سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے بیٹے حسین نوازکی
ایک ٹویٹ نظرسے گزری جس میں لکھاتھا’’میاں صاحب کی رہائی پر کچھ لوگ فرما
رہے تھے کے ملک کے سب قیدیوں کو بیرون ملک علاج اورعدالت لگا کر فوراًانصاف
ملنا چاہیے،کتنے شرم کی بات ہے کے ہر بندہ خود کو ہمارے خاندان کے ساتھ ملا
لیتا ہے،میرے والد اس ملک کے تین بار کے وزیراعظم اور خاندانی رئیس
ہیں‘‘کچھ لوگوں کاکہناہے کہ حسین نوازکے نام اورتصویرکے چلنے والاٹویٹر
اکاؤنٹ فیک ہے،اکاؤنٹ فیک ہوتب بھی حقیقت یہی ہے اوریہی بات ہم بھی قوم
کوسمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ عام عوام کی بنیادیں طبی یاانسانی نہیں
ہوتیں توپھرعوام طبی یابنیادی انسانی حقوق کس منہ سے مانگتے ہیں،پہلے اپنی
بنیادیں طبی تعمیرکروپھربنیادی حقوق کامطالبہ کرو،بڑے آئے بنیادی انسانی
حقوق کی بات کرنے والے،عوام کے حقوق نہیں ہوتے بلکہ حکمران طبقے کے پرآسائش
گھر،گاڑی،دفتر،اولاد کی صحت،تعلیم،سیرسپاٹوں،لندن میں فلیٹوں،نوکروں
چاکروں،کتوں،بلیوں کے اخراجات پورے کرناعوام کے فرائض ہوتے ہیں،حقوق توان
کے ہوتے ہیں جوایئرکنڈیشن گھروں،دفتروں اورگاڑیوں میں عیش کرتے ہیں،عوام
تورات دن جانوروں کی طرح کام کرتے ہیں لہٰذاجانوروں کے طبی حقوق یابنیادی
حقوق،انسانی حقوق سے بہت مختلف ہوتے ہیں،کچھ جانوربوجھ اٹھانے کیلئے پالے
جاتے ہیں،کچھ دودھ،کچھ گوشت اوردودھ دونوں کھانے پینے کیلئے پالے جاتے
ہیں،دودھ اورگوشت کی پیدواردینے والے جانوروں کے حقوق بوجھ اٹھانے والے
جانوروں سے بہترہوتے ہیں جبکہ عوام کاشماربوجھ اٹھانے والوں میں ہوسکتاہے
دودھ یاگوشت کی پیدواردینے والوں میں نہیں ہوسکتا،بوجھ اٹھانے والوں کے
بنیادی یاطبی حقوق اتنے ہی ہوتے ہیں کہ جب تک وہ بوجھ اٹھائیں انہیں کچھ
کھاناپیناملتارہے اورجب بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہیں انہیں لاوارث
چھوڑدیاجاتاہے یاماردیاجاتاہے،ایک طرف بنیادی انسانی حقوق حکمران اوررئیس
طبقے کے ہی ہوتے ہیں دوسری جانب خودکوانسان سمجھ کرزندگی میں بہترسہولیات
کی خواہش لئے رات دن محنت مزدوری کرنے والے عام عوام کی مجبوری کایہ عالم
ہے کہ جن کے بچے دودھ مانگتے ہیں وہ نہیں دے سکتے،جن کے بچے روٹی مانگتے
ہیں وہ نہیں دے سکتے ،جن کے بچے کھلونے مانگتے ہیں وہ نہیں دے سکتے،جن کے
بچے سکول جاناچاہتے ہیں وہ نہیں بھیج سکتے ،جن کے بچے صبح سات سے رات دس
بجے تک کام پرنہیں جاناچاہتے وہ بھیجتے ہیں،جن کے بچوں پرکارخانہ
دار،ورکشاپ مالک،دوکان دارتشددکرتاہے وہ روتے ہوئے جسم پرتشددکے نشانات
دیکھاکراپنے ہی والدین سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں پروہ نہیں دے پاتے،جن
کی پلیٹ میں کھانانہیں،جن کے پاس ضعیف والدین کے علاج کیلئے مہنگے
ڈاکٹرزاورمہنگی ترین ادویات خریدنے کیلئے پیسے نہیں،جنہیں سارادن مزدورمنڈی
میں بیٹھنے کے بعد بھی مزدوری نہیں ملتی،جورات کوخالی ہاتھ گھرلوٹ جاتے
ہیں،جنہیں پولیس تشددمیں ماردیاجاتاہے،جن کے قاتل عدالتیں بری کردیتی
ہیں،جنہیں مہنگائی مرنے بھی نہیں دیتی،روتے روتے جن کی آنکھوں کی نمی خشک
ہوچکی ہے،جن کے خواب مررہے ہیں،جن کا مستقبل ختم ہورہاہے،جن کاکوئی طبی
بنیادی یابنیادی انسانی حق نہیں،وہ 80فیصدسے زائدعام عوام اس قدر
مجبورہوچکے ہیں کہ سو گرام دوھ کیلئے روتے معصوم بچوں کے غریب والدین دودھ
کی جگہ لاکھ بتائیں کہ ان کا وزیراعظم صادق اورامین ہے،ملک میں سرمایہ کاری
آنے والی ہے،منی لانڈرنگ کیخلاف سخت کارراوئی ہورہی ہے،گزشتہ حکومتوں کے
پہلے سال کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے پہلے سال میں مہنگائی کم ہوئی
ہے،وزیراعظم پاکستان ملک میں وی آئی پی لوگوں کیلئے الگ اورعام لوگوں کیلئے
الگ نظام تعلیم،صحت،انصاف و روزگار کے مخالف ہیں،ہمارے وزیراعظم کسی کواین
آراونہیں دیں گے،کسی کونہیں چھوڑیں گے،ہمارے جج رائے کااظہارکرسکتے ہیں
پرصحافی تجزیہ یاتبصرہ نہیں کرسکتے،ہم کشمیرکیلئے آخری سپاہی،آخری
سانس،آخری گولی تک لڑیں گے،جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں،ہم کشمیرکامقدمہ پوری
دنیاکے سامنے پیش کررہے ہیں اورکرتے رہیں گے،دنیابھارت کوبڑی منڈی کی نظرسے
دیکھتی ہے،بھارت کشمیرمیں دہشتگردی کررہاہے،80لاکھ کشمیری بھارتی ریاستی
دہشتگردی کاشکارہیں،ہماری فوج دنیاکی بہترین افواج میں سرفہرست ہے،ہم ایٹمی
طاقت ہیں،ہماری بہادرافواج ہرقسم کی جارحیت کامقابلہ کرنے کیلئے ہروقت
تیارہے،ہمارے ملک کی اپوزیشن کے مطابق الیکشن 2018ء دھاندلی زدہ تھے،حکومت
جعلی،ناجائز،نااہل اورنالائق ہے،اپوزیشن کی ساری جماعتیں احتجاج
پرہیں،تاجراحتجاج پرہیں،ڈاکٹرزاور دیگرعملہ احتجاج پر،اساتذہ احتجاج
پرہیں،حکومت نے کرتارپورراہدری منصوبہ مکمل کرکے سکھوں کوان کے مقدس مقامات
کی حاضری بغیرویزہ آسان بنادی ہے،ماضی میں کرپشن کرنے والے حکمران آصف
زرداری،میاں نوازشریف،شاہدخاقان عباسی،خورشیدشاہ اوردیگرکرپشن کے الزامات
میں جیلوں میں قیدہیں،ان کی اولادیں مفرورہیں،ان کی جائیدادیں تحویل میں لی
جارہی ہیں پرکرپشن آج بھی مکمل آزاد ہے،حکومت ڈینگی کنٹرول کرنے میں ناکام
ہے،مصنوعی مہنگائی روکناحکومت کے بس میں نہیں،ادویات 80 فیصدعوام کی پہنچ
سے دورہوچکی ہیں،ددھ،گھی،آئل،آٹا،صابن،انڈے،چاول،دالیں،چینی،چائے کی پتی
سمیت ہرچیزملاوٹ زدہ ہے،حکومت ٹویٹر،تقاریراورخطابات کے ذریعے مسائل حل
کرنے کی سنجیدہ کوششیں کررہی ہے،یادنہیں وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں کتنی شاندارتقریر کی تھی،سعودیہ، ایران کشیدگی کم کروانے کیلئے
بہترین ثالثی کرداراداکررہے ہیں،افغان امن کیلئے افغان طالبان اورامریکہ کے
درمیان امن مذاکرات کی رہ ہموارکرنے کی کوشش کررہے ہیں،ہمارے چین کے ساتھ
تعلقات بہت مضبوط ہیں،امریکہ کے ساتھ تعلقات بہترہورہے ہیں،برطانوی شاہی
جوڑاپاکستان کی مہمان نوازی سے بہت متاثرہوا،ملک میں لنگرخانے کھل رہے
ہیں،بے گھرافرادکیلئے مہمان خانے کھل رہے ہیں،مولاناقوم کوزبردستی مسلط
ہونے والے حکمرانوں سے آزادی دلانے کیلئے آزادی مارچ لے کرچل پڑیں
ہیں،بچوایک دوصدیاں بغیردودھ،روٹی اورادویات کے گزاراکرلوپھردودھ بھی مل
سکتاہے اورروٹی بھی ،ہوسکتاہے ادویات بھی میسرآجائیں اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ
عام عوام کوطبی یابنیادی انسانی حقوق بھی حاصل ہوجائیں،اتنی طویل لسٹ بچوں
کے سامنے پیش کرنے کے بعد بھی بچوں کی بھوک نہیں مٹتی اوربچے پھربھی رو رو
کروالدین سے دودھ مانگتے ہیں،بچوں کوبھوک متاثرکررہی ہے جس کے باعث بچے
اپوزیشن یاحکومت کے کسی بیانیے سے متاثرنہیں ہوسکتے،بچوں کوبھوک مٹانے
اورزندہ رہنے کیلئے دودھ،روٹی کی ضرورت ہے وہ نہیں جانتے اورجاننا بھی نہیں
چاہتے کہ ملک میں کب سرمایہ کاری بڑھے گی یاکب وزیراعظم استعفٰی دیں
گے،آئندہ جن والدین کے بچے دودھ،روٹی،صحت یاتعلیم مانگیں تووالدین انہیں
اچھی طرح سمجھادیں کہ شرم کروتم مزدورکے گھرپیداہوئے ہو جوملک خدادادمیں
عام عوام ہیں،شرم کروتم خاندانی رئیس نہیں جوتمہیں دودھ،روٹی دستیاب ہو،شرم
کروتم خاندانی رئیس ہوجوانصاف کی توقع رکھتے ہو، شرم کروتم آج بھی نظریہ
پاکستان والااسلامی جمہوریہ پاکستان مانگتے ہو
|