چاروں بڑی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے مولانا فضل
الرحمن اور دیگر جماعتوں کے آزادی مارچ کے حوالے سے پریس کانفرنس جاری تھی
پروزور اور مدلل انداز میں حکومت گرانے اور احتجاج کو کامیاب بنانے کی اپنے
اپنے نقطہ نظر کے مطابق گفتگو کی جارہی تھی سب نے اپنے اپنے موقف کے ذریعے
اپنی اپنی پارٹی کا آزادی مارچ اور موجودہ حکومت کے حوالے سے نظریہ اور سوچ
کی عکاسی کی بعدازاں سوال و جواب کے سلسلے میں راقم نے پوچھا کہ احتجاج کا
مقصد کیا ہے؟ جواب ملا کہ حکومت گرانا ہے سوال ہوا کہ اس سے آپ کو کیا
فائدہ ہوگا؟اس سے حکومتی حلقوں میں ہل چل مچے گی اور حکومت ڈانواں ڈول ہوگی
اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟عوام کو نئی حکومت ملے گی نئے الیکشن ہونگے
عوام کو ریلیف بھی ملے گا۔ عوام کو ریلیف کیسے ملے گا آج تک تو عوام کو
سوائے دلاسوں جھوٹے دعوؤں اور وعدوں کے کوئی بھی حکومت کچھ نہ دے سکی؟جی
مہنگائی پر قابو پائیں گے عوام کو سبسڈی دیں گے۔سوال پوچھا کیا احتجاج کرنا
درست ہے؟ جی ہاں یہ ہمارا قانونی و آئینی حق ہے حکومت گرنے کے بعد نئے
الیکشن ہونگے موجودہ حکومت دھاندلی زدہ الیکشن کی پیداوار ہے انتخابی
اصلاحات لائیں گے ۔ا س بات کی کیا گارنٹی کے آئندہ الیکشن شفاف ہونگے اور
ہارنے والی جماعتیں ماضی کی طرح جیتنے والوں پر دھاندلی اور سلیکٹڈ کے
الزمات نہیں لگائیں گے ؟ کوئی جواب نہیں۔
خاموشی۔انتخابی اصلاحات سے کیا مراد لیتے ہیں اور الیکشن کرانے کیلئے
پاکستان کے لوگ ہی ہونگے یا پھر فرشتے لائے جائیں گے۔جواب ندارد۔صرف خاموشی۔
محترم جب آپ کے پاس اگلا لائحہ عمل ہی نہیں ہے کہ سابق تیس سالوں میں آپ
عوام کو بیوقوف بناتے رہے ہیں اسے کوکئی ریلیف نہ دے سکے انتخابی اصلاحات
نہ لاسکے اور آپ پر بھی ہارنے والوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور ثابت
بھی کئے تو پھر یہ عوام کے ساتھ مذاق نہیں ہوگاالیکشن الیکشن کھیل کر صرف
اپنے مفادات اور اپنی جھوٹی انا و تسکین کیلئے عوام کی خون پسینے کی کمائی
کو پھر سے بٹھی میں نہیں جھونکیں گے موجودہ حکومت کے رہنے یا آپ لوگوں کے
گورنمنٹ میں آنے سے عوام کو کیا استفادہ ہوگا۔ عوامی محرومیوں کاازالہ کیسے
ہوگا کون ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا کون ان جائز اور چھوٹی چھوٹی
معصومانہ خواہشات کو پایہ تکمیل کو پہنچائے گا کو ن ان کے بنیادی حقوق ان
کو بلا تفریق فراہم کریگا تعلیم صحت روزگار ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات کی
دستیابی کو کون یقینی بنائے گا ؟
گزشتہ سات دہائیوں میں جمہوریت کے نام پر اس ملک کو جس طرح لوٹا گیا اس کی
جڑوں کو کھوکھلا کیا گیا اس کے خزانے کو اپنے بے جا مقاصد اور اللے تللوں
میں باپ کا مال سمجھ کر کھایا گیا اس کا حساب کون دے گا کشمیر پر ایک عشرے
پر چیرمینی کا طرہ سجانے والوں نے کشمیر کیلئے کیا کیا کیوں آج تک کشمیر کے
معاملے پر جوں تک نہ رینگ سکی۔ان سب سوالوں کا جواب ان کے پاس سوائے آئیں
بائیں شائیں کے کچھ نہ تھاصرف روایتی جواب کہ ہم اقتدار میں آکر ملک کو جنت
بنادی گے کشمیر کو چٹکی بجا کر آزاد کرالیں گے آسمان سے تارے توڑ لائیں گے
بس حکومت گرنی چاہئے ہمیں اقتدار ملانا چاہئے عمران خان نااہل ہے حکومت
ناکام ہوچکی ہے داخلہ خارجہ پالیسیاں تنزلی اور عدم توجہی کا شکار ہیں صرف
تقاریر کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے اس کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہوئی
وغیرہ وغیرہ
پریس کانفرنس ختم ہوگئی سب اپنے اپنے کپڑے اور پنجے جھاڑ کر اپنے اپنے
گھروں اور کاموں کو سدھار گئے لیکن ہیں پر بھی عام کوسوائے مزیدسوالوں کے
اور کچھ نہ مل سکا کوئی نہ بتا سکا کہ انتخابی اصلاحات کی ہیں کیا ان پر
کوئی کام کیا جاچکا ہے کسی نے اس بات کی وضاحت نہ دی کہ مولانا فضل الرحمن
کتناعرصہ کشمیر کمیٹی کے چیرمین رہے سیاہ و سفید کے مالک رہے لیکن مسئلہ
کشمیر جوں کا توں ہی کیوں رہا کیوں اسکو حل کی طرف نہیں لے جایا گیا اور اب
کیوں ایک سال میں اس کے حل کے متمنی اور متقاضی ہیں۔ اس بات کاجواب کوئی نہ
دے سکا کہ ادارے کیوں بے لگام رہے ہیں کیہں بیوروکریسی کے پریشر سے آج تک
نہیں نکلا جاسکا اداروں میں کرپشن کے دور دورہ کو ختم کرنے کی بجائے اس کو
مزید ہوا دی گئی رشوت کے عناصرکو قابو کیوں نہ کیا گیا عدالتوں میں انصاف
کے حصول پر اٹھنے والی انگلیوں کو کیوں نہ موڑا گیا ججوں کی خرید وفروخت پر
ہونے والی سرگوشیوں اور چہ مہ گوئیوں کو کیوں نہ دبایا گیا کیوں ان کی پشت
پناہی کی گئی فوج کے کردار پر کیچڑ اچھالنے والوں کوکیچڑ میں کیوں نہ
لتھیڑا گیاملکی سرحدوں کی حفاظت اور ملک و عوام کے تحفظ کرنے والی افواج
پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیااور ابھی تک بھی بنایا جارہا ہے
کیوں؟آپ لوگوں نے کبھی اپنے کردار کو بھی آئینہ میں دیکھا ہے اور اگر دیکھا
ہے تو یقینا وہ اتنا مکروہ ہے کہ دیکھتے ہی کراہت محسوس ہوتی ہے لیکن ہم
آنکھیں موند لیتے ہیں یا پھر وہ آئینہ ہی توڑدیتے ہیں جو آپ کی کردارکشی
کرتا ہے آپ کے ظاہر و باطن کی عکاسی کرتا ہے ۔کیوں اداروں کو بیچ کھانے
والوں کو گریبانوں سے نہ پکڑا گیا وہ ادارے جو کبھی معیشت کو بڑھاوا اور
سہارا دیتے تھے آج دیوالیہ ہونے کو ہیں ان میں کس کا کردار ہے اور ان مکروہ
اور قبیح کرداروں کو آج تک کیفر کردار تک کیوں نہ پہنچایا گیا قرضوں کی
دلدل میں دھنسی قوم کو وہاں سے کیوں نہ نکالا گیا کس حکومت میں پاکستان کے
قرضے کم ہوئے بشمول موجودہ حکومت کے ۔تو یار پلیز بند کرو یہ سب ڈرامے یہ
دھرنے اور احتجاج۔یہ سب دکھاوا ہے عوام کو بے وقوف بنانے کا ۔ مجھ سمیت ہر
شخص اپنے مفاد کیلئے سرگرم ہے کسی کے دل میں ملک کو قوم اور عوام کیلئے
کوئی درد نہیں ۔
|