ڈاکٹر محمد ہارون عثمانی
سوال: ہمارے پیشہ میں زیادہ تر افراد کا رخ تدریس کی طرف ہےلیکن آپ تدریس
سے لائبریرین شپ کی طرف آ گئے اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: میرے نزدیک لائبریرین شپ کم تر درجہ کی کبھی نہیں رہی۔ جب میں نے
لائبریری سائنس میں داخلہ لیا تو اس وقت میرے ذہن میں انگریزی اور ماس
کمیونیکیشن جیسے مضامین بھی تھے لیکن لائبریری سائنس میں نے اپنے شوق سے
لیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بہت چھوٹی عمر سے کتاب میرے ساتھ تھی۔
لائبریری میرے لئے ہمیشہ معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ رہی۔
لائبریری سائنس میں داخلہ لیا تو پنجاب یونی ورسٹی میں میرا داخلہ نہیں ہو
سکا کیونکہ میرٹ بہت زیادہ ہوتی تھی۔ صورت حال یہ تھی کہ ۲۵ نمبر بی ایس سی
کو دئیے جاتے تھے۔ میری بی اے میں فرسٹ ڈویژن تھی لیکن مجھے بھاولپور یونی
ورسٹی میں داخلہ ملا۔ یہاں میرا داخلہ ماس کمیونیکیشن اور انگریزی میں ہو
گیا تھا لیکن میں نے یہ بہتر سمجھا کہ بھاولپور چلا جائوں اور وہاں سے ایم
اے لائبریری سائنس کر لوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اردو ادب بھی میرا پسندیدہ
مضمون تھا تو میں نے اردو ادب میں ۱۹۹۳ء میں ایم اے کر لیا۔
شروع میں مجھے بڑے کتب خانوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے قائداعظم
لائبریری میں ۱۲، ۱۳ سال گزارے۔ اس کے بعد بیکن ہائوس نیشنل یونی ورسٹی
لائبریری میں رہا کویت میں انٹرنیشنل اسکول اینڈ کالج آف پاکستان لائبریری
میں خدمات انجام دیں۔ جی سی او لائبریری فہصل آباد میں چیف لائبریرین
رہا۔لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے پی ایچ ڈی اردو ادب میں کیوں کیا۔ اس
کی وجہ یہ تھی کہ میں جس وقت آگے پڑھنا چاہ رہا تھا اس وقت لائبریری سائنس
میں آگے پڑھنے کے مواقع نہیں تھے۔ ایم اے اردو کے بعد ایم فل کا سلسلہ
شروع کر چکا تھا اب میرے لئے مشکل تھا کہ میں دوبارہ ایم فل لائبریری سائنس
کی ترف آئوں۔ میں نے یہ ہی بہتر سمجھا کہ پی ایچ ڈی اردو میں کر لوں۔ پھر
اردو کی تدریس کی طرف آگیا۔ میں ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر
پڑھا رہا تھا۔یہاں آنے کو آپ ٹارزن کی واپسی نہیں کہہ سکتے لائبریرین
میرے اندر موجود تھا اور میں آج فخر سے کہنا چاہتا ہوں کہ میری پی ایچ ڈی
ہوئی یا میں نے پڑھایا بھی تو میں نے یہ لائبریرین شپ کیا مجھے کبھی بھی اس
میں احساس کمتری محسوس نہیں ہوئی بلکہ فخر محسوس کرتا ہوں۔ آج بھی میں یہ
ہی سمجھتا ہوں کہ اگر آپ چاہیں تو یہ پروفیشن اور کتاب کا علم آپ کو بہت
آگے لے کر جا سکتا ہے اگر آپ لائبریرین ہو کر بھی اپنے علم میں، اپنے
کردار میں اور اپنی ذات میں بہتری پیدا نہیں کر سکتے تو پھر آپ کہیں بھی
نہیں کر سکتے۔یہ میری اس بارے میں ٹھوس رائے ہے۔
سوال: عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ٹیچرز لائبرین کو ایک الگ
انداز سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کیا وہ اپنے پروفیشن سے مطمئن نہیں؟
جواب: لوگ اگر لائبریرین کو کم تر سمجھتے ہیں تو اس میں ہماری بھی تھوڑی سی
کوتاہی اور قصور ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ ہماری لائبریری میں
ایک اٹینڈنٹ تھے جو اب ریٹائر ہوگئے اور ایک سینٹری ورکر ہے میں ان کی عزت
کرتا ہوں اور یہ عزت میں ان کے کام کی وجہ سے کرتا ہوں۔ یہ لوگ اس سطح پر
کام کرتے ہوئے عزت کما سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کما سکتے۔ہم اپنا کام محنت
اور ایمانداری سے کریں تو ہماری بھی عزت ہوگی۔بہاوالدین ذکریا یونی ورسٹی
کے ڈاکٹر انوار احمد جو صدر شعبہ اردو رہے، ڈین رہے وہ کہیں بھی لائبریرین
کی بات کرتے ہیں تو میرا اور نعیم صاحب کا نام ضرور لیتے ہیں۔جب میری تقرری
ہوئی تو میں نے ان کی پوسٹ پڑھی کہ معاشرے میں جو دیگر زوال نظر آرہے ہیں
ان میں کتب خانوں اور کتب خانہ داروں کا زوال بھی نظر آرہا ہے اس میں یہ
خوش آئند بات ہے کہ ڈاکٹر محمد ہارون عثمانی پنجاب یونی ورسٹی کے چیف
لائبریرین بن گئے ہیں۔ یہ میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ میرا چیف لائبریرین
بننا پی ایچ ڈی اور اردو کی وجہ سے نہیں بلکہ لائبریرین کی وجہ سےہے ۔ اردو
ڈپارٹمنٹ میں میرے جو ساتھی تھے وہ علمی یا کتابی معلومات حاصل کرنا چاہتے
تھے تو مجھ سے رابطہ کرتے تھے۔ لائبریرین شپ میرے لئے ہمیشہ پاور کا سبب
رہی ہے اگر آپ مخلصانہ طور پر کام کریں گے تو لوگ آپ کی عزت کریں گے۔ یہ
ان لوگوں کا مسئلہ ہوتا ہے جو احساس کمتری میں چلے جاتے ہیں یہ کیسے ممکن
ہے کہ کام کئے بغیر عزت ملے ،عزت کام سے ہوتی ہے چاہے سینٹری ورکر ہو یا
لائبریرین۔
سوال: لائبریری خدمات کے حوالے سے پہلے اور اب کوئی تبدیلی محسوس کرتے ہیں؟
جواب: نہیں، ڈھائی تین سال کے عرصے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔جس وقت
میں ۲۰۰۸ء میں یہاں آیا تھا تو ہم تین لوگ یہاں تھے۔ سابقہ لائبریرین
چودھری حنیف صاحب کو میں نے بڑی لگن سے کام کرتے دیکھا وہ اس لائبریری کو
بہت آگے لے کر جانا چاہتے تھے جہاں تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا انھوں نے
اس کی بنیاد بنا دی پھر حسیب صاحب آئے یہ اور میں ان کے ساتھ کام کر چکے
تھے ہم ان ہی بنیادی چیزوں کو لے کر آگے بڑھے تاکہ لائبریری ترقی کرے۔ اب
یہاں مختلف کورسز بھی ہو رہے ہیں۔ ہم نے ایچ ای سی فنڈ لئے ہمارا یہ خواب
تھا کہ لائبریری کی عمارت میں توسیع کریں گے یہ خواب پورا ہو گیا اب تعلیمی
لائبریریوں میں یہ سب سے بڑی لائبریری ہے۔
سوال: ماءشااللہ آپ خوش قسمت ہیں کہ ایک بڑے تعلیمی ادارے کی بڑی لائبریری
کے چیف لائبریرین مقرر ہوئے آپ اس کی مزید ترقی میں کیا کردار ادا کریں
گے؟
جواب: اصل میں پنجاب یونی ورسٹی لائبریری کو ایک روایتی لائبریری اور
لائبریرین شپ کا درجہ بھی حاصل ہے اس کے علاوہ یہ یونی ورسٹی جدید ٹکنالوجی
اور لائبریرین شپ کے جدید ذرائع کو بھی اپنا رہی ہے۔ ہمارے پاس جو ذرائع
موجود ہیں ان کو ہم آگے بڑھا رہے ہیں یہاں کتب کا اورینٹل ذخیرہ موجود ہے
جو مخطوطات اور قدیم رسائل پر مشتمل ہے ان کی حفاظت کے مزید اقدامات کر رہے
ہیں ان کوآن لائن کرکے قارئین تک پہچائیں گے۔ یہ بڑا پروجیکٹ ہم شروع کر
رہے ہیں۔دوسرا انفارمیشن لٹریسی سرکولیشن کے حوالے سے کام ہورہاہے ہم اس کا
دائرہ وسیع کریں گے۔ اب ہم انتظار نہیں کریں گے کہ قاری ہمارے پاس آئے
بلکہ ہم خود قاری کے پاس جانے کی کوشش کریں گے اور انھیں بتائیں گے کہ ہم
آپ کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔یہاں اس کام کی تربیت دے رہے ہیں۔ ایم فل اور
پی ایچ ڈی اسکالرز کو بھی تربیت دے رہے ہیں ہم یونی ورسٹی کو قومی حوالے سے
بھی اجاگر کریں گے۔ قومی دن، شخصیات، لائبریری سائنس اور سوشل سائنسز کے
حوالے سے ورکشاپ اور سیمنار منعقد کریں گے۔ آئی ایل آئی کو لے کر آگے
چلنا ہے۔
سوال: آپ نے کہا کہ ہم قاری کے پاس پہنچیں گے یونی ورسٹی میں مختلف
ڈیپارٹمنٹ ہیں ان تک کیسے پہنچیں گے ؟
جواب: بیرونی خدمات کے لئے ایک ڈیٹا بیس تیار کر رہے ہیں کہ ان کا ڈیٹا
ہمارے پاس موجود ہو۔ چند سطحوں پر ہم یہ کام کر چکے ہیں ہمارے پاس ایک اچھی
ٹیم ہے ہم چاہتے ہیں کہ مزید زسٹاف فراہم کیا جائے تاکہ ہم لائبریری کے
اندر سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ باہر بھی سہولیات فراہم کر سکیں۔
سوال: اس میں شک نہیں کہ یہ ایک بڑی لائبریری ہے یہاں قاری کو جو سہولیات
فراہم کی جاتی ہیں اس بنیاد پر ہم اس کو ایک ماڈل لائبریری کہہ سکتے ہیں؟
جواب: ہاں! کہہ سکتے ہیں۔لائبریری کے ممبرز بہت زیادہ ہیں یہاں کی خدمات سے
وہ مطمئن ہیں ہم ان کی ڈیمانڈ کو پورا کر رہے ہیں۔اصل میں تعلیمی لائبریری
کا فرض ہے کہ اپنے طالبعلموں، اساتذہ اور محققین کو ہر سہولت فراہم کرے۔
میں سمجھتا ہوں کہ کوئی اور لائبریری اپنے قارئین کو اتنی سہولیات فراہم
نہیں کر رہی جتنی کہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم باہر کے محققین کو بھی مطمئن کر رہے
ہیں۔ یہ لائبریری روایت اور جدت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ قاری آن لائن مواد
دیکھنے اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ لائبریری میں آکر بھی اس مواد سے فائدہ
اٹھانا چاہتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ مخطوطات اور قدیم رسائل کے لئے یہاں آتے
ہیں۔ ہمارے پاس بیس اکیس سال سے ۴۰ سے زائد ذاتی ذخیرہ کتب موجود ہیں۔ یہ
ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ اس میں بڑی نایاب کتب موجود ہیں۔
سوال: ان تمام اہم ذخیرہ کتب کے استعمال کا طریقہ کار کیا ہے؟
جواب: ہماری ویب سائٹ، پبلک کیٹلاگ اور یونین کیٹلاگ ہیں ان میں ان کے
اندراجات موجود ہیں۔ شعبہ جاتی لائبریریزمیں بھی کیٹلاگ موجود ہیں۔ ہم اپنی
کارکردگی کو ویب سائٹ اور شعبہ جات سے شیئر کرتے ہیں اصل میں ہمارا اہم
مقصد یونی ورسٹی کے قارئین تک تمام مطلوبہ مواد پہنچانا ہے اور نئے آنے
والے طالبعلموں کے لئے دو سے ڈھائی ماہ تک لائبریری کو متعارف کرانے کے لئے
ٹریننگ پروگرام جاری رہتے ہیں۔ بعد میں آئی ایل آئی کی ٹریننگ کرواتے
ہیں۔ یہ ٹریننگ ادارے سے باہر کے قارئین کے لئے بھی ضروری ہے اگر یہ
طالبعلم ان پروگراموں میں شرکت کریں گے تو ان کو اپنا مواد حاصل کرنے میں
کوئی دشواری نہیں آئے گی۔
سوال: ہم لائبریرین کی حیثیت قاری کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لئے کیا
کر سکتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ لائبریری میں قاری کےلئے کیا کیا سہولیات
موجود ہیں۔ جب میں چھٹی جماعت میں آیا تو اس وقت میں محلہ کی ایک آنہ
لائبریریوں میں جاتا تھا اس طرح کتاب پڑھنے کا شوق بڑھتا گیا۔ اگر آپ تمام
لائبریرینز کی بات کرتے ہیں تو اپنی لائبریری میں قارئین کے لئے سہولیات
بڑھانے کے لئے فائٹ کرتے رہنا ہوگا۔ کالج اور اسکول کی سطح پر زیادہ تر
لائبریرین کام نہیں کرتے وہ شاکی رہتے ہیں کہ ہمیں سپورٹ نہیں ملتی۔ اس سطح
پر کولیفائڈ لائبریرین بہت کم ہیں کسی کلرک کو لائبریری میں بٹھادیا جاتا
ہے۔لائبریرین کو چائیےکہ جو سہولیات موجود ہیں ان کو بروئے کا ر لائیں اور
ادارہ کے سربراہ سے مزید سہولیات اور مدد مانگیں تاکہ قارئین کو مطمئن کر
سکیں۔اسکول کی سطح پر چند بڑے اسکولوں میں لائبریریاں موجود ہیں۔ زیادہ تر
طبقہ لوئر کلاس کا ہے وہ گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں وہاں لائبریری
کاوجود ہی نہیں ہے۔ لائبریری ایسو سی ایشنز اسکول کی سطح پر بہتری لائیں۔
حکومت سے مدد مانگیں ۔ جب لائبریرین اسکول اور کالج کی سطح پر بہتری لانے
کے لئے محنت کرے گا تو کوئی شبہ نہیں کہ جب طالبعلم یونی ورسٹی کی سطح پر
پہنچے گا تو اس کو لائبریری استعمال کرنے کا سلیقہ آچکا ہوگا
سوال: یہ تو آپ کا رول ہے آپ خواب دکھا رہے ہیں ڈیجیٹل لائبریری کے، یہاں
جو پروڈکشن ہے کیا وہ مارکیٹ میں جا کر اپنا رول ادا کرنے کے قابل ہوتے
ہیں؟
جواب: جب ہم پڑھتے تھے تو میں نے اپنے استاد رموز صاحب(میرے پسندیدہ استاد
ہیں ان کے مقابلے کا میں نے کوئی ٹیچر نہیں دیکھا) سے ایک سوال کیا کہ آپ
ہمیں جو ریفرینس سروسز پڑھا رہے ہیں وہ مجھے افسانوی چیزیں لگتی ہیں انھوں
نے کہا کہ یہ سب چیزیں آپ نے پڑھی ہوئی ہوں گی تو یہ آپ کے کہیں نہ کہیں
کام ائیں گی ۔ یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی۔ یہاں ایک لائبریرین تھے وہ ان
خوابوں کو تعبیر دینے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ جو ڈیجیٹل لائبریری پڑحائی جا
رہی ہے یہ ضروری ہے۔ جب اس طالبعلم کا کسی لائبریری میں تقرر ہوگا اور وہ
ضرور اپنا کردار ادا کرے گا تو لائبریرین شپ میں ترقی کرے گا۔
۱۹۹۲ء میں کمپیوٹر بہت ہی کم اداروں میں موجود تھے لہذا بہت کم افراد
کمپیوٹر کا استعمال جانتے تھے۔ اب اس وقت جو پڑھ کر جا رہا ہے اس کو جدید
ٹکنالوجی کی نالج ہونی چائیے تاکہ وہ آگے بڑھ سکے۔راتوں رات تبدیلی نہیں
آتی۔آہستہ آہستہ تبدیلیاں ضرور آئینگی۔ آج کا لائبریرین کل کے
لائبریرین سے بہتر ہے۔ ذہنی طور پر اسمارٹ ہے۔ پہلے کے لائبریرین میں
کلریکل عنصر بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ تبدیلی کے حوالے سے میں مطمئن ہوں۔
سوال: اب تک آپ کی کتنی کتابیں آچکی ہیں؟
جواب: میری اب تک چار کتابیں آچکی ہیں اس کے علاوہ ۱۰۰ مضامین اور کتابوں
پر تبصرے شائع ہوچکے ہیں۔ ایچ ای سی کے تسلیم شدہ رسائل میں ۱۰ مضامین شائع
ہوئے۔ میری چاروں کتابوں میں سے ۵ مضامین کو ایچ ای سی نے وائی کیٹگری میں
شامل کیا ہے۔خاک راہ کو بھی مکمل کروں گا اس میں مزید یادوں کو شامل کرنا
ہے۔
سوال: انڈیا سے کچھ شائع ہوا؟
جواب: انڈیا سے سب سے پہلے میری نظم شائع ہوئی۔ شروع شروع میں شاعری کا
بخار تھا لیکن اب اتر گیا۔ اب میں تحقیق اور تنقید کی طرف آگیا۔ اصل میں
تو مجھے لکھنے سے زیادہ پڑھنے میں مزا آتا ہے۔
سوال: آپ کیا اور کس کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
جواب: فکشن اور افسانہ پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ میں نے شفیق الرحمن اور مشتاق
احمد یوسفی کو پڑھا لیکن کنہیا لال کپور مجھے بہت پسند ہیں۔میں نے ان پر
کام بھی کیا ہے۔ ان کی تحریروں کو اکٹھا کیا ہے ان کی تحریروں میں توانائی
ہے۔ میری دو کتابیں کنہیا لال کپور پر ہیں ایک "کپور نامہ" جو خاصی ضخیم ہے
۱۲۰۰ سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کتابوں کو انڈیا اور پاکستان میں
بڑی پذیرائی ملی۔ یہ یونیک کام تھا۔
سوال: اردو میں اس وقت معیاری ادب تخلیق ہوا ہے؟
جواب: ادب کے معیار کا تعین اس کا عصر نہیں کرتا عصر سے مراد زمانہ ہے۔ اس
کا تعین بہت بعد میں جا کر ہوتا ہے۔ جیسے غالب کو زندگی میں اتنی پذیرائی
نہیں ملی جتنی بعد میں ملی۔شاعری نے اپنا رخ بدل لیا غزل سے نظم کی طرف
آئی اور اب معین الدین راشد، میرا جی، مجید امجد، ثروت حسین، ذیشان ساحل،
سعیدالدین ان لوگوں نے نظم اور نثری نظم میں بڑی سے بڑی بات بہت آسانی سے
کہہ دی۔ موجودہ دور نظم کا ہے نظم پاکستان میں بہت اچھی ہوتی جا رہی ہے
لیکن افسانہ بھی اتنا ہی لکھا گیا۔ انتصار حسین جن کی بین الاقوامی طور پر
مقبولیت ہے۔اسد احمد خاں بہت اچھا افسانہ لکھتے ہیں۔طاہرہ اقبال جو میری
کلاس فیلو ہیں افسانہ لکھنے میں ماہر ہیں۔ صدیق عالم(کلکتہ) بہت اچھا لکھتے
ہیں مجھے تو ان کے افسانوں نے حیران کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کا
افسانہ کمال کا افسانہ ہے۔ مختصر کہانیوں کی طرح لکھا جا رہا ہے۔
ناول نگاری کی طرف لوگ کم ہیں۔ ۲۱ویں صدی جو بڑے ناول نگار ہیں ان میں دو
تین نام ہی سامنے آئے۔ مرزا اطہر بیگ ، شمس الرحمن وغیرہ۔ ادب میں لکھا جا
رہا ہے۔معیاری ہے ۔ اب ہمارے ادب میں کمرشل عنصر میڈیا کی وجہ سے شامل ہو
گیا ہے۔آپ یہ دیکھیں کہ جو مشہور فکشن ہے اس پر جو ڈرامہ سیریل بنتی ہیں
وہ زیادہ کمال کی ہوتی ہیں بجائے اس کے جو اسکرپٹ لکھ کر ڈرامہ لکھتے ہیں۔
جب پی ٹی وی کا دور تھا اس وقت بھی ڈرامہ لکھا جاتا تھا ڈرامہ کی صنف میں
وہ طاقتور ہوتا تھا۔ اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ اسکرپٹ لکھتی تھیں ۔ امجد
اسلام امجد نے اچھے اسکرپٹ لکھے ۔ عطاءالحق قاسمی، اصغر ندیم سید، نورالہدی
شاہ انھوں نے بہت طاقتور اسکرپٹ لکھے۔
سوال: آپ صدائے لائبریرین کے قارئین اور لکھاریوں کےلئے کیا پیغام دینا
پسند کریں گے؟
جواب: میرا پیغام تو یہی ہے کہ جیسے کراچی سے ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے ادب اور
لائبریرین شپ میں ایک خاص رابطہ پیدا کیا ہوا ہے آپ بھی لاہور میں بیٹھ کر
یہ کام کر رہے ہیں ادب اور لائبریرین کا رابطہ قائم کیا ہوا ہے یہ ایک اچھا
کام ہے۔ لائبریرین شپ کا نوجوان طبقہ اس پلیٹ فارم سے اپنی صلاحیتوں کو
اجاگر کر سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اردو زبان میں لکھنا اور اظہار کرنا بہت
آسان ہے۔ اس میں اپنے تخیل اپنے زور بیاں سے بہت اچھا اظہار ہو سکتا ہے۔
میرے خیال میں جو صدائے لائبریرین کا قاری یا لکھاری ہے اس کو اپنی خوش
قسمتی پر ناز کرنا چائیے کہ اس کو ایک ایسا پلیٹ فارم مل گیا ہے جہاں وہ
اظہار خیال کر سکتا ہے۔ ہمارے سینئرز کو چائیے کہ وہ اپنے جونیئرز کو لکھنے
پر آمادہ کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
سوال: صدائے لائبریرین کو مزید بہتر کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں؟
جواب: میں ادبی اور لائبریری سائنس کے بہت سے رسائل سے منسلک رہا۔ یہ ایک
مجاہدہ ہے۔ اس میں صرف آپ کا ذاتی اطمینان ہے۔ صدائے لائبریرین شروع میں
تو خالص ایک فرد واحد کا رسالہ تھا پھر کچھ لوگ اس میں شامل ہوئے۔ ہمیں
چاہئے کہ صدائے لائبریرین کو موثر بنانے کے لئے اس میں کسی بھی طرح اپنا
حصہ ڈالیں لکھنے کی حد تک یا اس کی اشاعت کی حد تک۔ اس میں پیسے تو نہیں
لیکن اس میں خون جگر لگتا ہے۔
چچ
|