عصر حاضرمیں مغربی عالمی صہیونی تہذیب کا اس قدر
غلبہ ہے اور یہ غلبہ میڈیا، ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ کے ذریعے عوام کے
اعصاب پرسوار ہوچکا ہے کہ اکثر مغرب کے لوگ اس مہیب ،،مالیاتی جن،، ملٹی
نیشنلز اور یاجوج ماجوج کے گٹھ جوڑ سے ابلیس سے پناہ کی طرح اﷲ سے پناہ
مانگ رہے ہیں۔ لوگ اس مصیبت سے نجات کے لیے بے بس نہیں تو ’باز سے ممولے‘
کا مقابلہ ضرور سمجھتے ہیں۔ سات عشرے پہلے علامہ اقبال کے کلام کی تاثیر سے
مسلمان غلام قوم میں وہ آتشیں جذبہ پیدا ہو ا کہ واقعتا غلام ابن غلام، ابن
غلام، قوم اس وقت کی سپر پاور سے ٹکراگئی ۔ایک بڑی قوت برطانیہ سلطنت ہند
سے رخصت ہوکر آج امریکی OLD HOME میں زندگی کے دن پورے کررہا ہے امریکی
سرپرستی اور یاجوج ماجوج کے تعاون کے بغیر یہ ملک سعودی عرب سے بھی کمزور
ثابت ہوگا۔واقعتا 80سال قبل ’باز اورممولے‘ کی جنگ یا کشاکش دنیا نے دیکھی
تھی مگر اب علامہ اقبال جیسا نابغہ عصر کہاں سے لائیں قائداعظم جیسا لائق
وکیل کہاں سے لائیں، جو اُمت مسلمہ کا مقدمہ لڑسکے۔ ایسا ’مردِقلندر‘ کہاں
سے لائیں جو پاکستان کی مسلمان عوام میں قیامِ خلافت کی جدوجہد کے لیے آگ
بھر دے۔ معجزے نہ سہی کرامات تو بعید نہیں، اﷲ تعالیٰ کی قدرت سے تو کچھ
بعید نہیں DIVINE INTERVENTIONکے بھی کچھ PRE-REQUISITES ہوتے ہیں کہ قوم
خود والہانہ کسی مقصد جلیلہ کے لیے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر مطالبہ کر رہی ہو
تو رحمتِ الٰہی کو ’ترس‘ آہی جاتاہے۔ اوررحمت الٰہی کا جوش میں آنا قوم کا
بیڑا پار کر سکتا ہے۔یہ بات درپردہ حقیقت ہے کہ اقوام مغرب، ملٹی نیشنلز
اور مقتدر یاجوج ماجوج اس کو کیموفلاج کر کے دوستی کے نام پر اُمت مسلمہ کے
خلاف گذشتہ تین صدیوں سے ایک غیر علانیہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی یہ
جنگ COLD WAR کہلاتی ہے، کبھی دوستی اور سرپرستی میں بدل جاتی ہے۔
کبھی HOTWAR کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ مگر ہے یہ ایک ہی جنگ جو جاری ہے
مغربی ذہنوں نے اسے پانچویں اور آخری صلیبی جنگ کا نام دیا ہوا ہے 9/11 کے
خود ساختہ واقعہ پر مطمئن جذبات سے عاری امریکی صدر بُش کی زبان سے صلیبی
جنگ کے الفاظ ادا ہوگئے تھے جس سے خبث باطن باہر آگیا تھا۔ مگر اس نے ان
الفاظ کو واپس لے لیا تھا۔ مغربی پالیسیاں آج بھی اس طرح ہیں صرف ہماری سوچ
اورفہم کا فرق ہے۔ موجودہ امریکی صدر سعودی عرب کے بارے میں ’’دوہفتے بھی
ان کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی‘‘ کہہ کر بیان واپس بھی لے لے تب بھی حقیقت
اپنی جگہ ہے۔ وہ بیان دنیا نے سن بھی لیااور واپس بھی لے لیا۔ نہیں سنا تو
کچھ مسلمانوں نے نہیں سنا۔ یہ صلیبی جنگ اب ایک دفعہ ( اور شاید آخری
مرتبہ) مشرقِ وسطیٰ میں سراُٹھانے والی ہے اور سارے مشرقِ وسطیٰ اور عرب
دنیا کے علاوہ ایران، ترکی اور افغانستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے والی
ہے۔ واﷲ اعلم ۔مغربی لٹریچرمیں بائبل میں آنے والا ایک لفظ استعمال ہوتا
ہے۔ جس کے معنی تاریخ انسانی کی سب سے بڑی جنگ ہے جو خیر و شر کی قوتوں کے
درمیان لڑی جائے گی۔ یہ لفظN ARMEGADO ہے، جسے عرب ’ ہرمجدون‘ کہتے ہیں۔
کتب احادیث میں اسے’ الملحمۃ الکبریٰ‘اور’ الملحمۃ العظمیٰ‘کہا گیا ہے۔ یہ
مشرقِ وسطیٰ میں لڑی جائے گی یہ جنگ بھی عجیب ہوگی۔ اسرائیل ایٹمی قوت ہے
اور تباہ کن ہتھیاروں کا ذخیرہ کیے ہوئے ہے۔ جبکہ اس کے گرد نقشے پر موجود
عرب ممالک کی حالت کیا ہے۔ وہ ناقابل بیا ن ہے۔ شام، لبنان، عراق (صدام
حسین کے دور میں ایٹمی قوت بننے جارہا تھامگر اس کی طاقت کوتہس نہس
کردیاگیا ہے۔) اردن،امارات،کویت، اومان،یمن،سعودی عرب ،لیبیا، مصر وغیرہ کے
پاس نام کی فوج ہے۔ جنگ کی صورت میں نتیجہ سب کو نظر آرہا ہے۔ ایک فرمانِ
نبویﷺ میں یوں الفاظ آئے ہیں۔’’قربِ قیامت میں (ایسے حالات پیدا ہوں گے کہ)
سارے عرب ہلاک کردیے جائیں گے‘‘ ترمذی،،۔یہ جنگ اب کسی ایک فریق کی جذباتی
غلطی سے شروع ہوکر پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اس کی تبارہ کاری
کی داستان حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ ۔ہمارے ہاں کچھ لوگ نزول عیسیٰ d،
اور اہل سنت کے مہدیm، بارے روایات کو سرے سے کتاب الفتن میں وارد احادیث
مبارکہ کی حتمیت سے ہی انکا رکر کے آنے والے دنوں کے واقعات کے مقابلے میں
اپنا سر ریت میں دبالیتے ہیں اور انکے بارے میں احادیث کو سرے سے پڑھتے ہی
نہیں۔ وجہ کیا ہے؟ واﷲ اعلم۔۔۔
آخری جنگ۔ (2) ،، الملحمۃ الکبریٰ‘اور’ الملحمۃ العظمیٰ‘ کے بارے اس جنگ کے
آغاز اور عین میدانِ کارزار کی گرما گرمی میں سے عوام کے لیے میڈیا کی
پھیلائی گئی DISINFORMATION کی گرد میں حقائق کو جاننا مشکل ہوتا ہے۔ وقت
سے پہلے چند اشاروں اور منطقی لوازم سے بڑھ کر کچھ عرض نہیں کیاجاسکتا۔
سنجیدہ قارئین (SERIOUS READERSHIP) کے لیے ’الملحمۃ الکبری‘ کے یقینی
وقوعہ ( اس لیے کہ اس کی خبر محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ نے دی ہے اور صحابہ
کرامj کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ اس کی حتمیت پر قسم کھائی جاسکتی ہے اس میں
ایک خوش خبری ضرور پوشیدہ ہے۔ اور یہ خوش خبری ’ الملحمۃ الکبری‘ کی طرح
تاریخ انسانی کی سب سے بڑی خوش خبری اور آج کے اہل ایمان کے لیے باعث
طمانیت ہوگی اور اس سب سے بڑی خوش خبری (MEGA GOOD NEWS) کے اجزاء غالباً
یہ ہوں گے (جو احادیث نبویہﷺ میں وارد تفصیلات سے ماخوذ ہیں1۔اتنی تباہی
ہوگی کہ اس وقت کی دنیا کے سارے کنٹرول مراکز ختم ہوجائیں گے 2۔مقتدر یہودی
قوتیں، GOG, MAGOG سب ختم ہوجائیں گے 3۔تمام ملٹی نیشنلز اور ان کے مالکان
سب کے سب ختم ہوجائیں گے ان کے کاروبار اور شیطانی کارستانیاں بھی ختم
ہوجائیں گی4۔ یہ جنگ چونکہ خیر اور شر کے درمیان تاریخ کی سب سے بڑی جنگ
ہوگی جس میں ایک طویل معرکہ آرائی کے بعد شر، شکست کھاکر ختم ہوجائے گا اور
ایک دفعہ شر کے تمام مراکز اور قوتیں مفقود ہوجائیں گی لہٰذا اس کے بعد خیر
کا غلبہ ہوگا۔5۔ شر کی قوت کے سرپرست امریکہ G15, G7, G5, اور نیٹو ممالک
سب کے سب شکست سے دوچار ہوں گے۔ 6۔یہود (کل کے کل) ختم ہوجائیں گے۔ ان کے
سارے اتحادی (ALLIES) مذہبی فرقے ، مذہبی شخصیات، NGO'S، میڈیاہاؤ سز،
اینکر پرسنز اور سیکولر ازم اور لبرل ازم کے داعی، امریکہ اور مغرب کے
چھوٹے بڑے تمام نمک خوار ( چاہے وہ نمک حلال کرنے والے ہوں یا نمک حرام )
ختم ہوجائیں گے7۔ سدوم (SODOM) اور عامورہ (GOMMORAH) کرطرح ہالی وڈ، بالی
وڈ اور اس طرح کے بے شمار مراکز تباہی سے دوچار ہوں گے اور اس سے متعلقہ
مردو خواتین (سٹارز) فنکار، گلوکار، گوئیے، فلمی آرٹسٹ، فلم انڈسڑی، بے
حیائی اور عریانی کے سارے چینلز ان کے کارندے اور ان کے سپانسرز یہود کے
خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گے8۔ سارے مغربی ایجنٹ سیاستدان، حکمران،
پریس مالکان، تاجر، ابلیسی صہیونی تنظیمیں اور ان کے نمایاں اہل کار ختم
ہوجائیں گے9۔ سارے اسلام دشمن شاعر، ادیب، آرٹسٹ، خطیب، ڈرامہ فنکار، ڈرامہ
آرٹسٹ، ڈائریکٹر، پروڈیوسرز، پیش کنندگان، آرٹ کونسلرز، سینما ہاؤسز ختم
ہوجائیں گے10۔ سارے نائٹ کلب، نائٹ کلب کے ایکٹر،ورکرز، سپلائیرز،انتظامی
عملہ اور اہلکاروں سے دنیا پاک ہوجائے گی11۔ سارے جواء خانے، CASINOS،
برائی کے اڈے،بینک ،سود پر مبنی مالیاتی ادارے اور ان کے کارپر دازان تباہی
سے دوچار ہوں گے۔ تباہی کے مندرجہ بالہ آثار کی زد میں آنے والوں سے صرف وہ
حضرات بچیں گے جو اس آخری مرحلہ آنے سے پہلے اس شعبے یا شے سے الگ ہوجائیں
گے ورنہ بچاؤ کی صورت نہیں ہے۔حالیہ مغربی تہذیب وترقی میں شر کا پہلو شامل
ہے۔ جس کی وجہ سے اس میں خیر کم اور شر غالب ہے۔ اس کے تمام منصوبہ جات اور
ایجنڈا واضح طور پر اسلام دشمن،خدادشمن،وحی دشمن، انسان دشمن، علم دشمن اور
ماحول دشمن ہے۔ یہ ابلیسی اور شیطانی ایجنڈا ہے جس کا خاتمہ اور مغلوبیت
نوشتۂ دیوار ہے۔اس مغربی تہذیب کے علوم،درس گاہیں، اساتذہ، اہل علم، اہل
فکر سب کے سب اسی ابلیسی ایجنڈے کے PROMOTER اور داعی ہیں۔ اس مغربی تہذیب،
علوم، فنون، صنعت، فلم، تفریح، سیر وسفر وغیرہ ہرچیز کا تعلق ابلیس سے ہے
اور یوں اس ساری مغربی مہم جوئی کا مطمع نظر شیطانی ہے۔ اور یوں کہا جا
سکتا ہے کہ یہ سارے ناری علوم ہیں۔ ان کا تعلق بنی اسرائیل کے دور سے سامری
اور ہاروت ماروت کی طاقتوں سے ہے اور درپردہ جنات سے بھی یقینی ہے۔ لہٰذا
حالیہ تہذیب کے زوال پر یہ ’ناری تہذیب‘ جس کی تپش اور گرمی سے دنیا ’جہنم‘
کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ انگریزی زبان کا لفظ HOT جن معانی میں بولا جاتا
ہے۔ وہ اس تہذیب کے شاخسانے ہیں اور ختم ہونے جارہے ہیں۔ خداشناسی (DIVINE
WISDOM) کے علوم کے باعث جب خدا شناسی کا حقیقی دور شروع ہوگا تو حضرت
عیسیٰd کی آمد سے دنیا میں کچھ مقابلوں کے بعد امن وسکون ہوگا اور دنیا
ابلیسی (ناری) تہذیب وتمدن ولائف سٹائل سے ’نوری‘ اور آسمانی تہذیب وتمدن و
معیارات کی طرف لوٹ آئے گی اور یوں انسانیت کو حقیقی باطنی سکون میسر آئے
گا جو انسانی مزاج چاہتا ہے اور جس سے اس کی فطرت آشنا ہے۔ذیل میں ہم ایک
حدیث مبارکہ نقل کر رہے ہیں۔ جس میں اس دور مبارک کا ذکر ہے جب موجودہ
ابلیسی (ناری) تہذیب کے خاتمے کے بعد‘ نوری‘ دور کا آغاز ہوگا جس میں انسان
فضاؤں میں دور تک رسائی رکھتاہوگا۔ ،،کیا ہی خوشگوار زندگی ہوگی حضرت عیسیٰ
dکے بعد۔ آسمان کو برسنے کا حکم ہوگا (توکھل کے برسے گا) اور زمین کو
اُگانے کا حکم ہوگا (توخوب اُگائے گی) حتیٰ کہ (اے مخاطب) اگر تو صاف پتھر
پر بیج بوئے گا تو وہ بھی اُگ جائے گا۔ اور یہاں تک (امن ہوگا) کہ آدمی شیر
(درندے جانور) کے پاس سے گزرے گا تو وہ اسے کوئی نقصان نہیں دے گا اور سانپ
کو پاؤں سے روندے گا تو وہ کوئی نقصان نہیں دے گا کوئی کسی سے جھگڑا نہیں
کرے گا اور نہ کوئی کسی پر حسد کرے گا اور نہ کوئی کسی سے بغض رکھے گا۔ ‘‘
( جاامع الصغیر، بحوالہ فوائد العراقیین، عن ابی ہریرۃ ص( |