پلوامہ سے بالاکوٹ کی عارضی سرجیکل اڑان پھر سے زمین پر
آچکی ہے۔ انتخابی نتائج نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ بی جے پی پھر سے ڈھلان پر
چل پڑی ہے۔ نتائج ا کے تفصیلی جائزے سے قبل یہ کہنا پڑے گا کہ ملک بھر میں
بی جے پی کو نقصان ا ٹھانا پڑاہے۔ خاص طور پر ہریانہ جہاں امیت شاہ نے 75+
کا ہدف طے کیا تھا اور وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر تو نوےّ تک کی باتیں کرنے
لگے تھے لیکن ان کی گاڑی چالیس پر ہانپنے کانپنے لگی ہے۔ اب یہ حال ہے کہ
نتائج کے دوران امیت شاہ نے انہیں دہلی طلب کرلیا ہے۔ انتخابی نتائج کا
رحجان دیکھ کر امیت شاہ کے ایسے ہوش اڑے کہ وہ ا پنا دن بھر کا پروگرام رد
کرکے سوگ منانے بیٹھ گئے ۔ پھر اپنا غم غلط کرنے کے لیے ہریانہ پردیش بی جے
پی کے صدر سبھاش برالا کو بلانے کا سوچا تو پتہ چلا کہ وہ تو خود اپنی
ٹوہانہ کی نشست نہیں بچا نے کے سبب استعفیٰ دے چکا ہے۔ یہ وہی سبھاش برالا
جس کے لڑکے وویک برلا نے ورنیکا کنڈو نامی لڑکی کا پیچھا کرکے اس کو اغوا
کرنے کی کوشش کی تھی۔ مودی نے اس پر مگر مچھ کے آنسو بہائے مگر صدارت سے
نہیں ہٹایا۔ اب عوام نے برالا کے ساتھ پارٹی کو بھی ہٹا دیا ۔ ایسی بدمعاش
اور احمق پارٹی کا وزیر اعلیٰ کشمیر سے بہو لانے کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن
اب توامیت شاہ نے اس کی نیند حرام کردی ہے۔
کشمیر کے مسئلہ پر غبارے کی مانند پھول کر ہوا میں اڑنے والے امیت شاہ کی
ہوا ہریانہ کے نتائج نے نکال دی ہے۔ شاہ نے نتائج سے قبل ایک انٹرویو میں
کہا تھا ہریانہ سے چونکہ بڑی تعداد میں فوجی آتے ہیں اس لیے دفعہ ۳۷۰ کے
ہٹنے سے بی جے پی کی کامیابی کا امکان بہت بڑھ گیاہے۔ اس چھوٹے صوبے کے
فوجیوں کی تعداد ۹ فیصد ہے ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ گجرات جیسی ریاست کے
لوگ صرف تجارت و سیاست کرتے ہیں۔ عوام کو لڑاتے ہیں مگر فوج میں جاکر سرحد
پر نہیں لڑتے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوے
کہا تھا قومی انتخاب میں زبردست کامیابی نے انہیں دفع ۳۷۰ ہٹانے کی ہمت دی
۔ انہیں امید تھی کہ اس اقدام سے دوبارہ زبردست انتخابی کامیابی ملے گی
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مودی نے کانگریس کو چیلنج کیا تھا کہ اگر جرأت ہے تو
دفع ۳۷۰ پھر سے لائے لیکن عوام نے بی جے پی کو دھتکار کر یہ بتا دیا کہ وہ
اس طرح کی شعبدہ بازی سے بہلنے والے نہیں ہیں ۔ مودی کے چیلنج کا منہ توڑ
جواب مہاراشٹر اور ہریانہ کی عوام نے دے دیا بلکہ ملک بھر کے ضمنی انتخاب
میں کشمیر کے ڈھول کا پول کھل گیا۔
ہریانہ کے بارے میں امیت شاہ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ منوہر لال کھٹر نے
بدعنوانی سے پاک حکومت کی ہے ۔ اس کے بعد یہ بتایا کہ کانگریس نے ہریانہ کو
۲۲ ہزار کروڈ دیئے تھے جبکہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ایک لاکھ ۱۷ ہزار
کروڈ دیئے۔ یہ رقم اگر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوئی ہوتی تو عوام بی
جے پی کو ایسا تگڑا جھٹکا نہیں دیتے ۔اب اگر اتنی کثیر رقم عوام پر خرچ
نہیں ہوئی تو لازم ہے کہ سیاستدانوں کی جیب میں چلی گئی لیکن چونکہ ان سب
کا تعلق بی جے پی سے تھا اس لیےان کو بدعنوان قرار دینے کی غلطی نہ تو امیت
شاہ کرسکتے ہیں اور نہ میڈیا کرسکتا ہے لیکن پبلک تو سب جانتی ہے اور اس نے
جوتا چلا دیا۔ یہ وہی ریاست ہے جس میں مودی پر خواتین پر مظالم کو لے کر
سرعام تنقید کی گئی ، نعرے لگائے گئے اور عوام نے مخالفین کا ساتھ دیا ۔
قومی انتخاب میں چونکہ بی جے پی نے پوری دس سیٹیں جیت لی تھیں اس لیے شاہ
کو یقین تھا کہ حالت پہلے بہتر ہوگی لیکن حالت خراب ہوگئی ۔ شاہ نے دعویٰ
کیا تھا کہ مودی نے ذات پات اور منہ بھرائی کی سیاست کا خاتمہ کردیا ہے
لیکن ہریانہ کے رائے دہندگان نے بی جے پی کو ذات پات کی دیوار میں چنوا دیا
۔
ہریانہ سے قبل شاہ نے گجرات میں میں مشن 150+ کا اعلان کیا تھا لیکن وہ سو
تک بھی نہیں پہنچ سکے ۔ پارلیمانی انتخاب سے قبل کانگریس کے چار ارکان
اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوگئے اور بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن جیت گئے ۔
ان میں سے ایک کو وزارت سے نواز دیا گیا ۔ اس کے نتیجے میں مزید دو
کانگریسیوں نے استعفیٰ دے کر کمل تھام لیا لیکن حالیہ ضمنی انتخاب میں عوام
نے ان دونوں کو شکست فاش سے دوچار کردیا ۔ کانگریس کے سابق سکریٹری الپیش
ٹھاکور رادھن پور میں کانگریس کے راگھو دیسائی نے ہرایا جبکہ بیاڑ کے اندر
کانگریس کے شیوپٹیل نے دھول سنگھ زالا کو دھول چٹا دی۔ ان حلقہ انتخاب میں
کامیابی کو وزیراعلیٰ وجئے روپانی نے وقار کا مسئلہ بنالیا تھا اور وہ
کشمیر ، طلاق بل اور ’چھپن انچ والی مرد سرکار‘ کے نعرے پر انتخاب لڑ رہے
تھے جبکہ کانگریس نے گاندھی جینتی کے دن ڈانڈی سے لے کر پوربندر تک یاترا
کی ایک ہفتہ میں بیس شہروں کا دورہ کیا ۔ گھر گھر گئے اور عوام کو
بیروزگاری، معاشی بدحالی اور ٹرافک کے سخت قوانین پر گفتگو کی عوام نے اس
کو قبول کیا اور بی جے پی کو اس کے گڑھ میں سبق سکھایا۔ اس الیکشن نے یہ
ثابت کردیا کہ بی جے پی کی کاغذ کی ناو زیادہ دن نہیں چل سکے گی اور کشمیر
جیسے طوفان بہت جلد اس کو لے ڈوبیں گے ۔
|