اقوام متحدہ نے 18دسمبر2013کو قرار داد نمبر68/163
منظور کرتے ہوئے ہربرس نومبر کی 02تاریخ کو صحافی و میڈیا کارکنان کے خلاف
تشدد و حملوں کے خاتمے کی آگاہی کا دن منانے کاا علان کیا۔ ممبر ممالک سے
بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے خلاف ہونے والے
تشدد کو روکنے کے لئے، احتساب کو یقینی بنانے، صحافیوں اور میڈیا کارکنوں
کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے پوری کوشش
کریں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ متاثرین کو مناسب علاج تک رسائی حاصل
ہو۔یہ دن مالی میں دو فرانسیسی صحافیوں کے بہیمانہ قتل کی یاد میں منایا
جاتا ہے۔ کیدال کے نواحی علاقے توریغ باغیوں کے علیحدگی پسند گروپ MNLA اور
مالی نیشنل آرمی نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو آگاہ کیا تھا کہ فرانس کے
سرکاری ریڈیو سے تعلق رکھنے والے دو صحافی گیسلین ڈوپونٹ اور کلاڈ ورلوندو
کو اغوا کر کے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ کیدال شہر میں دونوں کو اُس وقت اغوا
کیا گیا جب وہ توریغ باغیوں کے علیحدگی پسند گروپ کے مقامی لیڈر سے انٹرویو
کر کے باہر نکلے تھے۔ ان کو کیدال شہر سے بارہ کلومیٹر کی دوری پر لے جا کر
مارا گیا تھا۔ توریغ باغیوں کے گروپ کو دونوں صحافیوں کی گولیوں سے چھلنی
لاشیں شہر کے مضافات سے ملی تھی۔
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ جہاں سچ پر مبنی خبر دینے پر صحافیوں کو اپنے
فرایض کی ادائیگی سے روکے جانے کے مثالیں دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں۔ ایک
رپورٹ کے مطابق صرف بارہ سالوں میں ایک ہزار سے زیادہ صحافی خبر کی رپورٹنگ
اور لوگوں تک معلومات پہنچانے کی وجہ سے قتل جا چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دس
میں سے نو میں قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی ہے۔ استثنیٰ مزید ہلاکتوں کا
باعث بنتا ہے اور یہ بڑھتے ہوئے تنازعات اور قانون اور عدالتی نظام کے خراب
ہونے کی علامت ہے۔ یونیسکو کو اس امر پر تشویش ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین
پامالیوں، بدعنوانی اور جرائم کا احاطہ کرکے استثنیٰ پورے معاشروں کو نقصان
پہنچا ہے۔المیہ یہ ہے کہ عامل صحافیو ں اور میڈیا کارکنان کو انتہا پسند
تنظیموں کے ساتھ ساتھ ریاستوں کی جانب سے بھی سخت پابندیوں کا نشانہ بننا
پڑتا ہے۔ ایسے کئی ممالک ہیں جہاں عسکریت پسندوں کی منشا کے مطابق خبر نہ
لگانے پر میڈیا کارکنان کو جبر و تشدد کا سامنا ہوتا ہے تو دوسری جانب
عسکریت پسندوں کی خبریں جاری کرنے پر ریاست کے مختلف اداروں کی جانب سے
دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تشویش ناک صورتحال یہ بھی ہے کہ کئی
ممالک میں ریاست عسکریت پسندوں کے خلاف خبریں جاری کرواتی ہیں تو عسکریت
پسندوں کی جانب سے میڈیا کارکنان کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں
قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ صحافیوں و میڈیاکارکنان کی زندگیوں کو اُس
وقت سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوجاتے ہیں جب د ہشت گردوں کی جانب سے انتہا
پسندی کے اوپر تلے واقعات ہوتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں میڈیا
کارکنان کی بڑی تعداد میں مارے جانے کی بڑی وجوہ میں ایک وجہ یہ بھی رہی ہے
کہ میڈیا کارکن جب واقعے کی کوریج کررہے ہوتے ہیں تو اس دوران تھوڑے وقفے
کے بعد دوسرا حملہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں میڈیا کارکنان کو اسی
سنگین صورتحال کا سامنا ہے۔
صحافی و میڈیا کارکنان کے لئے جہاں عسکریت پسندی خطرات کا سبب بنتے ہیں تو
انہیں ایسی ریاستوں کی جانب سے بھی تشدد و دباؤ کا سامنا ہوتا ہے جہاں
مختلف ریاستیں آزاد صحافت میں پیشہ وارانہ ذمے داری کی راہ میں آگاہی کو
اپنے خلاف پروپیگنڈا سمجھتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015 سے 2018 تک 251
مقید صحافیوں میں سے نصف سے زائد ترکی، مصر اور چین کی جیلوں میں قید ہیں۔
ان ممالک کی حکومتیں زیادہ تر صحافیوں پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث
ہونے کے الزامات عائد کرتی ہیں۔ آلانا بائیزر بھی اس رپورٹ کی تیاری میں
شامل رہی ہیں۔ ان کے بقول، ”ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک رجحان سا بن گیا ہے، جو
اب معمول کی بات بنتی جا رہی ہے۔“یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جمہوری
نظا م کے تابع مملکتیں ہی نہیں بلکہ آمرانہ طرز نظام بالخصوص با دشاہی طرز
حکومت میں آزادنہ صحافت کسی بھی صحافی یا میڈیا ہاؤس کے لئے جوئے شیر لانے
کے مترادف ہے۔ گزشتہ برس سعودی صحافی جمال خوشگی کے قتل نے عرب ممالک میں
آزاد صحافت و صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے سخت تشویش کی لہر دوڑا دی تھی
اور عالمی قوتیں بھی اس حوالے سے ایک دوسرے کے سامنے ہوئیں۔ صحافی ا و
رمیڈیا کارکنان کو ریاست یا ایسے عناصر کی جانب سے بھی تشدد و دباؤ کا
سامنا ہوتا ہے جہاں کسی تنظیم یا جماعت کا فروعی ایجنڈا ناقابل برداشت
ہوجاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اس کے واضح مثال کی صورت میں اس وقت موجود ہے،
جہاں مقامی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں
کو سامنے نہیں لانے دیا جارہا۔پاکستان میں بھی کئی میڈیا ہاوسز کو شکایات
ہیں کہ انہیں آزادنہ پالیسی کے تحت پروگرام نہیں کرنے دیئے جاتے۔ گزشتہ
دنوں پیمرا کی جانب سے ایک ”ہدایت نامہ“ میڈیا ہاؤسز کو جاری ہوا جس پر
اینکرز پرسن،سینئر صحافیوں اور صحافی تنظیموں نے سخت احتجاج و تنقید کی گئی۔
سوشل میڈیا میں کئی میڈیا کارکنان حکومت کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا
نشانہ بناتے ہیں تو ایسے اکاؤنٹس سے ا ن کے خلاف غیر مہذب و متشددانہ رویہ
اختیار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ یہ
رویہ صرف حکومت پر الزام تک محدود نہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے
کارکنان اپنی جماعت کے مخالفین کے خلاف بھی متشدد و غیر مہذب رویہ اختیار
کرتے ہیں۔
منفی رپورٹنگ کا رجحان بیشتر ممالک میں با اتم پایا جاتا ہے۔ تاہم ذرائع
ابلاغ میں منفی رپورٹنگ پر عالمی طاقتوں کے سربراہان مملکت بھی میڈیا
کارکنان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اور علی اعلان میڈیا کو سخت
جملوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کی جانب
سے ذرائع ابلاغ پر تواتر سے منفی رپورٹنگ کے الزامات عائد کرنے کو بھی
تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ وہ اکثر اپنے حوالے سے منفی میڈیا کوریج کو ’
فیک نیوز‘ کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ ترکی اور فلپائن جیسے ممالک کے حکمران
بھی ٹرمپ کے بعد اپنے بارے میں ہونے والی تنقیدی رپورٹوں کو جعلی کہہ کر
مسترد کر دیتے ہیں۔روئٹرز نے میانمار میں قید کیے جانے والے اپنے دو
رپورٹرز کا بھی ذکر کیا ہے، جنہیں ملکی خفیہ راز کے قوانین کی خلاف ورزی کے
جرم میں سات سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ دونوں صحافی روہنگیا برادری
سے تعلق رکھنے والے دس مسلم مردوں اور نوجوانوں کے قتل عام کے واقعے کی
تحقیق کر رہے تھے۔’سی پی جے‘ کے مطابق آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں کے
معاملے پر ترکی پہلے نمبر پر ہے، جہاں کم از کم 68 صحافی ریاست مخالف
سرگرمیوں کے الزام میں جیلوں میں ہیں جبکہ مصر میں پچیس صحافی قید میں
ہیں۔رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز 1995 سے دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف تشدد، قتل
اور سفاکانہ سلوک کے بارے میں اعداد و شمار سامنے لا رہا ہے۔ یہ گروپ اپنی
رپورٹ میں دنیا کے 180 ملکوں میں صحافیوں کے کام کے لیے حالات و عوامل کی
تحت درجہ بندی کرتا ہے۔اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں دنیا بھر
80 صحافی ہلاک ہوئے، 348 جیلوں میں بند ہیں جب کہ 60 کے لگ بھگ یرغمال
بنائے گئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کی جبری گمشدیوں میں
نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور 2018 میں رپورٹرز کو جس تشدد اور
سفاکانہ رویوں کا سامنا رہا، اس سے پہلے اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
پاکستان کا شمار بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی فہرست 2018 کے مطابق پاکستان کو 142 ویں نمبر پر
رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں 2018 کو 3 صحافی قتل ہوئے۔اس کے علاوہ پاکستان
میں صحافیوں کو حکومتی اداروں اور مختلف گروہوں کی جانب سے بھی جبر اور
دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے لیے اپنی پیشہ وارانہ فرائض کی
ادائیگی آسان نہیں ہے۔2002میں نجی نیوز چینلز نے پاکستانی صحافت کو یکسر
بدل کر رکھ دیا۔ 100سے زاید نجی میڈیا ہاؤسز اس وقت خبر رسانی کے ذرایع کی
صورت میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ عموماََ الیکڑونک میڈیا سے تعلق
رکھنے والے میڈیا کارکنان کو تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے تاہم اشاعتی صنعت
سے وابستہ کارکنان کو بھی زیادہ مشکلا ت کا سامنا رہتا ہے کیونکہ میڈیا
ہاؤسز کی جانب سے ان کی جان کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات نہیں ہوتے، بلکہ
اخبارات کے میڈیا کارکنان کی ایسی بڑی تعداد بھی ہے جنہیں تنخواہ تک نہیں
ملتی اور وہ صرف ایک پریس کارڈ کے عوض اشتہارات کے ذریعے یا پھر کسی شخصیت
یا تنظیم کے لئے خبریں لگانے کے لئے عارضی معاوضوں پر کام کرتے ہیں۔ جس کی
وجہ سے انہیں سخت مشکلات و تشدد کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ
خطرات کا شکار جرائم سے متعلقہ میڈیا کارکنان ہیں جنہیں جرائم پیشہ افراد
سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پولیس کی جانب سے بھی مشکلات و
دباؤ کا سامنا رہتا ہے، جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے تشدد کے ان گنت واقعات
رونما ہوچکے ہیں جنہیں صحافتی تنظیموں میں اس لئے بھی ٹھیک طریقے سے رپورٹ
نہیں ہوپاتے کیونکہ وہ صحافتی تنظیموں کے رکن نہیں ہوتے اور انہیں صحافتی
تنظیمیں باقاعدہ فعال میڈیا کارکن تصور نہیں کرتی۔
صحافی یا میڈیا کارکنان کسی قانون نافذ کرنے والے اداروں حساس ایجنسیوں،
عسکریت پسندوں، سرداروں، جاگیرداروں کے علاوہ چند ایسی سیاسی جماعتوں و
تنظیموں پر الزامات عاید کرتے ہیں کہ انہیں پیشہ وارانہ سرگرمی سے روکنے کے
لئے حبس بے جا، اغوا، مار پیٹ اور دھمکیوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔عسکریت
پسند کالعدم جماعتوں کی جانب سے صحافی ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کو بھی
خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ متنازع و انتہائی پُرتشدد علاقوں میں صحافی یا
میڈیا کارکن کا رہنا ہی سب سے زیادہ خطرناک عمل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں
صحافی خود پر سنسر لگاتے ہیں تو ایسی خبروں پر ہی اکتفا کرتے ہیں جو انہیں
پریس ریلیز کی صورت میں ملتی ہیں، ذاتی مشاہدے کا رجحان کاتقریباََ ختم
ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے خبروں کی ساکھ و بامقصد آگہی کی عدم فراہمی کے
سبب خبروں کے معیار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے ذرائع ابلاغ کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کی خطرناک
حد تک بڑھتی سطح پر قابو اور اس سے وابستہ افراد و اداروں پر حملے کرنے
والوں کو کھلی چھوٹ کے خاتمے کے اہم اقدامات کی تجویز دی ہیں۔ جس میں کہا
گیا ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف صرف فوجی مقدمات درج ہی نہیں بلکہ تحقیقات و
مقدمے کی پیروی و فوری فیصلوں کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ صحافی اور میڈیا
کارکنان کے خلاف تشدد کے واقعات کے خاتمے کے لئے مقامی، قومی، بین الاقوامی
اشاعتی، برقی و آن لائن میڈیا کے ذرائع ابلاغ کے اداروں و کارکنوں پر حملوں
پر ان کے اداروں کے کردار کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ جن
میں تنازعات کے معالات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو حفاظی آلات کی
فراہمی، جن میں بلٹ پروف جیکٹس اور میڈیکل کٹس کو لازم فراہم کیا جانا بھی
شامل ہے۔پاکستان پریس فاؤنڈیشن ابلاغی اداروں کو بھی پابند بنانے کا مطالبہ
کرتی ہے کہ صحافیوں کو زندگی بیمہ اور طبی انشورنس اور اموات یا زخمی ہونے
پر زر تلافی ممکن بنائے جائے۔ یہاں اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے
کہ تشدد کا شکار صحافی یا میڈیا کارکنان کے ساتھ کسی واقعے یا سانحہ رونما
ہونے کے بعد فنڈ کے قیام کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔دیہی اور ایسے علاقے جہاں
صحافیوں کو مناسب ٹریننگ میسر نہیں آئی ہو ان پر زیادہ توجہ دینی چاہیے
کیونکہ پیشہ وارنہ رپورٹنگ کرتے وقت انہیں تجربے و تعلیم کی کمی کا سامنا
رہتا ہے جس کی وجہ سے انہیں کسی اہم خبر کے لئے جاں جانے کا خطرہ موجود
رہتا ہے۔ ابلاغی اداروں کو رپورٹنگ کے لئے اس بات کو بھی دھیان میں رکھنے
کی ضرورت ہے کہ وہ متنازع و پرتشدد علاقوں یا جنگ زدہ جگہوں پر میڈیا
کارکنان کو فہم و زمینی حقائق کا ادارک کرائیں اور خود بھی کریں۔ کیونکہ
صحافیوں کو حساس معاملات میں دھمکیاں ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔جہاں انہیں
اپنے ادارے کی جانب سے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔بسا اوقات بے حسی، غلط فہمی
میں مبتلا مدیران اپنے رپورٹرز یا فوٹو جرنلسٹ کو ایسی صورت حال میں دھکیل
دیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دھمکیوں و تشدد کا خاتمہ ہوتا ہے۔
فرانس سے تعلق رکھنے والے صحافی گیسلین ڈوپونٹ اور کلاڈ ورلوندو کو اغوا کے
بعد قتل کا واقعہ ہونا دراصل ان ہی کوتاہیوں و بے احتیاطی کے سبب رونما
ہوا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے دو نومبر کا دن اسی مناسبت سے منانے کا مقصد
صحافی، میڈیا کارکنان، میڈیا مالکان اور ریاست کو آگاہی فراہم کرنا ہے تاکہ
صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں کمی و خاتمہ کو یقینی بنایا جاسکے۔جنگ
زدہ علاقوں میں جانے والے صحافیوں کو بھی ازخود اپنی حفاظت کے لئے تمام
اطمینان بخش اقدامات کئے جانے ضروری ہیں تاکہ وہ مستقبل میں کسی پریشانی کا
شکار نہ ہوسکیں، نجی نیوز چینل کے سنیئر صحافی فیض اللہ خان ایک مثال کی
صورت میں ہمارے سامنے ہیں جنہوں نے مناسب تحفظاتی اقدامات کے بغیر رپورٹنگ
کی کوشش کی اور افغانستان میں قید کردیئے گئے۔ گوکہ پاکستانی جرنلسٹ
کیمونٹی و حکومت کی ان تھک کوششوں کی بدولت ان کی رہائی ممکن ہوگئی لیکن ہر
ایک فیض اللہ خان کی طرح قسمت کا دھنی نہیں ہوتا۔ سرحد پار رپورٹنگ کرنے
والے ایسے کئی صحافی ہیں جو قلمی ناموں سے معروف ہیں اور اپنی اصل شناخت
چھپا کر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہیں اپنی حفاظت کے لئے کسی ادارے کاتعاون بھی
دستیاب نہیں ہوتا، اس لئے قلمی نام رکھنے والے صحافیوں کو اپنی حفاظت کے
لئے موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کے سائے میں
خطرات کا سامنا کرنے والے ممالک کے معروف صحافیوں کو اپنی زندگی کی حفاظت
کے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے ہمارے سامنے
مناسب احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے والے ولی خان بابر،سلیم
شہزاد،حیات،منیر سانگی کی طرح کئی معروف صحافیوں کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ
دھونا پڑے۔
صحافت، ریاست کا چوتھا ستون ہے اور کسی بھی ستون میں کجی واقع ہونے سے پوری
ریاست کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا ہے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ
افغانستان، بھارت، ایران سمیت کئی ایسے ممالک ہیں جہاں صحافیوں کو بہت
محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ایشیائی ممالک ہی نہیں۔ یورپ سمیت ترقی یافتہ
ممالک میں بھی صحافیوں کو تشدد و دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ خاص کر اس وقت
16سے زائد ممالک میں حکومت کے خلاف احتجاجی مظائرے اور پرتشدد واقعات اپنے
عروج پر ہیں، ان حالات میں صحافیوں کو اپنی جان پر کھیل کر براہ راست
رپورٹنگ کی خدمات بھی سر انجام دے رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ خطرات کا
سامنا فوٹو جرنلسٹ کو ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی واقعے کی منظر کشی کے لئے
اُسے جائے وقوع کے قریب جانا ناگزیر ہوتا ہے۔ فوٹو جرنلسٹ کو بطور خاص
احتجاجی مظاہروں و پر تشدد واقعات کی فلم بندی یا تصویر کشی کے لئے ہر ممکن
احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پیشہ وارانہ فرایض اپنی جگہ، لیکن اس کے
ساتھ اپنی قیمتی جان کو محفوظ بنانا بھی اس کے لئے اتنا ہی ضروری ہے۔
فلسطین میں اسرائیلی فوجی ہوں یا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی، افغانستان میں
داعش یا عسکریت پسند تنظیمیں یا بھارت میں انتہا پسند ہندو گروپ ہوں۔ میڈیا
کارکنان کی حفاظت کی اُس کے ابلاغی ادارے و ریاست پر اولین فرض ہے۔گزشتہ 18
برس میں پاکستان میں صحافتی اداروں پر کم سے کم 32 بار حملے کیے گئے۔گزشتہ
18 سال کے دوران 37 صحافیوں پر مقدمات درج کیے گئے، انہیں کسی جرم کے تحت
سزائیں سنائی گئیں یا پھر ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے جب کہ 26 صحافیوں
کو حراست میں لینے سمیت 18 صحافیوں کو گرفتار بھی کیا گیا اور بعد ازاں
پولیس کی جانب سے کچھ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔2002 سے 2019
تک72 صحافی قتل،48صحافی کوریج کے دوران مارے گئے،230 صحافی تشدد کا نشانہ
بنے،11صحافیوں کے گھروں پر حملے،37 صحافیوں پرمقدمات درج،26 حراست میں لئے
گئے اور18صحافی گرفتار ہوئے۔ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان
میں صحافی و میڈیا کارکنان کے تحفظ کو فوقیت دینا ریاست کے تمام اداروں کی
مشترکہ ذمے داری ہے۔ اگر کسی صحافی یا ادارے سے کسی بھی ادارے یا فرد کو
شکایات ہوں تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز اقدامات کرنا بھی ریاست
کا حق ہے لیکن اس سے یہ تاثر جانا اچھا نہیں ہے کہ ریاست اپنی مرضی و منشا
کے مطابق صحافی یا اداروں کو جبری تابع رکھنا چاہتی ہو۔ اظہار رائے کی مثبت
آزادی ہم سب پر یکساں عاید ہوتی ہے۔
|