حکومت،حکومت،احتجاج،احتجاج،دھرنا،دھرنا

 سیاسی یوٹرن سے گول چکرتک یعنی اپوزیشن سے اقتدارتک سیاستدان اپنے احتجاج،مارچ اوردھرنوں کوآئینی،قانونی حق اوروقت کی اہم ضرورت قراردیتے ہیں جبکہ وہی سیاستدان اپوزیشن سے حکومت تک پہنچتے ہی احتجاج،مارچ یادھرنے کوملک کیخلاف سازش قراردیتے ہیں اورحکومت سے اپوزیشن تک کاسفرکرنے والے شکست خوردہ سیاستدان احتجاج،مارچ اوردھرنے کوجائزاوروقت کی اہم ترین ضرورت کہنے پرمجبورہوجاتے ہیں یعنی جوسیاستدان حکومت میں ہوں ان کے نزدیک احتجاج ملک کیخلاف سازش یاغداری ہے اورجواپوزیشن میں ہوں ان کے نزدیک ہرقسم کااحتجاج جائزہوجاتاہے،سیاستدانوں کے اس سیاسی گول چکرمیں عوام کوفقط چکرہی مل سکتے ہیں اورکچھ نہیں،نئے پاکستان کی دعویدار،انصاف کاعلم بلندکرنے والی تحریک انصاف،جس کانام اورمنشوربھی انصاف ہے وہ بھی یوٹرن سے ناانصافی کے روایتی سیاسی گول چکرمیں گھومتی معلوم ہورہی ہے،ریاست مدینہ کی بات کرنے والے عمران خان بطوروزیراعظم پاکستان میں ریاست مدینہ کے اصول نافذکرنے کی بجائے زبانی تبلیغ سے کام چلانے کی کوشش کررہے ہیں،ریاست مدینہ صرف باتوں سے نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کے احکامات پرعمل پیراہوکربنائی جاتی ہے،یوٹرن کامطلب اپنی بات سے مکرجانایعنی وعدہ خلافی ہے،اچھی تقریریں اورزبانی جمع خرچ سے ملک ریاست مدینہ جیسانہیں بن سکتا،نئے پاکستان اورپرانے پاکستان میں فرق صرف اتناہے کہ پرانے پاکستان میں حکمران جھوٹ بول کرعوام کودھوکہ دیتے تھے جبکہ نئے پاکستان میں اس جھوٹ اوردھوکہ دہی کویوٹرن کاخطاب دے کرحلال وجائزکردیاگیاہے،اچھی تقاریرسے قوم کی تقدیربدلناممکن ہوتاتومیاں شہبازشریف بھی کافی اچھی اورجوشیلی تقاریرکیلئے مشہورہیں،مولانافضل الرحمان بھی اچھی تقریریں کرتے ہیں،اچھی تقریرسے ملکی نظام چلتے توپھرالیکشن کی بجائے تقریری مقابلے کروائے جاتے،وزیراعظم عمران خان،مولانافضل الرحمان پرمذہب کارڈاستعمال کرنے کاالزام لگاتے ہیں جبکہ خودہرتقریرمیں مذہب کارڈاستعمال کرتے ہیں،کل تک ملک میں گوزرداری گو،گونوازگوکے نعرے گھونجتے تھے آج گونیازی گوکے نعرے لگ رہے ہیں،ملک کل بھی مشکلات سے دوچارتھاآج بھی ہے،عوام کل بھی حکومت،حکومت،احتجاج،احتجاج،دھرنا،دھرناکی سیاست کے ہاتھوں یرغمال تھے اور آج بھی پریشان ہیں، 3اکتوبر کومولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کی تاریخ 27اکتوبرکااعلان کرتے وقت احتجاجی حکمت عملی کے تحت سکیم نمبرایک،سکیم نمبردو اورسکیم نمبرتین کاذکربھی کیاتھا،مولانانے کہاتھاکہ حکومت کی جانب سے آزادی مارچ میں رکاوٹ ڈالی گی توپہلی سکیم،پھردوسری سکیم اور پھر تیسری سکیم ہوگی،حکومت نے27اکتوبرسے 2 نومبرتک،صوبہ سند ھ سے آغازسے اسلام آبادپہنچنے تک مولاناکے آزادی مارچ کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جس کی وجہ سے مولاناکوپہلی یادوسری سکیم استعمال ہی نہیں کرناپڑی،مولاناکی پہلی یادوسری سکیم پرتبصرہ کرنے کاوقت بھی گزرچکاہے جبکہ تیسری سکیم کااعلان مولانانے اسلام آبادجلسے جو اب دھرنے میں تبدیل ہوچکاہے سے خطاب کرتے ہوئے کردیاہے،بروزجمعہ یکم نومبرکے دن چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری،میاں شہبازشریف سمیت اپوزیشن جماعتوں کی دیگرقیادت نے بھی خطاب کیا،میاں شہبازشریف نے انتہائی محتاط اندازاپناتے ہوئے حکومت کیخلاف شرکاء کاخون گرمایااوراپنے اُن دوستوں کوپیغام بھی دیاجن کے ساتھ وہ رابطے میں ہیں جبکہ بلاول بھٹوزرداری نے الیکشن 2018ء کے دوران پولنگ اسٹیشن کے اندراورباہرفوج کے جوانوں کی تعیناتی پراعترازکرتے ہوئے پی ٹی آئی کی حکومت کوسلیکٹڈکہااورجارہانہ اندازخطاب اپناتے ہوئے گوسلیکٹڈگوکے نعرے لگائے،مرکزی خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے سکیم نمبرتین کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکمرانوں کوبہت مہلت دے دی،غریبوں، مزدوروں اور پاکستان کے عوام کیساتھ مزید کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، عوام موجودہ حکومت سے آزادی چاہتے ہیں،اب انھیں جانا ہوگا،مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے،ادارے پی ٹی آئی یاعمران خان کے نہیں پاکستان کے ہیں،ہمارے ہیں،ہم اداروں کو غیرجانبداردیکھناچاہتے ہیں،ادارے عمران خان کے پیچھے ہیں تودودن کی مہلت دیتے ہیں،دودن کے بعدہم جوچاہیں زبان اورالفاظ استعمال کرنے میں آزاد ہوں گے،میڈیاکی آزادی چاہتے ہیں،دودن تک ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو پھر کسی پابندی کے پابند نہیں ہوں گے،صبر کا امتحان نہ لیا جائے ورنہ عوام کا سمندر طاقت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کو وزیراعظم ہاؤس جا کر گرفتار کر لے،ہم مزید صبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتے،دو دن کی مہلت دیتے ہیں، وزیراعظم مستعفی ہو جائیں،بصورت دیگر دو دن کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل دینگے،اب تک مولاناکی تیسری سکیم سامنے آچکی ہے اوروزیراعظم کااستعفیٰ آنے کاکوئی امکان پیدانہیں ہوالہٰذادودن بعدمولاناکوآئندہ کالائحہ عمل دیناہی پڑے گا،سندھ سے اسلام آبادپہنچنے تک آزادی مارچ کے شرکاء پرکسی سڑک یاشہرکوبندکرنے کاالزام نہیں آیاجبکہ حکومت کی طرف سے بھی کہیں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی البتہ اسلام آبادکے سکول،کالج،یونیورسٹیاں،میٹروبس سروس سمیت شہراقتدارکوبندہوئے آج تیسرادن ہے،حکومت نے سیکورٹی خدشات کی بناپر کنٹینرلگاکراسلام آبادکوچاروں طرف سے سیل کردیاہے،شہرکے انتظامات حکومت کے کنٹرول میں ہیں اس لئے حکومتی انتظامیہ نقل وحرکت کیلئے مکمل آزادہے جبکہ عام عوام کیلئے شدیدمشکلات پیداہوچکی ہیں،پیداشدہ صورتحال مکمل طورپراحتجاج کرنے والی اپوزیشن کے حق میں اورحکومت کیلئے ٹف ٹائم معلوم ہورہی ہے ،دودن بعدمولانامزیددودن،مزیددودن،مزیددودن اورپھرمزیددودن بھی دیتے رہیں تواسلام آبادکوبندرکھناحکومت کی مجبوری بن جائے گی اوراحتجاج کرنے والوں پرشہربندکرنے کاالزام بھی نہیں لگے گااورشہریوں کی زندگی مفلوج سے مفلوج ترہوتی جائے گی ،حکومت کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتاچلاجائے گا،دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے دھرنے اورماضی میں پی ٹی آئی کی جانب سے دیئے گئے دھرنے کاموازنہ کریں تودونوں دھرنوں میں بہت بڑافرق نظرآتاہے،پی ٹی آئی کے دھرنے میں ایک ہی ہیروعمران خان تھے جبکہ متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے موجودہ دھرنے میں بیشمارکردارہیروکاکرداراداکررہے ہیں یعنی باری باری آرام بھی کرسکتے ہیں،پی ٹی آئی ایک جماعت تھی اورکارکن بھی محدودتھے جبکہ موجودہ دھرنے میں متعددسیاسی جماعتوں کے کارکنان شامل ہیں لہٰذاکارکنان بھی آتے جاتے رہیں گے،یہ بات توواضع ہے کہ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے اوردینابھی نہیں چاہیے ،اب حکومت کایہ امتحان ہے کہ وہ مولانافضل الرحمان کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے دھرنے کومنتشرکرنے کیلئے کیاحکمت عملی اختیارکرتی ہے،ایک بات توطے ہے کہ حکومت اتنے بڑے دھرنے کیخلاف تشددکاآپشن استعمال نہیں کرسکتی،ایک جانب اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کی حکومت کومزیدوقت نہ دینے کااعلان کررہی ہیں تودوسری جانب وزیراعظم عمران خان کسی کونہ چھوڑنے کے موقف پرڈٹے ہوئے ہیں،ظاہری طورپرحکومت،حکومت،احتجاج ،احتجاج،دھرنا،دھرناکھیل کامعرکہ حکومت واپوزیشن کے درمیان ہے جوکئی دہائیوں سے جاری ہے پراس گورکھ دھندے میں سب سے زیادہ متاثرعام عوام ہوتے ہیں،دھرنے والے آئندہ کے لائحہ عمل میں کیاکرنے کاارادہ رکھتے ہیں یاحکومت اپنے بچاؤکیلئے کون سے اقدامات اٹھاتی ہے،وزیراعظم مولانافضل الرحمان کے مطالبے پراستعفیٰ دیتے ہیں یادھرنے کے شرکاء کیخلاف سخت رویہ اختیارکرتے ہیں اس بات کافیصلہ وقت نے کرناہے پرایک بات اب واضع ہوگئی ہے کہ حکومت کیلئے موجودہ دھرنابہت بڑاچیلنج اورامتحان ثابت ہوسکتاہے،پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفورنے بھی واضع کردیاہے کہ پاک فوج مکمل طورپرغیرجانبدارادارہے،پاک فوج کی حمایت جمہوری طورپرمنتخب حکومت کیساتھ ہوتی ہے،جمہوری مسائل جمہوری طریقے سے ہی حل ہونے چاہئے،نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے،اس وقت ملک کسی فساد کا متحمل نہیں ہو سکتا،مولانافضل الرحمان واضع کریں کے اُن کااشارہ کس ادرے کی طرف ہے
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.