یہ مہنگائی بھی غنیمت ہے

ہمارے ملک کی مُرغیاں بھی عجب ناہنجار ہیں، روز مختلف نرخ کے انڈے دیتی ہیں! بھینس لاٹھی سے ہانکی جاتی ہے مگر اُسی بھینس کا دودھ ڈنڈا بن کر ہمارے سروں پر برس رہا ہے! انڈا اور دودھ مہنگا مل رہا ہے تو قصور مرغی کا ہے یا پھر بھینس کا، پتہ نہیں لوگ حکومت کو کیوں بیچ میں لے آتے ہیں! تیل کی قیمت بڑھنے پر بھی لوگ حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں مگر بھئی جن بیجوں سے تیل نکالا جاتا ہے وہی اگر کم نرخوں پر اُگنے سے انکار کردیں تو؟ معاملہ انڈے کا ہو یا خوردنی تیل کا، لوگ ہماری ”معصوم“ حکومت کو (مزید) بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے! یہی حال مرچ مسالوں کا ہے۔ پسا ہوا دھنیا ہو یا پسی ہوئی مرچ، ان چیزوں کی اوقات ہی کیا ہے، مگر اِن سب نے مل کر ہماری پیاری حکومت کے سر پر الزامات کا پوٹلا گرا دیا ہے!

دنیا بھر میں ماہرین ہاتھ جوڑ کر لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ کھانے میں نمک مرچ برائے نام رکھا جائے، مگر ہمارے ہاں لوگوں نے ہر ڈش کو مسالوں کی تحویل میں دے دیا ہے! اور سچ کہیے تو مسالوں نے ہمارے کھانوں کو گود لے لیا ہے! زندگی جیسی نعمت کو ہم نمک، مرچ، ہلدی اور ادرک کی محبت میں ضائع کرتے رہتے ہیں اور الزام حکومت کے سر پر دھرتے ہیں! دنیا بھر میں زندگی کا دامن وسیع کرنے کی تگ و دو جاری ہے۔ ہم دھارے کی مخالف سمت بہہ رہے ہیں۔ زندگی پھیلے گی تو زیادہ جگہ گھیرے گی۔ ہم نے خاصی محنت سے زندگی کو بریانی، حلیم، چائے، کافی، پراٹھوں اور شربت اور اِسی قبیل کی دیگر اشیاء تک محدود کر رکھا ہے!

بہت سی اقوام نے آزادی اور خود مختاری کے نام پر خواتین کو پتہ نہیں کیسے کیسے دھندوں میں الجھا دیا ہے۔ وہ مختلف شعبوں میں تگ و دو کرتی پھر رہی ہیں۔ جو تھوڑا بہت وقت بچتا ہے اُسے وہ بننے سنورنے پر لگا دیتی ہیں۔ یعنی غیبت اور لگائی بجھائی کے لئے بھی وقت نہیں بچتا! اگر اِدھر کی اُدھر لگانے کا وقت بھی نہ مل پائے تو کیسی کامیابی اور کہاں کی کامیابی! ہماری حکومت کا ”بڑپّن“ دیکھیے کہ اُس نے خواتین کو دوبارہ کچن اور چار دیواری کے زندان میں ڈال دیا ہے۔ سویرے آنکھ کھلتے ہی خواتین کو کھانا پکانے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے، یعنی حقوق نسواں کی بحث، خواتین کے لئے امکانات تلاش کرنے کی فکر اور اسی قبیل کے دیگر جھمیلوں سے جان چھوٹ گئی ہے!

لوگ مہنگائی کا رونا روتے نہیں تھکتے اور حکومت پر تنقید اور تبرّے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مگر صاحب اپنے کئے دھرے کے لئے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا کوئی اچھی بات نہیں۔ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری ”ہر دل عزیز“ حکومت نے لوگوں کو مشن سے محروم نہیں رکھا۔ زندگی کسی واضح مشن کے بغیر گزرے تو کس کام کی؟ یہ حکومتِ وقت کی مہربانی ہے کہ اب دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشن کا درجہ رکھتا ہے! لوگ زندگی میں مقصدیت پیدا کرنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ اور ذرا یہ دیکھیے کہ ہماری اسمارٹ حکومت نے اِس منزل کو کس قدر آسان کردیا ہے۔ کسی نہ کسی طرح سانسوں کے تسلسل کو برقرار رکھنا اب ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ یعنی بقول غالب
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا!

دنیا پتہ نہیں کس دنیا میں رہتی ہے۔ جس طرف دیکھیے، تحقیق کا بازار گرم ہے۔ مگر ہمیں تحقیق کے موضوعات پر اختلاف ہے۔ دنیا ذرا ہماری طرف آئے تو ہم بتائیں کہ زندگی کے کن کن بنیادی پہلووؤں پر دادِ تحقیق دی جاسکتی ہے۔ ایسی حکومت کہاں ملے گی جو عام آدمی کو مفکر بناکر عیاشی سے بچالے؟ رات جیسے تیسے بسر ہونے پر صبح آنکھ کھلتے ہی ہمیں روزی روٹی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ یہ معاملہ اب ایسی شدت اختیار کر گیا ہے کہ کیا زید اور کیا بکر، سبھی مفکر، بلکہ متفکر ہوکر رہ گئے ہیں! پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر سے فارغ ہوں گے تو ہم عیاشیوں کے بارے میں بھی سوچیں گے۔ قوم کو عیاشی سے بچانے کا ایسا نُسخہ کس حکومت کے پاس ہوگا؟

زندگی ہمیں اِس لئے ملی ہے کہ اِسے آسان بنائیں اور پُرسکون انداز سے بسر کریں۔ دنیا ہے کہ مہم جوئی میں مصروف ہے۔ کوئی پہاڑ پر چڑھ رہا ہے، کوئی سائیکل پر دنیا کا چکّر کاٹنے نکلا ہے، کسی کو جنگلی جانوروں کے رہن سہن پر تحقیق کی فکر لاحق ہے۔ یہ بھی کوئی زندگی ہوئی کہ جنگلوں میں بھٹکیے اور صحراؤں کی خاک چھانتے پھریے۔ زندگی ایسی ہی باتوں سے تو ضائع ہوتی ہے۔ گوشت، سبزی، دودھ، دہی، گھی، تیل، چاول، آٹا، چینی اور ایسی ہی مزید دس پندرہ چیزیں کافی ہیں۔۔ زندگی کو ”بامقصد“ بنانے کے لئے! زمانے بھر کے غموں اور جھمیلوں کو ہم کہاں ڈھونڈتے اور پالتے پھریں گے! زہے نصیب، پانی، بجلی اور گیس کے بلوں کی مہربانی سے اب لوگ عشق وشق بھی بھول گئے ہیں!

کبھی آپ نے ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں دستاویزی فلمیں دیکھی ہیں؟ لوگ گھر سے نکلتے ہیں اور پُرتکلف ٹرینوں یا بسوں میں بیٹھ کر دفتر، دکان یا فیکٹری پہنچتے ہیں۔ اور اِدھر ہم ہیں کہ اِس یومیہ سفر کو بھی مہم جوئی میں تبدیل کردیا ہے! اب ہم کسی کو کیسے سمجھائیں کہ بس کی چھت پر بیٹھ، پائیدان پر لٹک کر کام پر جانا کتنا بڑا ایڈونچر ہے! جن کا سفر ”پُرتکلف“ ہے وہ اس ”پُرتکلیف“ سفر کی نزاکت کو بھلا کیا جانیں!

ایک زمانہ تھا کہ جب بارش ہوتی تھی تو پیڑوں پر جھولے ڈالے جاتے تھے اور سکھیاں ایک دوسرے کو جھولا جھلاتی تھیں۔ اِدھر چند بوندیں آسمان سے ٹپکیں اور اُدھر کڑھائی میں تیل ڈال کر پکوڑے تلنے کی فکر لاحق ہو جایا کرتی تھی۔ ”درخشاں“ روایات کی اِس چونچلے بازی میں خواتین کا اچھا خاصا وقت ضائع ہوتا تھا۔ حکومت نے اب ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ بارش ہوتی ہے تو خواتین کو ٹپکتی چھت کے نیچے برتن رکھنے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے! غریبوں کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی اب یہی ایک موثر، قدرتی صورت رہ گئی ہے! پانی اللہ کی نعمت ہے۔ اللہ کی نعمت نالی میں بہے، اِس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ محفوظ کر کے بروئے کار لائی جائے!

یہ بھی مہنگائی کی کرامت ہے کہ غریبوں سے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں۔ اب تو خیر سے چادر ہی نہیں رہی! ہاں، سر پر آسمان کی چادر تنی ہے اور پاؤں پھیلانے کے لئے اللہ کی زمین کیا کم ہے! رہی صحت عامہ تو اس کا حال بھی خاصا غریب نواز ہے۔ اول تو کوئی بڑی بیماری کسی غریب کے پاس پھٹکتی نہیں۔ اور اگر بھولے سے اُس کی طرف آ نکلے تو جان لے کر ٹلتی ہے، غریب کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتی! بڑے ہسپتالوں کو کھلی چھوٹ دی جاچکی ہے کہ علاج کے نام پر جو چاہیں، چارج کریں۔ ہسپتالوں سے ڈسچارج ہونے کے بعد لوگ کئی سال تک خود کو مالی طور پر ری چارج کرتے پھرتے ہیں! غریبوں کا تو یہ حال ہے کہ ہسپتال کے چارجز سُن کر ہی ملکِ عدم کے راہی ہو جاتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524658 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More