خاتون شاعر

ولہ تازہ عطا کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہیں ۔ سیلاب حیات کا بلاخیز طوفان نہایت سرعت کے ساتھ بڑھ رہا ہے ۔ اس کے مہیب گراداب میں مظلوم اور قسمت سے محروم انسان خس وخشاک کے مانند غلطاں وپیچاں ہیں۔اس آشوب میں کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں ۔بیاباں میں کھلے اور بکھرنے والے گل ہائے رنگ رنگ کا قدر شناس کو ن ہوگا؟ہوس نے جہاں نوع انسان کو انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھایا وہاں اس کے تباہ کن اثرات سے نئی نسل بے حسی کا شکار ہوگئی اور روح بالکل مرسہ ہوچکی ہے ۔ خواتین کے اسلوب متعدد آفاقی صداقتوں کا پرتو ملتا ہے ۔ زندگی میں نئے مفاہیم کی جستجو اس سلسلے میں قابل ذکر ہے۔
جو بیتی ہے وہ دہرانے میں کچھ وقت لگے گا
اس غم کو اک یاد بنانے میں کچھ وقت لگے گا
یہ مت سمجھو دیا والوتھک کر بیٹھ گئے ہم
پچھلی چوٹو ں کو سہلانت میں کچھ وقت لگے گا (شبنم شکیل)

تانیثیت پر مبنی تنقیدی انداز فکر نے 1990کے بعد اپنی اہمیت ، افادیت اور مقبولیت کا لوہا منوایا ہے آج خواتین نے ادب اور فنون لطیفہ میں اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی ہے ۔ فطرت اورماحول سے خواتین کی یگانگت اور گہرا ارتباط ان کی تحریروں کا امتیازی وصف ہے ۔ اسی کے معجز نما اثر سے جہدللبقا کے موجودہ زمانے میںخواتین کی تحریریںخود اپنا اثبات ہیں ۔ نفسیاتی حوالے سے عورت ، جنس اور جذبات کو اہم حیثیت حاصل ہوچکی ہے ۔ ان کی تحریریں خلوص اور درد مندی کی مظہر ہیں ۔ خواتین کے تیشے میں بے لوث محبت کے جذبات سرایت کر چکے ہیں وہ ان کی تحریروں میںصاف سنائی دتیے ہیں ۔تانیثیت پر مبنی تنقید میں جہاں حیاتیاتی تناظر میں بات کی جاتی ہے عہاں خدوخال کی دلکشی پر بھی توجہ مرکوز رہتی ہے اور بعض ناقدین حسن صورت کو تخیل کا منبع قرار دیتے ہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایثار ، قفا ، محبت اور ہجر و فراق کے موضوعات پر خواتین کا انداز دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے یہ بات مردوں کی تحریروں عنقا ہے ۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تانیثیت ایک واضح صداقت کا نام ہے۔ اسے ایک خاص طبقے یا صنف کی تخلیقات کا مخزن قرار دیان درست نہ ہوگا ۔نہ ہی اسے حیاتیاتی عوامل کی بنا پر الگ حیثیت ملنی چاہیے ۔ بلکہ یہ ادب ہو ایک خاص بود باش رکھنے والی اور منفرد طرز معاشرت کی ؟حامل خواتین سے منسوب ہے ، جہاں کی ہر ادا جہان دیگر کی مظہر ہے ،۔ فہمیدہ ریا ض نے اپنی آزاد نظم ” زادراہ “ میں سوال کیا ہے وہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے
طویل رات نے آنکھوں کو کردیا بے نور
کبھی کو عکس سحر تھا ، سراب نکلا ہے
سمجھتے آئے تھے جس کو نشان منزل کا
فریب خوردہ نگاہوں کا خواب نکلا ہے
تھکن سے چور ہیں ، آگے بڑھیں کہ لوٹ آئیں

باشعو ر خواتین نے ہمیشہ حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے اور حریت ضمیر کے لیے اسوہ شبیر کو اپنایا ہے محتمہ بلقیس قمر سبز واری کا خیال ہے:” ادب میں سب سے زیادہ نقصان دہ بات یہ ہے کہ ہماری سوچ معطل اور ارادے تحلیل ہوجائیں شعری اور ادبی پذیرائی کم ہوجائے اور ہمارے دانش ور نقاد اپنے شحصی وجود کو منوانے پر زور چینے لگیں ۔“ (19)

نسائی لب لہجے کو اپناتے ہوئے نسل نو کو تعلیم وتربیت کے ذریعے تہذیبی وثقافتی میراث کی منتقلی تانیثیت کا معجز نما اثر ہے۔اس سلسلے میں خواتین نے بہت جگر کاعی کا مظاہرہ کی ہے ۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس رہا ہے کہ تہذیبی وثقافتی اقدار وا روایاکی نمووقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ اس میں کسی کوتاہی کا ارتکاب ایک مہلک غلطی ہے جو انسان کو وحشت و بربریت کی بھینٹ چڑھا سکتی ہے ۔ محرمہ زہدہ حنا نے نہایت دردمندی سے اس جانب متوجہ کرتے ہوئے لکھا ہے :” ہمارے ہاں احتجاج کی جمہوری جدوجہد کی چھوٹی اور بڑی لہریں اٹھ رہی ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں ہیوگو کی طرح ایسے ادیب موجود نہیں ۔ ہمیں ایسے ادیبوں کی ضرورت ہے جو وکٹر ہیوگو کی طرح یہ کہہ سکیں کہ جبر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈلنے والی آنکھ بن جاﺅ جو عظیم کل پر جمی ہوئی ہے ۔ ادیب اپنی تحریروں سے سینے میں جمہوریت اور آزادی کی قندیل ہی روشن نہ کریں بلکہ اپنے ادب سے جمہوریت پسند لوگ بھی پیدا کریں کہ یہی لوگ انقلاب کا ہراول دستہ بنتے ہیں ۔“ (20)

خواتین نے ہر دور میں تاریخی آگہی(Historical Awareness) اور عصری آگہی پر توھہ مرکوز رکھی ہے ۔ ان ہاں معروضیت (Objectivity) کا عنصر نمایا ں رہا ہے۔مابعد جدیدیت کی ایک پیچیدہ (Complex) صورت حال واضح دکھائی دیتی ہے ۔ پاکستان میں جب13 جون2007کو عدالتی بحران پیداہوا تو حساس تخلیق کار اس سے بہت متاثر ہوئے ۔ یہاں تک کہ 13جون2007 کو اس بحران کے حل کے لیے قانون دان طبقے کی اپیل پر لانگ مارچ ہوا۔ محترمہ کشور ناہید نے حرف صداقت لکھنا اپنا شعار بنایا ہے ۔ ان کی تحریر میں مادر وطن سے محبت صاف جھلک رہی ہے جو ایک ماں کا امتیازی وصف ہے:”پشاور سے ملیر کراچی تک ہر شہر کے لوگوں کے چہرے کہہ رہے تھے فیض صاحب آپ نے تو کہا تھا ، ”بول کہ لب آزاد ہیں تیرے “ آپ نے تو کہا تھا ،” لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے “ اب آپ بتائیں ، ہم نے تو حوصلہ کیا ۔ اعلان کیا ، مظاہرہ کیا، تو اب فیض صاحب بتائیں منافق کون ہے؟“(21)

خواتین نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کردیا کہ ان اقدار و روایات کو پروان چڑھانا چاہیے جن کے اعجاز سے معاشرتی زندگی میں خیر وافلاح کے امکانات کو یقینی بنایا جاسکے ۔جبر کا ہر انداز مسترد کر کے اخلاقیا ت کے ارفع معیار تک رسائی پر توجہ دی جائے ۔ انفرادی اور اجتماعی لاشعور کی جو کیفیت خواتین کی تخلیقات میں جلوہ گر ہے اس کا تعلق دروں بینی سے ہے محترمہ بلقیس قمر سبز واری کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جو ایک تخلیق کا کی فکر ، عصری عوامل اور گہرے احساسات کو سموئے ہوئے ہیں۔
خواہش ہے مجھ کو دیکھ کے کہہ جائیں اہل دل
اپنے لہو میں ڈوب کے بکھرا ہے کو ئی رنگ
خار وگل کے اس تصادم سے بھلا ملتا ہے کیا
اپنا داماں چاک ہو جاتا ہے بس احساس سے
سمندروں سے گزر کر ملے ہیں جو طوفاں
انھی کو چھو کے ہمیں آفتاب ملتے ہیں
وقت بھی کیا ہے کہ طوفان سفر میں اب تک
ایک گزرے ہوئے منظر کی طرح لگتا ہے
آئینے ٹوٹ کے رہ جائیں اگر قدموں میں
ہم تو بکھر ے ہوئے شیشوں سے بنالیں دنیا
نہ جانے کس کا سفر تھا کہاں پہ ختم ہوا
ستارے ٹوٹے ہیں کتنے سحر کے ہونے تک
رہتے ہیں ہم زمین پر کیوں خود سے شرم سار
ہم نے تو بار بار بنائے ہیں آسمان

اردو ادب میں خواتین نے ہر صنف ادب میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ مرسعں کی بالادستی اور غلبے والے معاشرے میں انھوں نے ہوائے جوروستم میں شمع وفا کو فروزاں رکھا ہے۔انھوں نے مظلوم ، محروم اور مجبور عوام سے جو عہد وفا کی اسے پوری عمر استوار رکھا ۔ بانو قدسیہ، قرةالعین حیدر ، خالدہ حسین ، زہدہ حنا ، پروین ملک ، پروین شاکر ، ادا جعفری ، بلقیس قمرسبز واری ، خدیجہ مستور ، ہاجرہ مسرور ، عصمت چغتائی ، جمیلہ ہاشمی اور ممتاز شیریں اس کی درخشاں مثالیں ہیں ۔ہر عہد کے ادب میں ان نابغہ روزگار شخصیات کے اثرات موجود ہیں گے ، تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔ ادا جعفری کی یہ نطم ” شہر آشوب “تانیثیت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
شہر آشوب
ابھی تک یاد ہے مجھ کو
مرے آنگن میں خیمے تھے دعاﺅں کے
یقیں آئے نہ آئے میرے بچوں کو
گئے وقتوں کا قصہ ہے
کہ بر گ گل کبھی قد موں تلے روندانہ جاتا تھا
ہوا برگشتہ گام آتی نہ تھی پہلے
یقیں اغوانہ ہوتا تھا
مرے آنگن میں نقش پاسجے تھے
خون کے دھبے نہ ہوتے تھے
دھوئیں کے ناگ کا پہرانہ ہوتا تھا
گئے وقتوں کی باتیں ہیں
مرے بچوں کو شاید ہی یقیں آئے
در ودیوار کے اوپر
کسی آسیب کا سایا نہ ہوتا تھا
سبھی تنہا تھے لیکن یوں کوئی تنہا نہ ہوتا تھا
ابھی تک یاد ہے مجھ کو

آج ہمیں ہوا کی دستک کو سن لینا چاہیے ۔آنے والی رت بہت کڑی ہے۔ حصار جبر کی اندھی فصیل کو منہدم کرنے کے لیے کوبہ کوبہ بیداری کا پیغام پہنچانا ہوگا ۔ بے چہرہ لوگوں اور بے در گھروں میں حوصلے اور امید کی شمع فروزاں کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ خواتین میں احساس ذمہ داری اور بیداری کی جو لہر پیدا ہو گئی ہے وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے ۔

مآ خذ
۱۔ علامہ محمداقبال ڈاکٹر: ضرب کلیم ، کلید کلیات اقبال ، اردو، مرتب احمد رضا، 2005 ، صفحہ 106
2. David Lodge: Modern Croticism and
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 257380 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.