شیخ محمد ابراہیم
آپ کا تعلق حید ا ٓباد دکن سے تھا ۴۶۹۱ میں کراچی یونوسٹی سے لا ئبریری
سائنس میں ماسٹرزکیا۔ ۲۷۹۱ میں کراچی یونورسٹی لا ئبریری کے ٹیکنیکل سیکشن
کے انچارج ہوئے ۔
آپ ۰۵۹۱ میں ہجرت کر کے کراچی آئے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملا زمت حاصل کی
دوران ملا زمت تعلیم کا سلسلہ بر قراررہا اور ۴۶۹۱ میں جامعہ کراچی سے ایم
اے درجہ اوّل امتیاز ی نمبروں میں پاس کیا اور کچھ عرصہ بعد جا معہ کراچی
کے کتب خانہ میں مشرقی علوم اور اسلامیات کے شعبے میں تقررہو ۔ا آپ کے ہم
عصر حضرات میں فضل اللہ فاروقی اورعبیداللہ قد سی قابل ذکر ہیں آپ کو ڈاکٹر
معید، ڈاکٹر انیس خورشید، حاجی محمد شیفع جیسے اساتذہ سے حصول تعلیم کا شرف
حاصل ہوا ۲۷۹۱ اپکا تبا دلہ ٹیکنیکل سیکشن ہوا۔جہا ں آپ کے ہم عصر اور سا
تھی ڈاکٹر جلال حیدر، عبداللہ جان صاحب تھے۔ ٹیکنیکل شعبہ کے سربراہ کی
حیثیت سے درجہ بندی و کیٹلاگ سازی کے طویل تجربہ کی بنا پر موجود ہ درجہ
بندی نظاموں کے ان کی پر گہری نظر تھی۔اوراس میں تبدیلی کے خواہاں تھے اس و
جہ سے انھوں نے ایک اسکیم تشکیل دی اسکا نام انھوں نے clasification super
system رکھا جوان کی علمی اور فنی کا وشوں کا نچوڑ ہے ۔شیخ صاحب اپنے فرائض
منصبی کے ساتھ دیگر خدمات بھی انجا م دیتے رہے تھے۔ شعبہ جات اور عام
قارئین کی معلومات کے لئے ”لائبری نیو ز“ بلٹن شائع کرتے تھے جوہر ماہ با
قاعدگی سے نکلتا تھا۔ اس میں لائبریری کی سما جی تقر یبات کے علاوہ لا
ئبریری اسٹاف سے متعلق خبر یں بھی شائع ہو تی تھیں اور لائبریری کے آ ئندہ
پر وگراموں کی اطلاع دی جا تی تھی۔ شیخ صاحب بچپن ہی سے مذہبی رجحا ن خا ص
طورسے صوفیا نہ ذہن رکھتے تھے۔ آپ کم گو اور عاجزی و انکساری کا مرقع تھے۔
بقول انیس خور شید”شیخ ابر اہیم بلا شبہ ماہر فن، انتہائی قابل، محنتی اور
ذہین شخص تھے۔
انھیں اپنے فن پر عروج حاصل تھا لیکن اسکے ساتھ ہی عجز وانکساری اور صو فیت
نے ان پر اس درجہ غلبہ حاصل کر رکھا تھاکہ وہ انکی علمی قابلیت ٹیکنیکی مہا
رت اور فن پر اس حد تک حاوی ہوگئی، جو انکی ناکامی کا سبب بن گئی۔یہ بے
اعتنا ئی انھیں فن کی دنیا سے اوجھل رکھہ رہی ہے“ انکی پدرانہ شفقت کا یہ
عالم تھا کہ انھوں نے برسوں کے علمی و فنی نچوڑ سے درجہ بندی تر تیب دی اس
پر اپنے بچوں کے نا موں کو نمایا ں طور پر مصنف کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور
اپنے آپ کو گائیڈ کے طور پرظاہر کیا ہے ” آپ کا کہنا تھا کہ مجھے شہرت کی
ضرورت نہیں یہ کا م بچوں کے نا م سے پہچا نا جا ئے یہی میری کا میابی ہے“
فن لا ئبریری سا ئنس کا یہ خاموش مجاہد۱۳ مارچ ۵۱۰۲ کو اس دار فانی سے رخصت
ہوا ،لیکن ان کو اس فن سے اس قدر گہرالگاؤ تھا کہ انھوں نے اپنے بچوں کو اس
میدان میں آگے بڑھا یا اور انکے دوبیٹے اور بیٹی بحیثیت لا ئبریر ین مختلف
اداروں میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
بڑے بیٹے،محمود الرحمٰن نے ۴۹۹۱ ء میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کیا۔یہ
جامعہ ملیہ ایلیمینٹری ایجو کیشن کالج ملیر میں ۲۰۰۲ ء سے سینئر لائبریرین
کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
دوسرے بیٹے، نور ا حمد نظامی نے ۵۹۹۱ء میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز
کیا۔یہ جناح گورنمنٹ بوائز کالج ناظم آباد میں ۲۰۰۲ ئسے سینئر لا ئبریرین
کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
انکی بیٹی ،صفیہ شیخ نے ۱۰۰۲ ئمیں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کیا۔ صفیہ شیخ
۲۰۰۲ سے خورشید گورنمنٹ ڈگری گرلز کا لج شاہ فیصل کالونی میں بحیثیت سینئر
لا ئبریرین اپنی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔
ڈاکٹرآمنہ خاتون
ایڈیٹر،پی۔ ایل۔ آئی۔ ایس ۔جے
|