کرکٹ اب کرکٹ کہاں

مرزا تفصیل بیگ نے بیویوں اور صحافیوں والا مزاج پایا ہے۔ جہاں ذرا سا موقع ملتا ہے، پہلے تجسس میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر شک کرنے بیٹھ جاتے ہیں! کبھی کبھی تو وہ کچھ اِس انداز سے شک کرتے ہیں کہ فریق ثانی بس رشک کرتا رہ جاتا ہے! ہم نے بارہا یہ محسوس کیا ہے کہ سازش کا نظریہ شاید مرزا ہی کی اختراع ہے!

کرکٹ فیور کے تیور دیکھ کر مرزا تفصیل بیگ اپنی عادت کے مطابق مختلف شکوک میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ جہاں کہیں کرکٹ پر بحث ہو رہی ہوتی ہے، مرزا جھٹ ٹانگ اڑاتے ہیں اور اپنی بات منوا کر دم لیتے ہیں۔ کرکٹ ورلڈ کپ میں کوارٹر فائنل تک کے مرحلے کو بغور دیکھنے کے بعد مرزا نے فیصلہ سنا دیا کہ سب کچھ طے شدہ ہے یعنی میچ فکسنگ عروج پر ہے۔ ہمیں اُن کی اِس بات سے شدید اختلاف ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ مرزا تو اچھی خاصی کرکٹ کو کچھ کا کچھ قرار دینے پر کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کوئی ٹیم کم اسکور پر آؤٹ ہو تو مرزا کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کوئی باؤلر مار کھا رہا ہو تو مرزا کو ایسا لگتا ہے جیسے اُس نے مال کھا لیا ہے! بیٹسمین دم لگا کر چوکا یا چھکا مارے تو مرزا اُسے باؤلر کی بدنیتی کے کھاتے میں ڈالنے میں دیر نہیں لگاتے! اگر کوئی وکٹ کیپر اپنی نا اہلی کے باعث بھی کیچ چھوڑے تو مرزا اُس کا تعلق سٹّے بازوں سے جوڑنے میں دیر نہیں لگاتے! سٹّے باز بھی سوچتے ہوں گے کہ اُن کے کھاتے میں لوگ کیا کیا ڈال دیتے ہیں!

پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ورلڈ کے سیمی فائنل میں پہنچیں تو مرزا بھی پوری قوم سے ہم آہنگ ہوئے یعنی بیروزگاری، کرپشن، اقربا پروری، افلاس، افراط زر، ڈرون حملوں، ریمنڈ کی رہائی، عافیہ کی اسیری اور دوسرے تمام قومی اشوز کو بھلا کر صرف کرکٹ کے سمندر میں غوطے لگانے لگے۔ کرکٹ سے اُن کا شغف دیکھ کر ہم تشویش میں مبتلا ہوئے۔ کرکٹ اب چیز ہی ایسی ہے کہ اِس میں دلچسپی لینے والے پر پتہ نہیں کیا کیا گمان گزرنے لگتے ہیں!

کرکٹ میں اپنی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا سبب بھی مرزا نے خود ہی بیان کردیا۔ ان کا فرمان ہے کہ کرکٹ سے پرفیوم کا کام لیا جارہا ہے! ہم مرزا کے دوست سہی، مگر اُن کا سا ذہن رسا کہاں سے لائیں۔ لاچار ہوکر ہم نے اُن سے پوچھا کہ کرکٹ کا پرفیوم سے کیا تعلق ہے؟

مرزا نے مہربانی فرماتے ہوئے وضاحت فرمائی ”ہماری پوری زندگی تعفن زدہ ہے۔ کون سا مسئلہ ہے جو گل سڑ نہیں گیا؟ کس اشو کے سڑے ہوئے جسم سے تعفن کے بھبکے نہیں اٹھ رہے؟ ایسے میں پرفیوم ہی سے تو کام لیا جائے گا۔ اور سِکّہ بند اشوز کے تعفن سے بچانے میں کرکٹ سے بڑھ کر پرفیوم کا کردار کون ادا کرسکتا ہے؟“

ہم بچپن ہی سے کرکٹ کے دیوانے رہے ہیں اِس لئے جب کوئی ہمارے اِس پسندیدہ کھیل میں کیڑے نکالتا ہے یا اِسے کھیل کے سوا کچھ اور بیان کرتا ہے تو ایک آگ سی لگ جاتی ہے! فطری سی بات ہے کہ مرزا کی بات سے ہمیں اختلاف تھا۔ اور ہم نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اِس کا اظہار بھی کیا۔ بھس پھر کیا تھا، مرزا تو جیسے پھٹ پڑے ”تم بھی بڑے پختہ ہو، دو اور دو چار پر یقین رکھنے والے۔ یہ حساب کتاب چھوڑو۔ نیا زمانہ ہے، سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ ایسے میں کرکٹ کو تبدیل ہونے سے کون روک سکتا ہے؟ تم اسکرین پر یارکر دیکھ کر خوش ہوتے ہو اور لوگ کرکٹ ہی کو یارکر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں!“

ہم لاکھ باصلاحیت سہی مگر مرزا کی سی عقل کے حامل تو نہیں، اِس لئے اُن کی باتیں دَھنا دَھن ہمارے سر سے گزر رہی تھیں۔ ہم پر مزید مہربان ہوتے ہوئے مرزا نے وضاحت فرمائی ”بھائی، بات یہ ہے کہ حالات کی کچرا کنڈی میں بہت سے مسائل پڑے پڑے تعفن کا باعث بن رہے ہیں۔ قوم پریشانی کے عالم میں ناک پر رومال رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں اگر تھوڑی سے کرکٹ کا اسپرے کردیا جائے تو کیا ہرج ہے، تعفن چند ہفتوں یا مہینوں کے لئے دب ہی جائے گا۔ ویسے بھی کرکٹ کے بوجھ تلے بہت کچھ دب چکا ہے۔ قوم نے کرکٹ اور کرکٹرز کو سر پر بٹھا رکھا ہے۔“

ہم نے عرض کیا محض کرکٹ سے کیا ہوگا؟ کیا لوگ سارے غم، تمام مسائل بھول بھال جائیں گے؟ کرکٹ فیور محض وقتی اُبال ہے۔ جب کرکٹ کی گرد بیٹھے گی تو لوگوں کو سب کچھ پھر یاد آنے لگے گا۔ مرزا نے ”انتہائے شفقت“ سے ہمارے سر پر چپت رسید کرتے ہوئے کہا ”دماغ ہلاؤ تو اِس میں کچھ داخل بھی ہو۔ اللہ کے بندے! جب لوگ کرکٹ کے بخار میں مبتلا رہیں گے تو بہت سی دائمی بیماریوں کو کچھ مدت کے لئے تو بھول ہی جائیں گے۔ اچھا ہے، پوری قوم ”بوم بوم کرکٹ“ کے چکر میں دو چار مہینے بُوم یعنی چغد بنی رہے اور اِس دوران حکومت کو بجٹ کے پُل صراط سے گزرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے!“

مرزا کی باتوں نے ہمیں الجھن میں ڈال دیا۔ ہم تو کرکٹ کو خاصا شریفانہ کھیل سمجھ بیٹھے تھے اور اپنایا بھی اِسی لئے تھا کہ لوگ ہمیں بھی، اِسی بہانے، شُرفاء میں شمار کرلیں! اب جو مرزا نے ”وضاحت“ فرمائی تو خیال آیا کہ سیدھی سادہ کرکٹ کو ہم پتہ نہیں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے! گیند بلے کا کھیل تو خاصے بڑے کھیلوں کا جنم داتا نکلا! ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ کرکٹ جیسا کھیل کبھی دو بڑے ممالک کے ایک ارب سے زائد افراد کو اپنے سحر میں اِس طور جکڑے گا کہ پھر اُن کے لئے اِس سے نکلنا محال ہو جائے گا!

کل تک ہم کرکٹ پر سٹّہ کھیلنے والوں کو بہت بُرا سمجھتے تھے مگر اب ہمیں اندازہ ہوچلا ہے کہ ہماری سوچ خاصی محدود تھی۔ کھیل بُرا ہے نہ اِس کھیل کو کھیلنے والے بُرے ہیں۔ اگر بُرائی ہے تو اُن میں جو اِس کھیل سے کھیل رہے ہیں! جب حکومتیں ملوث ہو جائیں تو کوئی بھی کھیل پھر کھیل کہاں رہتا ہے! کرکٹ اب کیا ہے، خوف کرکٹ کھیلنے والوں کو بھی اندازہ نہیں!

مرزا کا استدلال ہے کہ پاکستانی قوم معقولیت کی تمام حدود پار کرچکی ہے۔ دل بہلانے کے نام پر پتہ نہیں کیسے کیسے کھیل تماشوں کو لگے لگا لیا گیا ہے۔ اُن کی بات درست ہے مگر حالات کی ستائی ہوئی قوم کرے تو کیا کرے؟ ہماری اِس بات پر مرزا نے قدرے برہم ہوکر کہا ”کھیل ہی کھیل میں ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔ یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ کرکٹ میچ جیتنے کے لئے اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کیا جائے؟ کسی بھی کھیل کو روحانی اعصاب پر بھی سوار کرنا کِس طور معقول قرار دیا جاسکتا ہے؟ دنیا کیا کہے گی؟ کیا ہم پر ہنسے گی نہیں؟ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور ڈرون حملوں کے تسلسل کو ہم بھول گئے۔ دو تین میچ کیا جیت لیے، ہمیں یاد ہی نہ رہا کہ ہم کیا کیا ہار بیٹھے ہیں! کیا اقوام کے حافظے اِس قدر کمزور ہوا کرتے ہیں؟“

جب مرزا ہمیں آئینہ دِکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بہت بُرا لگتا ہے۔ اور کیوں نہ لگے؟ ہم اُن کے پاس کوئی اِس لئے تو نہیں بیٹھتے کہ وہ ہمیں یوں ذلیل کریں اور آئینہ دِکھا دِکھاکر ضمیر جگانے کی کوشش کریں۔ ہم بھی پاکستانی قوم کا حصہ ہیں۔ ہم بھی گہری نیند کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ گوناگوں مسائل کو بھلاکر، نظر انداز کرکے ہم بھی ”پُرسکون“ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ اگر کرکٹ کی تھوڑی سی ”ڈوز“ ہمیں بہت سے غموں اور پریشانیوں سے نجات دلانے کے لئے تیار ہے تو مرزا کو کیوں اعتراض ہے! ثابت ہوا کہ مرزا ہمارے حقیقی دوست نہیں اور ہمارا بھلا نہیں چاہتے۔ اگر وہ ہمارا بھلا چاہتے تو پاک بھارت سیمی فائنل سے قبل ہی منائے جانے والے جشن فتح میں خود بھی شریک ہوتے اور ہمیں بھی گھسیٹ کر شریک کرتے۔ قوم جشن منانا چاہتی تھی اور مرزا اُسے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور عافیہ کی اسیری کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے! قوم سونا چاہتی تھی اور مرزا جیسے لوگ اُسے جگائے رکھنے پر مُصِر دکھائی دیئے!

کرکٹ کی کوکھ سے ابھی کیا کیا برآمد ہونا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال تو کیفیت یہ ہے کہ ہم ہیں اور کرکٹ ہے۔ قوم سارے غم بھول جانا چاہتی ہے۔ قومی غیرت کے معاملات پر پھر کبھی غور کریں گے۔ مہنگائی کا رونا تو عمر بھر روتے رہنا ہے۔ افلاس کون سا ہمیں چھوڑ کر جا رہا ہے؟ مگر مرزا کہاں باز آنے والے ہیں۔ بے چاری دکھوں کی ماری قوم کا ضمیر جگانے کی کوشش کرتے ہی رہیں گے۔ یہ گویا حکومت کے خلاف سازش ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ قوم کو اب کرکٹ کے سوا کچھ بھی یاد نہ رہے۔ نیند ٹوٹے گی تو بہت کچھ یاد بھی آئے گا اور سمجھ میں بھی آئے گا۔ کرکٹ کا سحر ختم ہوگا تو میڈیا کے ذریعے کوئی نیا سحر پھونک دیا جائے گا! حکومت پر قوم کا یہ بڑا احسان ہے کہ اُس نے اہل اقتدار و اختیار کا کام آسان کردیا ہے۔ ”حکومت دوست“ قومیں ایسی ہی ہوتی ہیں! شاید اِسی رویّے کا پھل ہے کہ حکمران ہمیں کسی نہ کسی طور زندہ رکھے ہوئے ہیں اور اِس قدر نہیں نچوڑتے کہ وجود ہی مٹ جائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524598 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More