعتوں کی مکمل حمایت
اورکارکنوں کی شمولیت کے ساتھ15لاکھ یا10لاکھ کے قریب لوگ اسلام آبادپہنچ
گئے توراقم یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتاہے کہ میاں شہبازشریف اوربلاول
بھٹوزرداری نہ صرف مولاناکے دھرنے کی حمایت کردیں گے بلکہ خوددھرنے میں
شامل ہوجائیں گے اوراسی وقت اپوزیشن جماعتوں کے حمایت یافتہ تاجرگروپ۔وکلاء
اورڈاکٹرز بھی دھرنے میں پوری طرح شامل ہوجائیں گے۔بصورت دیگرمیاں
شہبازشریف اوربلال بھٹوزرداری حسب موقع وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے رہیں گے
اورپاکستان مسلم لیگ ن اورپاکستان پیپلزپارٹی کے اکثرکارکن مولاناکے ساتھ
رہیں گے۔میاں نوازشریف اورآصف زرداری کی خواہش ہے کہ مولاناکے آزادی مارچ
میں ان کے دعوے سے بھی زیادہ لوگ شامل ہوں جواسلام آباد کے مختلف مقامات
پردھرنے دیں اوردیگرشہروں میں بھی کارکن ہائی الرٹ رہیں۔مولانافضل
الرحمان۔میاں نوازشریف اورآصف زرداری تینوں سیاسی میدان کے شاطرکھلاڑی ہیں
۔تینوں کاآئندہ کالائحہ عمل یہ ہے کہ ہرقیمت پر اگلی حکومت انہیں ملے جبکہ
میاں نوازشریف اورمریم نوازنہ صرف قیدسے رہائی چاہتے ہیں بلکہ آئندہ
وزیراعظم پاکستان اورصدرپاکستان دونوں باپ بیٹی خودبنناچاہیں گے۔اپوزیشن کی
ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کوایک دوسرے۔تیسرے۔چوتے اورپانچویں کااعتبارنہیں
اوریہی بداعتمادی اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کی ناکامی کی وجہ اوروزیراعظم
عمران خان کی خوش قسمتی ثابت ہوسکتی ہے۔ایک بات بہت واضع ہوچکی ہے کہ پی ٹی
آئی کی حکومت اپنے پانچ سال پورے کرتی ہے تومیاں نوازشریف۔آصف
زرداری۔مولانافضل الرحمان اورمریم نوازسمیت بہت سارے سیاستدانوں کی سیاست
ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکتی ہے۔مولانافضل الرحمان کی قیادت میں آزادی
مارچ کی ناکامی سب سے زیادہ میاں نوازشریف کیلئے مایوسی کاباعث بنے گی۔ڈنڈا
بردارفورس سے سلامی لینے کے بعد مولانافضل الرحمان خودبھی آئندہ کالائحہ
عمل دینے کیلئے موقع محل کاانتظارکریں گے۔حکومت کی جانب سے جے یو آئی ف کی
ذیلی جماعت انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں وزارت داخلہ نے
انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کی سمری الیکشن کمیشن اور وزارت قانون
کو بھجوادی ہے جس میں کہا گیا کہ باوردی فورس نے خاردار تاروں سے لیس
لاٹھیاں اٹھاکر پشاور میں مارچ کیا اور باوردی فورس بظاہر حکومتی رٹ چیلنج
کرنا چاہتی ہے۔دوسری جانب وزارت داخلہ نے کارروائی کے لیے وفاقی کابینہ سے
بھی منظوری لے لی ہے۔وفاقی حکومت نے آرٹیکل 146 کے تحت وزارت داخلہ کو
صوبوں سے مشاورت کا اختیار دے دیا جب کہ وفاق کی ہدایت پر عملدرآمد کے لیے
صوبوں کو ہر قسم کی کارروائی کا اختیار ہوگا۔ امید ہے جلدقانون کے مطابق
انصارالاسلام پر پابندی عائد کردی جائے گی جوحکومت کابروقت اوراحسن اقدام
ہے جو اپوزیشن کے احتجاج کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔اپوزیشن جماعتوں
کے اعلان کردہ احتجاج کی ناکامی کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ عوام حکومت کی
کارکردگی سے خوش ہوجائیں گے لہٰذاحکومت کوبھی آئندہ کے لائحہ عمل میں عوام
کوبڑے ریلیف دیناہوں گے ورنہ احتجاج پھرسراُٹھاتے رہیں گے
|