امام احمد رضا ؒخان فاضل بریلوی کی یادیں!

جب ہم اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں توہمیں اسلام کے پردہ سکرین پر اسلام کے ایسے سپوتوں کی نمایاں تصویریں دکھائی دیتی ہیں،جنہوں نے ــ’’العلماورثتہ الانبیاء ‘‘ کا حق ادا کر دیا۔ امام جعفر صادق ؒ،امام ابو حنیفہؒ،امام مالکؒ،امام شافعیؒاور امام احمد بن حمبلؒکے علاوہ علامہ رازی ؒ،اما م غزالی ؒ جیسی متعدد ہستیاں نظر آتی ہیں جنہوں نے علم و فن کی آبیاری کے ساتھ فکری و عمل، اصلاح و تجدید کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ایسی ہی ستودہ صفات شخصیتوں میں ایک سنہرا نام شیخ الاسلام ،مفکرو مدبر،علم ریاضی وسائنس ،علوم عقلیہ و نقلیہ،شہنشاہ شعروسخن،مجدد دین وملت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ؒخان فاضل بریلوی کا ہے،جنہوں نے ہندوستان کی تاریخ کے ایسے خطر ناک دور میں آنکھیں کھولیں جب ہندوستان انگریز سامراجی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا ،انیسویں صدی کے نصف میں جب علما ء کرام شہید کئے جا رہے تھے ،ہندوستانی مسلمان ایک کشمکش کے عالم میں زندگی گزار رہا تھا ایسے وقت میں ر ب العالمین نے ہندوستان میں ایک ایسے عالم دین مفکر اعظم کو پیدا فرمایا جنہوں نے علوم و فنون کی کھیتی کو سبزہ زار بنا دیا،ہندوستانیوں کو انگریز سامراج کی غلامی سے آزاد کرانے کا شعور ہی نہیں بلکہ جدوجہد کا دوام بخشا،عوام میں ہمت وجر ات کی روح پھونکی اور اسلام کی صحیح تصویر پیش فرما کر اسلامی قوانین کی بالا دستی کا بر ملا اعلان فرمایا۔یہ ذات پاکیزہ تھی امام اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کہ جن کی پیدائش ۱۲۷۲ھ۱۸۵۶ ء میں بریلی کے ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم و فضل ،تقوٰی و طہارت اور قوت و بہادری میں مشہور زمانہ تھا۔آپ کے جد اعلیٰ محمد سعید اﷲ خان قندھار افغانستان سے لاہور تشریف لائے اور لاہور سے دہلی منتقل ہوئے۔سلطنت مغلیہ میں فوج کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر کار ہائے نمایاں انجام دئیے ،آپ کے جد حقیقی حضرت مولانا رضا علی علیہ الرحمہ نے اس خا ندان کا رخ تلوار سے قلم کی طرف موڑا،اور خاندان میں سب سے پہلے علم و دین کی شمع روشن فرمائی،بریلی میں ایک عرصہ تک منصب افتا پر فائز رہ کر ۱۶۸۲ھ میں اس دار فانی سے کوچ فرمائی ، آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت علامہ نقی علی علیہ الرحمہ نے یہ منصب جلیلہ سنبھالا، آپ کئی کتابوں کے مصنف اور جلیل القدر عالم دین تھے آپ کا انتقال ۱۶۹۲ھ میں ہوا۔اس طرح اعلیٰ حضرت امام ا حمد رضا خان ؒفاضل بریلوی کا گھرانہ دینی ،علمی اور روحانی فضل و کمال سے مالا مال تھا،علم و فضل ،علم وفنون اور قوت و بہادری حضرت امام احمد رضاؒ کو ورثے میں عنایت ہوئی تھی،آپ کی زیادہ تر تعلیم و تربیت آپ کے والد محتر م حضرت علامہ نقی علی علیہ الرحمہ کے پاس ہوئی،قوت حافظہ غضب کا تھا ،ذہانت مقام ثریا کو چھو رہی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۴ برس سے بھی کم عمر میں مروجہ علم و فنون میں ۱۴ شعبان المعظم ۱۶۸۲میں سند فراغت سے نواز دئیے گئے ا س دن مسئلہ رضاعت میں پہلا فتویٰ لکھا جسے دیکھ کر آپ کے والد ماجد بہت خوش ہوئے اور اسی دن مسند افتا کی ذمہ داری آپ کو سونپ دی۔آپ کی شخصیت ہمہ جہت تھی،جن کے مثالی کارناموں نے اپنوں اور غیروں دونوں کو یکساں طور پرمتاثر کیاہے،دیو بندی حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نا نو توی ؒدہلی تشریف فرما تھے اور ان کے ساتھ مولانا حسن امروہویی اور امیر شاہ خان صاحب بھی تھے۔شب کو جب سونے کا وقت ہوا تو ان دونوں نے اپنی اپنی چارپائی مولانا نانوتوی صاحب سے ذرا الگ بچھائی اور باتیں کرنے لگے۔امیر خان صاحب نے مولانا امروہوی سے کہا کے صبح کی نمازایک برج والی مسجد میں چل کر پڑھیں گے،سنا ہے کہ وہاں کے امام صاحب قرآن بہت اچھا پڑھتے ہیں،مولوی صاحب نے کہا ارے جاہل پٹھان ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو مولانا نانوتوی کی تکفیر کرتا ہے ،اس بات کو مولانا نانوتوی نے سن لیااور زور سے فرمایا:’’احمد حسن!میں تو سمجھتا تھا تو پڑھ لکھ گیا ہے مگر جاہل ہی رہاپھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے۔ارے!قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا۔میں تو اس سے اس کی دین داری کا معتقد ہو گیا ۔اس نے میری کوئی ایسی بات سنی ہوگی جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب ہو یا روایت غلط پہنچی ہو،یہ راوی پر الزام ہے۔تو اس کا سبب دین ہی ہے۔اب میں ان کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔‘‘(الافاضہ الیومیہ من افادات القیومیہ چہارم ،ص،394 )حکیم الامت اشرف علی تھانوی کا نظریہ،خلیفہ تھانوی مفتی محمد حسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت تھانوی صاحب نے فرمایا:’’اگر مجھے مولوی احمد رضا صاحب بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو میں پڑھ لیتا‘‘(اسوہ اکابر ،ص7 )حضرت فاضل بریلوی کی علمی قابلیت کا اندازہ اس واقع سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دیو بندی عالم مولاناانور شاہ کشمیر ی لکھتے ہیں:جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروحات لکھ رہا تھاتو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے شیعہ ،اہل حدیث اور دیو بندی حضرات کی کتابیں دیکھیں۔مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہو گیا کہ اب بخوبی احادیث کی شرح بلا جھجھک لکھ سکتا ہوں واقعی مولانا احمد رضا ایک عالم دین اور فقیہ ہیں‘‘(رسالہ ہادی دیو بند،ص:7 )مولانا شبلی نعمانی صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی جو اپنے عقائد میں سخت ہی نہیں متشدد ہیں۔مگر اس کے باوجود مولانا صاحب کا علمی شجر اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے تمام عالم دین مولوی احمد رضا کے سامنے پر کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔اس احقر نے بھی آپ کی متعدد کتابیں پڑھی ہیں۔(رسالہ ندوہ۔اکتوبر 1994 ،ص:17 )مولانا ابوالحسن ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر جوا ن فاضل بریلوی کو عبور حاصل تھا،اس زمانہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی،(نزھتہ الخواتر ہشتم)مولوی معین الدین ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خان مرحوم صاحب کی علم و نظر سیع اور گہری تھی۔مولانا نے جس وقت نظر اور تحقیق کے ساتھ علمائے استفسار کے جواب تحریر فرمائے ہیں اس سے انکی جامعیت ،علمی بصیرت،قرآنی استحضار ،ذہانت اور طباعی کا پوراپورا اندازہ ہوتا ہے۔ان کے عالما نا محققانہ فتاویٰ مخالف وموافق ہر طبقہ کے لائق ہیں (سفیدوسیاہ ۔ص114 )بانی تبلیغی جماعت مولانامحمد الیاس صاحب کے متعلق محمد عارف رضوی لکھتے ہیں کہ کراچی میں ایک عالم دین نے جن کا تعلق دیوبند سے تھا فرمایا کہ مولانا الیاس صاحب فرماتے تھے : اگر کسی کو محبت رسولﷺ سیکھنی ہو تو مولانا احمد رضا بریولوی سے سیکھے (فاضل بریولوی اور ترک موالات۔ ص 100 ) سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب لکھتے ہیں ’’مولانا احمد رضا خان صاحب کے علم و فضل کامیرے دل میں بڑا احترام ہے۔فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی نظر رکھتے ہیں اور ان کی فضیلت کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں ۔نزاعی مباحث کی وجہ سے جو تلخیاں پیدا ہوئیں وہی دراصل ان کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر پردہ ڈالنے کا موجب ہوئیں(سفیدوسیاہ ص112 )متذکرہ بالا عبارتوں سے یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کی شخصیت اکابرین علمائے دیو بند و اہل حدیث کے نزدیک معتبر و علم ہے اور آپ کی علمی سطوت اور آپ کے دینی،تصنیفی اور اصلاحی خدمات کے ساتھ چاہے وہ مخالفین میں سے ہوں یا موافقین میں سے ہر کوئی آپ کی عظیم المرتبت شخصیت سے متاثر تھے۔امام احمد رضاخان فاضل بریلوی ؒ کے تین روزہ عرس رضوی 22, 23 اور 25 اکتوبر کو منایا گیا۔ تمام تقریبات کے ساتھ ساتھ امسال 101 واں عرس رضوی ہونے کے سبب 101شجر لگائے گئے ہیں اور دربار کی جانب سے یہ ذمہ داری بھی لی گئی ہے کہ ان پودوں کی ایک برس تک پرورش اور نگرانی بھی کی جائے گی اس کے علاوہ ایک مرتبہ استعمال ہونے والی پلاسٹک کو استعمال نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے، سب سے اہم کے دربار اعلیٰ حضرت سے اس دلیل کے ساتھ یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ صفائی ایمان کا نصف حصہ ہے تو صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ میرے اس مضمون میں تمام مکاتب فکر کو دعوت ہے کہ مذکورہ بالا عبارات کے حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں اتحاد بھائی چارہ کو فروغ دے کر اپنے اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلیں اور مسلکی بھائی چارے کا ثبوت دیں اور فاضل بریلویؒ کے معتقدین سے گزارش ہے کہ آپ بھی ۱۰۱ ویں عرس کی مناسبت سے شجرکاری میں حصہ ڈالیں۔
 

Idrees Jaami
About the Author: Idrees Jaami Read More Articles by Idrees Jaami: 26 Articles with 22167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.