کل کے دھرنے سے آج کے دھرنے تک

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایک سیاسی جماعت نے منتخب حکومت کے خلاف دھرنا دیتے ہوئے غیر اخلاقی زبان کا بے دریغ استعمال کیا اور منتخب وزیراعظم سے استعفی طلب کیا تھا، اس وقت ملک کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا ، خوش قسمتی سے حکومت تو نہیں گری لیکن ایک غلط رواج ضرور شروع ہوگیا کہ آئیندہ جو چاہے ایک ہجوم اکٹھا کرے اور اسلام آباد پہ یلغار کرکہ اپنے مطالبات منوا کر چلتا بنے ۔

دنیا میں ایک چیز ہوتی ہے جسے مکافات عمل کہتے ہیں ، وزیراعظم عمران خان آج اسی کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں ، مولانا فضل الرحمن اپنا لشکر لے کر اسلام آباد میں براجمان ہیں اور وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں ، حکومت کچھ بھی کہہ لے ، مولانا کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور حکومتی حواس باختگیاں بھی ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئی ہیں ۔

باشعور حلقے کل بھی ان دھرنوں کی سیاست کو غلط کہہ رہے تھے اور آج بھی اسے درست نہیں سمجھتے ، سابقہ اور حالیہ دھرنوں میں ایک فرق یہ بھی نمایاں ہے کہ پرانے دھرنے کے وقت لوگ حکومت سے قدرے مطمئن تھے روزگار بھی تھا اور مہنگائی کا جن بھی کافی حد تک قابو میں تھا ، جبکہ آج اعوام مکمل طور پہ حکومتی کارکردگی سے مایوس اور غیر مطمئن نظر آرہے ہیں بے روزگاری کی شرح بہت بڑھ گئی ہے ، مہنگائی اور بے جا ٹیکسز نے ایک عام آدمی کو پریشان کردیا ہے ، پرانے دھرنے میں ناچ گانا ہوتا تھا آج کل ازکار اور دعاوں کا زور ہے ۔

ہماری سیاست میں گرما گرمی تو ہمیشہ چلتی رہتی ہے ،تاہم بطور پاکستانی ہمیں اپنے اداروں کے وقار اور عزت کا خیال رکھنا چاہئے ، افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں کی فکری تربیت اج اس سطح پہ پہنچ چکی ہے جہاں انہیں اپنے مفادات کےسوا کچھ نظر نہیں آتا ۔

ایسے قابل احترام ادارے جن کے لئے ہم ہمیشہ اپنے دلوں میں محبت اور احترام کے جذبات محسوس کیا کرتے ہیں آج ان اداروں پہ ہر محفل میں انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں ، سوشل میڈیا پہ بڑے منظم انداز میں حساس اداروں کے خلاف غلط پروپیگنڈا کیا جارہا ہے میں اپنے کالمز میں ایک عرصے سے سے حکومتی ذمہ داران کی توجہ اس اہم اور نازک مسلے کی جانب کروا رہا ہوں کہ کچھ شر پسند بڑے غیر محسوس طریقے سے ہمارے نوجوانوں کے دماغوں میں پاک فوج کے خلاف زہر انڈیل رہے ہیں ۔

پرامن احتجاج ہر شخص کا حق ہے ، آپسی اختلافات اور زاتی رنجشوں میں اداروں کو مت گھسیٹیں ، اداروں کو بھی اپنے وقار اور مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے ۔ کل کے دھرنے سے آج کے دھرنے تک نہ کسی نے کچھ سیکھا ہے نہ کچھ بدلا ہے ، کل نوازشریف جہاں کھڑے تھے آج وہاں عمران خان کھڑے ہیں اور اگر ہم نے اب بھی ان دھرنوں سے کوئی سبق حاصل نہ کیا تو کل کوئی تیسرا پھر آئے گا اور پوری قوم کی منتخب کردہ حکومت کو سرنڈر کرنے پہ مجبور کردے گا ، افسوس ماضی سے حال تک سب ایک ہی جیسا ہے ۔
 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87440 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.