تحریر: مولانا عثمان الدین
25جولائی2018کے الیکشن کے بعد اقتدار میں آنے والی موجودہ حکومت اس وقت
شدید دباو کا شکار ہے ،حکومت ایک طر ف اپنے دعووں اور وعدوں کے مطابق
کارکردگی دکھانے میں مکمل طور پر ناکام ہونے کی وجہ سے عوامی غیض و غضب کی
شکار ہے تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمان نے اکتوبر کے آخر میں آزادی مارچ
کا اعلان کرکے حکومت کو مزید پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان
کے آزادی مارچ کا مقصد بالکل واضح ہے،وہ چونکہ موجودہ حکومت کو اول روز سے
ہی ناجائز ،جعلی اور دھاندلی زدہ سمجھتے ہیں ،اس لیے آزادی مارچ کے ذریعہ
وہ اس حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں اور اس کے لیے
وہ ایک سال سے ملک بھر میں ملین مارچ کرکے بھرپور تیاری بھی کرچکے ہیں ۔اپوزیشن
جماعتوں کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کی حمایت اور اس میں
شرکت کے اعلانا ت کے بعد یہ مارچ حکومت کے لیے خطرناک شکل اختیار کرتاجارہا
ہے ۔ملکی سیاست میں اس وقت ہر جانب آزادی مارچ ہی موضوع بحث ہے اور اس سے
متعلق حمایت و مخالفت دونوں قسم کی سوچ پائی جارہی ہے تاہم اس حوالہ سے کسی
حتمی نتیجہ تک پہنچنے کے لیے ترتیب وار چند باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے
۔
پہلی بات گزشتہ عام انتخابات کی ساکھ اور اس کے ذریعہ حکومت کو حاصل ہونے
والے عوامی مینڈیٹ سے متعلق ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ ملکی
تاریخ کے متنازعہ انتخابات میں سے ایک تھے ،انتخابات سے پہلے مرضی کے نتائج
حاصل کرنے کے لیے نیب کا بے دردی کے ساتھ استعمال ہوا جس کی وجہ سے
انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے جیت کی راہ ہموار ہوئی ، اپوزیشن
کی قیادت جیل میں قید ہونے کی وجہ سے اس کے لیے میدان صاف اور خالی تھا۔اسی
طرح انتخابات والے دن نتائج کی آمد کے وقت جو معاملات اور تنازعات پیش آئے
،وہ سب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ ان انتخابات کو کسی بھی طرح صاف و شفاف
،منصفانہ ،غیر جانبدارانہ اور مداخلت سے پاک کہنا ممکن نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے
کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ہی نہیں بلکہ اس وقت حکومت میں شامل جماعتوں نے
بھی انتخابات کے فوری بعدنتائج کو یکسر مسترد کردیا تھا ۔دوسری جانب حکومت
ان انتخابات میں اپنے لیے انتہائی سازگار ماحول میسر ہونے کے باوجود بھی
عوام کی جانب سے وہ اکثریت حاصل نہ کرسکی جس کی امید کی جارہی تھی ۔ ووٹوں
کے اعداد و شمار کے مطابق اپوزیشن کی صرف دو بڑی جماعتوں کے حاصل کردہ
ووٹوں کی مجموعی تعدادحکمران جماعت کے حاصل کردہ ووٹوں سے کافی زیادہ تھی ۔اس
طرح یہ جیت بھی در حقیقت شکست سے کم نہیں تھی ۔بہر حال ایک متنازعہ الیکشن
میں ہر قسم کی سہولت اور تعاون میسر ہونے کے باوجودایک انتہائی معمولی
مینڈیٹ لینے کے بعدموجودہ حکومت اتحادیوں کے سہارے پر اقتدار میں آنے میں
کامیاب ہوگئی ۔
دوسری بات کا تعلق موجودہ حکومت کی انتہائی درجہ مایوس کن کارکردگی سے ہے۔
حکومت داخلی اور خارجی سطح پر اس حوالہ سے مکمل طور پر ناکام ہوچکی
ہے،اقتدار سے پہلے کے تمام دعوے اور وعدے زمین بوس ہوچکے ہیں ۔ حکومتی نا
اہلی اور بری کارکردگی نے پورے ملک اور قوم کو تباہی کے دہانے کھڑا کردیا
ہے ۔ملکی معیشت تباہ حال ہوچکی ہے اور مکمل طور پر آئی ایم ایف کے قبضہ میں
جاچکی ہے ، صنعتیں بند اور مارکیٹیں ویران پڑی ہیں ، مہنگائی اوربے روزگاری
ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جاچکی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کے لیے
جینا مشکل ترین ہوچکاہے، ایک طرف آئی ایم ایف ملک میں مہنگائی اور بے
روزگاری مزید بڑھنے کی نوید سنارہاہے تو دوسری جانب حکومتی وزیر عوام کو
روزگار کے لیے حکومت کی طرف دیکھنے سے ہی منع کررہے ہیں ،ملک کا ہر طبقہ
فکر اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہے۔اسی قسم کی ناکامیوں کا سامنا خارجہ محاذ
پر بھی ہے ۔ یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ حکومت میں ملک چلانے کی اہلیت و
صلاحیت ہی موجود نہیں ہے ۔وزیر اعظم نے خود بھی اپنی ٹیم کی نااہلی کا
اعتراف اب کرلیا ہے تاہم وہ ایک نااہل ٹیم کا انتخاب کرنے پر اپنی غلطی اور
نا اہلی کا اعتراف کبھی نہیں کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں سالہا سال
سے موجود تبدیلی کے بڑے بڑے علمبردار صحافی اور دانشور اب علی الاعلان اپنی
غلطی کا اعتراف کرکے قوم سے معافی کے طلب گار ہیں ۔حکومت کی اس کارکردگی کے
بعد حکومت کو ووٹ دینے والوں کی اکثریت بھی اب سخت نالاں اور نا امید ہوچکی
ہے۔ ْچنانچہ اب صور ت حال یہ ہے کہ حکومت کو ایک متناعہ الیکشن میں جو
معمولی اور کمزور متنازعہ مینڈیٹ ملا تھا ،وہ اب مزید کمزور ہوچکا ہے
چنانچہ اگر آج الیکشن ہوتے ہیں تو حکومت پچھلے الیکشن کے مقابلہ میں ایک
تہائی ووٹ بھی شاید حاصل نہیں کرپائے گی ، لہذا اب یہ کہنا بالکل بے جا نہ
ہوگا کہ یہ حکومت ملک کی اکثریتی عوام کی حمایت سے بالکل محروم ہے ۔
تیسری بات کا تعلق ملک میں سیاسی استحکام سے ہے ۔ملک میں سیاسی استحکام
قائم کرنا کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کے لیے ا
پوزیشن کو ساتھ ملاکر چلنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ا پوزیشن بھی عوام ہی کے
ووٹ سے منتخب ہوتی ہے ۔اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا اور ملک کو سیاسی انتشار
سے بچانا حکومت کی اہلیت اور قابلیت کا اصل امتحان ہوتا ہے ۔ عام طور پر
اپوزیشن اس سیاسی استحکام کے راستہ میں رکاوٹ بنتی ہے جیسا کہ موجودہ
حکمران جماعت کا پچھلے پانچ سال اپوزیشن میں کردار رہاہے تاہم موجودہ حکومت
اس حوالہ سے اپوزیشن سے دو قدم آگے ہے اور وہ خود ہی ملک میں سیاسی استحکام
کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ،اپوزیشن اگر چاہے بھی تو حکومتی رویہ اس
میں حائل بن جاتا ہے ۔حکومت قوم کو کشمیر جیسے اہم مسئلہ پر بھی متحد نہ
کرسکی، اپوزیشن کے مطالبہ پر جب حکومت نے اس حوالہ سے پارلیمنٹ کا مشترکہ
اجلاس بلایا تو وزیر اعظم اس موقع پر بھی اپوزیشن سے ہاتھ تک ملانے کے لیے
تیار نہیں تھے ۔حکومت اس اہم مسئلہ پر قومی قیادت کو ایک میز پر بٹھانے میں
بھی ناکام رہی ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان پاکستان کے نہیں بلکہ
صرف پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم ہیں ۔حکومت کے اس تنگ نظری ، انتہا
پسندی اور تکبر پر مبنی رویہ کی وجہ سے قوم بری طرح تقسیم ہوچکی ہے ۔
اپوزیشن جماعتیں اور ان کے ووٹرز جو اس وقت حکومتی ووٹرز کے مقابلہ میں ملک
کی غالب اکثریت پر مشتمل ہے ،اس حکومت کو برداشت کرنے لیے تیار نہیں ہیں جس
کی وجہ سے ملک بد ترین سیاسی انتشار اور خلفشار کا شکارہے ۔
مذکورہ تینوں باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت اب اس
ملک اور قوم کے لیے بوجھ بن چکی ہے ،عمران خان کی اندھی محبت اور دیگر
سیاستدانوں سے اندھی نفرت میں مبتلا ایک بہت ہی چھوٹے سے طبقہ کے علاوہ اس
وقت باقی پوری قوم اس حکومت سے تنگ آچکی ہے ،اس حکومت کا مزید اقتدار میں
رہنا ملک و قوم دونوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس لیے قوم کی غالب
حمایت سے محروم اس حکومت کواخلاقی لحاظ سے خود ہی استعفاء دے دینا چاہیے
لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہے تو پھر اس حکومت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے
جد و جہدایک قومی فریضہ ہے جس کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے والا اس ملک
و قوم دونوں کا محسن ہوگا جبکہ اس راستہ میں کسی بھی درجہ میں رکاوٹ ڈالنے
والا ان دونوں کا مجرم ہوگا۔ |