امریکا اور ترکی کے درمیان عارضی جنگ بندی کے بعد روس سے
بھی بھی مزید150گھنٹے کی عارضی جنگ کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ امریکی نائب صدر و
وزیر خارجہ کی جانب سے انقرہ میں قائم امریکی سفارت خانے میں پریس بریفنگ
کے دوران باقاعدہ عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا اور ترکی صدر نے روس
دورے میں اعلان کیا۔ معاہدے کے مطابق پی کے کے /وائے پی جی کو سرحدی علاقے
خالی کرنے کے لئیمزید وقت دیا گیا ہے۔ عارضی جنگ بندی کے معاہدے سے خطے میں
چھائے جنگ کی مہیب بادل سمٹنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ تاہم کرد ملیشیا کی
جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات ترک وزرات دفاع نے عاید کئے ہیں۔
ترکی نے کرد ملشیا کے خلاف عالمی قوتوں کے ہر قسم کے دباؤ کا سامنا کیا
یہاں تک امریکی صدر کی جانب سے دھمکی آمیز خط سمیت سنگین نوعیت کی پابندیاں
بھی ترکی صدر کو پیس اسپرنگ مشن کو روکنے میں ناکام رہے۔ترک آپریشن کے بعد
کرد ملیشیاؤں نے داعش کے گرفتار جنگجوؤں کو جیل میں رکھنے کی ذمے داری لینے
سے انکار کردیا تھا، جس سے عالمی برداری میں خوف پھیل گیا تھا۔ تاہم جب ترک
صدر نے واضح طور پر کہا کہ اگر ترکی کو کرد ملیشیاؤں کے خلاف کاروائی کرنے
سے روکا گیا تو وہ3.6 ملین مہاجرین کو یورپی ممالک جانے کے لئے راستہ کھول
دے گا۔ جس کے بعد یورپی ممالک میں مزیدتشویش کی لہر دوڑ گئی اور ترکی صدر
کے مصمم ارادے کے آگے سرتسلیم خم کرنے میں عافیت جانی کہ ترکی صدر جو کہتے
ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔ اس لئے امریکا کی جانب سے امریکی نائب صدر اور وزیر
خارجہ مذاکرات کے لئے انقرہ آئے۔ اول تو ترکی صدر نے وفد سے ملنے کے امکان
کو مسترد کردیا تھا تاہم امریکی وفد کے ارادے جان کر باقاعدہ مذاکرات کے
لئے راضی ہوگئے اور بالاآخر امریکا نے ترکی کے مطالبات تسلیم کرلئے اور
معاہدے کے بعدپی کے کے /وائے پی جی کی سرحدی علاقوں سے بے دخلی سمیت مزید
ترکی پرکسی قسم کی پابندی نہ لگانے کا اعلان بھی کردیا تھا اب روس سے
معاہدے کے بعد پابندیاں اٹھا لیں گئی ہیں۔معاہدہ خطے میں پھیلنے والی جنگ
کو روکنے میں معاون ثابت ہوگا، کیونکہ اطلاعات آرہی تھی کہ بشار الاسد سے
ماضی میں لڑنے والوں نے اتحاد کرلیا ہے۔ تاہم بشار الاسد نے ترک امریکا
معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور پہلی بار اعلان بھی کیا کہ
شام میں کہیں بھی غیر ملکی افواج نے حملہ کیا تو اُس کا بھرپور جواب دیا
جائے گا۔ترکی/امریکی معاہدے پر کرد ملیشیا کے عمل درآمد سے خطے میں لاکھوں
مہاجرین کے لئے سیف زون بنانے کی فضا ہموار ہوگی نیز شام کے مسئلے پر ترکی،
روس اور ایران کے درمیان سہ فریقی معاہدے کے بعد 2020/2021میں نئے نظام کے
تحت انتخابات کا انعقاد بھی ممکن ہوسکے گا۔ امریکا نے روس کو بھی شہ دی تھی
کہ وہ شامی افواج کی مدد کرے لیکن روس نے بردباری کا مظاہرہ کیا اور ترکی
صدر کے ساتھ مسئلے کے حل کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ترکی کے صدر رجب طیب
اردوان 22 اکتوبر کو ایک روزہ دورے پر روس گئے ۔ سوچی میں روس کے صدر ولادی
میر پوتن کے ساتھ ملاقات کے بعد عارضی جنگ میں توسیع کا اعلان کیا۔واضح رہے
کہ دو روز قبل دونوں رہنماوں کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک ملاقات میں صدر
پوتن نے صدر ایردوان کو دورہ روس کی دعوت دی تھی۔
شام کئی برسوں سے خانہ جنگی کے سبب تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور
عالمی طاقتوں کے لئے جنگ کا اکھاڑہ بننے کے سبب لاکھوں شامی عوام کو اپنے
گھر بار چھوڑ کر جانا پڑا۔ ترکی بھی شام جیسی صورتحال نہیں چاہتا تھا۔ داعش
کی ذمے داری سے ہاتھ اٹھانے والی دہمکی نے ترکی پر بھی دباؤ تھا کہ اگر
داعش جیلوں سے باہر منظم ہوگئے تو پورے ترکی کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔
لہذا دواندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترکی نے بھی مصالحت کی راہ اختیار
کی۔جنگ کے ممکنہ خاتمے کے بعد کرد ملیشیاؤں کے متنازعہ علاقوں سے بے دخل
ہونے والے تین لاکھ مہاجرین بھی اپنے گھروں میں واپس آسکیں گے اور ترکی
اپنی مملکت کے دفاع کے لئے ضروری اقدامات کو ممکن بنا سکے گا۔3.6 ملین
مہاجرین کو غیر معینہ مدت تک رکھنا ترکی کی معیشت پر بوجھ ہے لیکن انسانی
ہمدردی کی بنیاد پر ترکی نے مہاجرین کی تکالیف کے پیش نظر سیف زون بنانے کا
اعلان کیا جس کی اب امریکا و روس حمایت کررہے ہیں۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے تمام ممالک سے شام کے معاملے میں ترکی کے
ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی تھی۔ لیکن ان کی اپیل کا جواب موثر انداز نہیں
دیا گیا ۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ''جب سب چُپ بیٹھے ہیں ترکی قدم اٹھا رہا
ہے'' انہوں نے کہا ہے کہ2011 میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے لے کر اب تک
کسی بھی ملک نے درپیش بحران کی تکلیف کو ترکی جتنے واضح انداز میں محسوس
نہیں کیا۔ ترکی نے 3.6 ملین شامیوں کو قبول کیا ہے اور مہاجرین کی تعلیم،
صحت اور رہائش کے لئے 40 بلین ڈالر مصارف کئے ہیں۔ اس معاملے میں بین
الاقوامی برادری سے ہمیں بہت کم تعاون ملا ہے ہم نے اپنی فطری مہمان نوازی
کے تحت لاکھوں جنگی متاثرین کا بوجھ تن تنہا اٹھا رکھا ہے۔انہوں نے کہا ہے
کہ ترکی جو کچھ کر سکتا تھا اس نے کر دیا ہے اور اب ایک سرحد تک پہنچ گیا
ہے۔ ہم نے متعدد دفعہ وارننگ دی ہے کہ بین الاقوامی مالی مدد کے بغیر ہم
مہاجرین کو مغرب جانے سے نہیں روکیں گے۔ ذمہ داریوں سے جان چھڑانے والی
حکومتوں نے بے نتیجہ رہنے والی ہماری تمام تر تنبیہات کو حقیقت کے بیان کے
طور پر نہیں بلکہ دھمکی کی شکل میں پیش کیا ہے۔ جب ہمیں اس بارے میں کوئی
شبہ نہیں رہا کہ بین الاقوامی برادری اس معاملے میں کوئی قدم نہیں اٹھائے
گی تو تب ہم نے شام کے شمال کے لئے ایک پلان تیار کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے
کہ ہمارا مقصد پی کے کے /وائے پی جی اور داعش کے خلاف جدوجہد کرنا ہے۔ شامی
کردوں کو دہشت گرد تنظیم پی کے کے /وائے پی جی کے ساتھ ایک ہی پلڑے میں
رکھے جانے پر ہمیں اعتراض ہے‘‘۔
ترک آپریشن پر اعتراض کرنے والوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ
انہوں نے کتنے جنگی متاثرین کے لئے اپنے دروازے کھولے ہیں؟شام میں خانہ
جنگی کے اختتام کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے؟ خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے
کیا سیاسی اقدامات کئے ہیں؟۔ یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ شامی بحران سے
پورے خطے میں عدم استحکام پھیل رہا ہے ۔ ان حالات میں کہ امریکا بھی ایک
فریق کی صورت میں ترکی کے ساتھ تصاد م کی راہ پر آرہا تھا لیکن ایک عارضی
جنگ بندی کے بعد ان امیدوں کو توقعت ملی ہے کہ اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی
نہیں ہوتی تو خطے میں ایک نئی جنگ شروع ہونے کے امکانات کم ازکم ہوسکتے
ہیں۔ ترکی کے تعلقات روس سے کافی بہتر ہیں اور روس کے تعلقات ایران و شام
سے دیرینہ ہے ، اس لئے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ خطے میں عالمی
قوتوں کے ٹکراؤ کے امکانات کم ازکم ہونگے ۔ ترکی کا عارضی جنگ بندی کئے
جانے بعد عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں بھی آئی ہیں جس میں جنگ بندی کی
خلاف ورزی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں ترک سمیت شام و کرد ملیشیاؤں کو
جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جنگ کی طوالت سے جہاں شامی
عوام کے مصائب کم ہونے کے بجائے بڑھتے جائیں گے تو دوسری جانب ترکی جنگ کے
سبب معاشی مشکلات کا شکار ہوگا ۔
ترکی نے اپنا موقف واضح طور بیان کیا ہے کہ ترک مسلح افواج کے عناصر کے
خلاف کسی قسم کی دشمنانہ حرکت یا پھر چھیڑا خانی کی صورت میں یہ اپنا جائز
دفاعی حق استعمال کرے گی۔ ترک دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلان میں
واضح کیا گیا ہے کہ17 اکتوبر کو طے پانے والی مطابقت، سیکورٹی زون کے قیام
کے حوالے سے امور کو شامی سرزمین کی سا لمیت کے احترام کے دائرے میں
کامیابی سے ہمکنار ہونے کا ہدف بنائے جانا ضروری ہے۔ترک مسلح افواج کے
سربراہ جنرل یاشار گولیر نے بھی امریکی ہم منصب مارک میں اس بات پر اتفاق
پایا گیا کہ امریکہ سے دی گئی ضمانتوں کو پورا کرنے کی توقعات اور داعش کے
خلاف جدوجہد کے معاملے میں عزم کے جاری ہونے کا اظہار کرتے ہوئے مطابقت میں
وضع کردہ طریقے سے پی کے کے /وائے پی جی کے علاقے سے انخلاء، بھاری اسلحہ
کو واپس لینے اور دہشت گردوں کے مورچوں کو تباہ کرنے کی کاروائیوں کا قریبی
طور پر جائزہ لیا جائے گا۔
پی کے کے /وائے پی جی کے حوالے سے یورپی ممالک اور امریکا کو اپنے فروعی
مفادات پر نظر ثانی کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے کیونکہ اس وقت ترکی میں
3.6ملین مہاجرین سمیت ہزاروں گرفتار داعش کی ذمے داری کا معاملہ اہم ترین
ہے۔ کوئی ملک دونوں حساس معاملات کی ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ ترکی
کو اپنی سرحدوں کی حفاظت سمیت مہاجرین کی مدد اور داعش کے خلاف ایک ایسے
سیف زون کی ضرورت ہے جہاں بڑے انسانی المیے کو روکا جا سکے ، شامی حکومت نے
خانہ جنگی کے بعد ان علاقوں سے اپنی افواج ہٹا کر ایس ڈی ایف کو حوالے کردی
تھی۔ جس کا واضح مطلب یہی نکلتا تھا کہ شام ان علاقوں کی حاکمیت سے پہلے ہی
دست بردار ہوچکا تھا ۔ یہ علاقے شام نے اُن عناصر کے حوالے کردیئے تھے جو
ترکی کی سا لمیت و بقا کے ساتھ داعش و لاکھوں مہاجرین کے مسائل سے جڑا ہوا
تھا ۔ جن سے نپٹنے کے لئے ایک طاقت ور فوج کی اشد ضرورت تھی۔ یورپی ممالک
اگر کرد کے مسئلے کو بروقت حل کرنے کی کوشش کرلیتے تو آج انہیں ترکی کے
اقدامات پر اعتراض و قدغن لگانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ترکی کو اب بھی
کئی عالمی مسائل کا سامنا ہے ۔ لہذا یورپی و عرب ممالک سمیت عالمی قوتوں کو
سنجیدگی کے ساتھ خطے میں کسی بڑے انسانی سانحے کا جنم ہونے سے قبل مصالحت
کی راہ نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر اب بھی درمیانہ راستہ نہ
نکالا گیا تو اس سے براہ راست یورپ بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
|