اردو ادب میں موضوعاتی شاعری پر
بہت کم توجہ دی گئی ہے۔قلی قطب شاہ سے لے کر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی تک
اردو ادب میں موضوعاتی شاعری نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس کا ایک طویل
پس منظر ہے۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر موضوع کا تعلق بہ
ظاہر محدود متن اور پس منظر سے ہوتا ہے مگر جہاں تک اس کے دائرہ کار کا
تعلق ہے تو یہ لا محدود ہو تا ہے۔ماضی میں اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال
انگیز اور فکر پرور تحریک سے ایک ولولہ تازہ نصیب ہوا۔آقائے اردو مولانا
محمد حسین آزاد ،خواجہ الطاف حسین حالی ،شبلی نعمانی ،اسمعیل میرٹھی اور
متعد دزعما نے خون جگر سے اس صنف شاعری کی آبیاری کی اور اسے پروان چڑھانے
میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کیں۔۔موضوعاتی شاعری اور اس کے پس پردہ کارفرما
لا شعوری محرکات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح
واضح ہو جاتی ہے کہ معاصر ادبی دور میں موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور
مستحکم روا یت کی صورت میں اپنی افادیت کا لوہا منوا لیا ہے۔اس طرح یہ
روایت تاریخ کے مسلسل عمل کے اعجاز سے پروان چڑھتی ہوئی دور جدید میں داخل
ہوئی۔اس عہد میں ہمیں تمام اہم شعرا کے ہاں اس کے آثار دکھائی دیتے
ہیں۔عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب اور دانشور محسن بھوپالی کا
ایک شعری مجموعہ ”موضوعاتی شاعری “ کے نام سے آج سے پندرہ برس قبل شائع ہو
ا تھا۔اس طرح ا ولیت کا اعزاز انھیں ملتا ہے۔ان کی نظم ”شہر آشوب
کراچی“مقبول موضوعاتی نظم ہے۔اردو کے روشن خیال ادیبوں نے نئے افکار،جدید
اسالیب،اور زندگی کی نئی معنویت کو موضوعاتی شاعری کی اساس بنایا۔
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی شاعری میں موضوعات کا تنوع ،جدت اور ہم گیری
ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے ۔ان کی موضوعاتی شاعری جہاں کلاسیکی روایات کا
پر تو لیے ہوئے ہے وہاں اس میں عصری آگہی کا عنصر بھی نمایاں ہے ۔معاشرے ،سماج
اور اقوام عالم کے ساتھ قلبی وابستگی کے معجز نما اثر سے ا ن کے ہاں ایک
بصیرت اور علمی سطح فائقہ دکھائی دیتی ہے ۔وہ جس علمی سطح سے تخلیق فن کے
لمحوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اس کا برا ہ راست تعلق آفاقیت
سے ثابت ہو تا ہے۔فرد ، معاشرے،سماج،وطن ،اہل وطن،حیات ،کائنات اور اس سے
بھی آگے ارض و سما کی لا محدود نیرنگیاں ان کی موضوعاتی شاعری میں اس دلکشی
سے سما گئی ہیں کہ قاری ان کے اسلوب بیاں سے مسحور ہو جاتا ہے ۔ان کی یہ
موضوعاتی شاعری منظوم تذکرے کی ایک منفرد صورت قرار دی جا سکتی ہے اس
موضوعاتی شاعری میں منظوم انداز میں جو تنقیدی بصیرتیں جلوہ گر ہیں وہ اپنی
مثال آپ ہیں ۔اس سے قبل ایسی کوئی مثال اردو شاعری میں موجود نہیں ۔انسان
شناسی اور اسلوب کی تفہیم میں کوئی ان کا مقا بلہ نہیں کر سکتا۔موضوعاتی
نظموں میں جو منفرد اسلوب انھوں نے اپنایا ہے وہ اوروں سے تقلیدی طور پر
بھی ممکن نہیں ۔وہ لفظوں میں تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں اور قاری چشم
تصور سے تما م حالات و واقعات سے آگاہ ہو جاتا ہے۔وہ اصلاحی اور تعمیری
اقدار کو اساس بنا کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں
قصیدہ گوئی یا مصلحت اندیشی کا کہیں گزر نہیں۔وہ وستائش اور صلے کی تمنا سے
بے نیاز حریت فکر کے مجاہد کی طرح اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حرف
صداقت لکھتے چلے جاتے ہیں۔ان کی موضوعاتی شاعری کا تعلق زیادہ تر مرحوم
ادیب ،شاعر ،فنون لطیفہ کے نابغہ روزگار افراد اور فطرت کے مظاہر ہیں ۔حق
گوئی ،بے باکی اور فطرت نگاری ان کی موضوعاتی شاعری کا نمایاں ترین وصف ہے
۔
ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے تخلیق فن کے
لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی جو کامیاب سعی کی ہے وہ لائق صد
رشک و تحسین ہے ۔ان کا تشخص اپنی تہذیب ،ثقافت ،کلاسیکی ادب اور اقوام عالم
کے علو م و فنون کے ساتھ قرار پاتا ہے ۔وہ اقتضائے وقت کے مطابق تیزی سے
بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ عہد وفا استوار رکھتے ہیں اور اسی کو علاج گردش
لیل و نہار قرار دیتے ہیں۔وہ اس امر کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی
قوم اپنے اسلاف کی عظمت اور فکری میراث سے چشم پوشی کی مہلک غلطی کی مرتکب
ہوتی ہے تو اس نے گویا یہ بات طے کر لی ہے کہ اسے اپنی ترقی اور عظمت سے
کوئی سرو کار نہیں ہے۔اسی لیے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے عالمی شہرت کے
حامل تخلیق کاروں کے بارے میں نہایت خلوص اور درمندی سے کام لیتے ہوئے مثبت
شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔کلاسیکی اردو شعرا کے متعلق ان
کی موضوعاتی شاعری ان کی انفرادیت کے حیران کن پہلو سامنے لاتی ہے۔اس
موضوعاتی شاعری میں ایک دھنک رنگ منظر نامہ ہے ۔تخلیق کار نے ید بیضا کا
معجزہ دکھایا ہے ۔اس میںموضوعات کی ندرت،معروضی حقائق،خارجی اور دا خلی
کیفیات ،انفرادی اور اجتماعی زندگی کے جملہ معمولات اس مہارت سے اشعار کے
قالب میں ڈھالے گئے ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے
۔
اے مصور تیرے ہاتھوں کی بلائیں لے لوں
اپنی موضوعاتی شاعری میں ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے جن عظیم شخصیات کو
منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ان میںمیر تقی میر ،میرزا اسداللہ خان
غالب،احمد فراز،پروین شاکر ،شبنم رومانی،فیض احمد فیض،سید صادقین نقو
ی،مظفر وارثی اور متعد د تخلیق کاروں کو انھوں نے زبر دست خراج تحسین پیش
کیا ہے ۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے
۔ان کے اسلوب میں پائی جانے والی اثر آفرینی قلب اور روح کی گہرایﺅں میں
اتر کر دامن دل کھینچتی ہے۔
انسانیت اور زندگی کی اقدار عالیہ کے ساتھ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی
والہانہ محبت ان کی موضوعاتی شاعری میں جس انداز میں جلوہ گر ہے وہ ان کے
ندرت تخیل اور انفرادی اسلوب کی شاندار مثال ہے۔ بے لوث محبت اور درد کا یہ
رشتہ ان کی ایسی تخلیق ہے جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں ۔وہ
انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے داعی اور علم بردار ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ وہ جغرافیائی حدود اور زمان و مکاں کے دائروں سے آگے نکل کر انسانیت
کے آفاقی محور میںاپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سائنس کے غیر شخصی
انداز سے قطع نظر ان کے اسلوب میں شخصی اور انفرادی انداز کی بو قلمونی
اپنا رنگ جما رہی ہے۔ان کی موضوعاتی شاعری میںان کا انفرادی اسلوب اس دلکش
انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے کہ ان کے قلبی احساسات،سچے
جذبات،الفاظ اور زبان کی گہری معنویت،پر تاثیر اشاراتی کیفیات اور سب سے
بڑھ کر تہذیبی میراث کا تحفظ ان کا مطمح نظر قرار دیا جا سکتا ہے ۔انھوں نے
ہمارے ادب ،تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی مستحسن اور عزیز ترین اقدار و
روایات کو صیقل کیا ہے ان کی اس فکری و فنی کاوش نے متعدد تجربات ،مشاہدات
اور بصیرتوں کو پیرایہ ءاظہار عطا کیا ہے ۔ان کے سوتے ہمارے اسلاف کی فکری
میرا ث سے پھوٹتے ہیں۔ان کے مطا لعہ سے قاری ان تمام مآخذ اور منابع سے
آگہی حاصل کر لیتا ہے جن پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ چکی ہے۔ہمارا
معاشرہ اور فطرت کے تقاضے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ رخش عمر مسلسل رو میں
ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاﺅں رکاب میں ہیں۔ان
تمام تناسبوں اور تقاضوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔شعوری سوچ اور گہرے
غور و فکر کے بعد ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے موضوعاتی شاعری کو اپنے
اسلوب کے طور پر اپنایا ہے۔یہ سب کچھ تاریخی شعور کا مرہون منت ہے جو حدود
وقت،زماں اور لا مکاں اور ارضی و سماوی قیود سے بالا تر ہے ۔ایک جری اور
زیرک تخلیق کار اسی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے روایت کو استحکام عطا کرتا
ہے ۔وہ اپنی داخلی کیفیت سے مجبور ہو کر کسی بھی موضوع پر بر جستہ اور فی
البدیہہ لکھنے پر قادر ہیں۔یہ ان کی قادر الکلامی کا ٹھوس ثبوت ہے ۔ان کا
یہ اسلوب انھیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے ۔ان کی تخلیقی فعالیت اور
ادب پاروں سے اردو زبان وادب کی ثروت میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہ تاریخ
ادب کا ایک درخشاں باب ہے ۔ان کے بار احسان سے اردو زبان و ادب کے شیدائیوں
کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ان کے فن پاروں کی حقیقی قدروقیمت کا تعین کرتے
وقت قاری اس بات پر ضرور توجہ دیتا ہے کہ تخلیق کار نے کامیاب ابلاغ کے
تمام طریقے پیش نظر رکھے ہیںان میںاسلوب کی انفرادیت،الفاظ کا عمدہ
انتخاب،سادگی اور سلاست،خلوص اور صداقت شامل ہیں۔ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
کی موضوعاتی شاعری کا حقیقی استحسان کرنے کے لیے ذوق سلیم کا ہونا اشد
ضروری ہے ۔وہ تزکیہ نفس کی ایسی صو رتیں تلاش کر لیتے ہیں کہ فریب سود و
زیاں سے گلو خلاصی کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔انھو ں نے مواد اور ہیئت کے
جمالیاتی عناصر کو اس طرح شیر و شکر کر دیاہے کہ ان کی موضوعاتی شاعر ی
پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ان کی ادبی کامرانیوں کا
اعتراف بہت ضروری ہے ۔ تاریخ ہر دور میں اس نابغہ روزگار ادیب کے نام کی
تعظیم کر ے گی ۔
پچاس صفحات پر مشتمل ” برقی شعاعیں“ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی وہ معرکہ
آرا تصنیف ہے جس میں انھوں نے تاریخ ادب میں پہلی بار ماحولیات کے تحفظ کے
موضوع پر نظمیں لکھی ہیں۔یہ تما م نظمیں برقی کتاب کی شکل میں انٹرنیٹ پر
بھی دستیاب ہیں۔سر سید احمد خان نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے1857میں بر صغیر
پاک و ہند کے عوام کی فلاح اور ملت اسلامیہ کی تعلیمی ترقی کے لیے جو فقید
المثال خدمات انجام دیں انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں
بیاد سر سید:
ہے یہ سر سید کا فیضان نظر
جس نے شہر علم کے کھولے ہیں در
جس گھڑی کوئی نہ تھا پرسان حال
تھی بھلائی قوم کی پیش نظر
ان کا برقی ہے یہ احسان عظیم
ہیں علوم عصر سے ہم باخبر
جدید اردو ادب ہو یا قدیم کلاسیکی ادب ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے ۔وہ ہر
موضوع پر بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں ا۔پنے جذبات کااظہار کرتے وقت وہ
نہایت دل نشیں انداز میں تمام حقائق کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ مشتے
از خروارے کے مصداق چند موضوعاتی نظموں سے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ۔ان کے
مطالعہ سے تخلیق کار کے اسلوب کا استحسانی مطالعہ ممکن ہے۔
میر تقی میر
میر کی شاعری میں ہے سوز دروں
منعکس جس سے ہوتا ہے حال زبوں
ان کا رنگ تغزل ہے سب سے جدا
آج بھی جس سے ملتا ہے ذہنی سکوں
مرزا اسداللہ خان غالب
شہر دہلی میں ہے دیار غالب
یہیں واقع ہے مزار غالب
آج تک اردو ادب کے برقی
محسنوں میں ہے شمار غالب
شبنم رومانی
چلے گئے شبنم رومانی بجھ گئی شمع شعر و سخن
اہل نظر کو یاد رہے گا ان کا شعور فکر و فن
ابن صفی
ابن صفی سپہر ادب کے تھے ماہتاب
اردو ادب میں جن کا نہیں ہے کوئی جواب
شاد عظیم آبادی
قصر اردو کے تھے ستوں شاد عظیم آبادی
فکر و فن کے تھے فسوں شاد عظیم آبادی
عمر خالدی
چل بسے اس جہاں سے عمر خالدی
درس حسن عمل تھی جن کی زندگی
راغب مراد آبادی
راغب مراد آبادی جہاں میں نہیں رہے
جو تھے جہاں اردو میں اک فخر روزگار
اردو ادب کو ان پہ ہمیشہ رہے گا ناز
جن کے نوادرات ہیں اردو کا شاہکار
ابن انشا(شیر محمد)
ابن انشا کا نہیں کوئی جواب
ان کا حسن فکر و فن ہے لا جواب
ان کا طرز فکر و فن سب سے جدا
ان کا فن روشن ہے مثل آفتاب
ممتاز منگلوری
ڈاکٹر ممتاز منگلوری بھی رخصت ہو گئئے
کیوں نہ ہو دنیائے اردو ان کے غم میں سوگوار
ان کی تصنیفات ہیں اردو ادب کا شاہکار
ان کی ہیں خدمات ادبی باعث صد افتخار
صادقین
شاعر و خطاط و دانشور تھے سید صادقین
جن کا ہوتا تھا عظیم الشان لوگوں میں شمار
سرحدوں کی قید سے آزاد ہیں ان کے فنون
جن کے ہیں مداح اقصائے جہاں میں بے شمار
ڈاکٹر وزیر آغا
ستون اردو لرز رہا ہے نہیں رہے اب وزیر آغا
جسے بھی اردو سے کچھ شغف ہے وہ نام سے ان کے ہے شناسا
نقوش ہیں لازوال ان کے تمام اصناف فکر و فن میں
سبھی کو ہے اعتراف اس کا ادب کے محسن تھے وزیر آغا
مظفر وارثی
چھوڑ کر ہم کو ہو گئے ر خصت مظفر وارثی
جن کی عملی زندگی تھی مظہر حب نبی
نعت گوئی میں تھے وہ حسان ثانی بر ملا
ان کی غزلیں اور نظمیں تھیں سرود سرمدی
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں ان کی زندگی قرآن
حکیم ،اسلامی تعلیمات ،توحید ،رسالت اور سنت نبوی کے مطابق بسر ہو رہی ہے
۔ان کی موضوعاتی شاعری میں اس عشق کا بر ملا اظہار ملتا ہے ۔کسی قسم کی
عصبیت ان کے اسلوب میں نہیں پائی جاتی ۔ان کا پیغام محبت ہے اور وہ اخوت کی
جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے مبلغ ہیں ۔اردو کی فنی اور جمالیاتی اقدار
کے فروغ میں ان کا جو کردار رہا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے ۔ان کی
انفرادیت نے ان کو صاحب طرز ادیب کے منصب پر فائز کیا ہے۔ان کے ادبی وجود
کا اثبات اور استحکام ان کی جدت ،تنوع اور انفرادیت کا مرہون منت ہے ۔وہ
تقلید کی کورانہ روش سے دامن بچا کر نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کے
متمنی ہیں ان کا خیال ہے کہ افکار تازہ ہی سے جہان تازہ کا سراغ ملتا ہے
۔ایسے زیرک اور فعال تخلیق کار کاادبی کام قابل قدر ہے ۔انھوں نے اپنی
مستعدی اور تخلیقی فعالیت سے جمود کا خاتمہ کیا اور دلوں کو مرکز مہر و وفا
کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا
سکتی ہے کہ ادب کا کوئی دیانت دار نقاد ان کی اس تخلیقی فعالیت کو نظر
اندازنہیں کر سکتا۔انھوں نے قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی انسانیت کے
وقار اور سر بلندی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے ۔ان کی شاعری اور اسلوب جس
حسین اور دلکش انداز میں قاری کے شعور کو وسعت اور ذہن و ذکاوت کولطافت سے
فیض یاب کرتا ہے وہ ان کے بلند پایہ تخلیق کار ہونے کی دلیل ہے ۔ ان کی
موضوعاتی شاعری کی باز گشت تاابد سنائی دیتی رہے گی۔
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں ٓ |