شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان روٹھنے منانے کا سلسلہ
نیا نہیں ہے۔ اس کے نمونے آئے دن دیکھنے کوملتے ہیں ۔یہ دونوں طلاق کے بعد
ہی ایک دوسرے سے نہیں لڑتے بلکہ رشتۂ ازدواج میں بھی لڑتے بھڑتے رہتے ہیں
۔ مثلاً ۷ جنوری ۲۰۱۹ کو پارٹی کے صدر امیت شاہ نے لاتور میں اپنے کارکنان
کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ انتخاب میں اپنے بل بوتے پر لڑنے کی
تیاری کریں ۔ ہمارے ساتھ جو بھی الحاق کرے گا اس کا فائدہ ہوگا۔ اس کے معنیٰ
یہی تھے کہ ہم غیروں سے بے نیاز ہیں جبکہ دوسرے ہمارے محتاج ہیں ۔ شاہ نے
چیلنج کیا تھا کہ ہم خود ایوان پارلیمان کی اڑتالیس نشستوں پر لڑ کر چالیس
جیت سکتے ہیں لیکن اس گیدڑ بھپکی کے باوجود لوک سبھا انتخاب سے قبل انہیں
شیوسینا کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ انہوں نے جوش میں یہ بھی
کہہ دیا تھا کہ جو کوئی ہمارے راستے میں آئے گا ہم اس کو اٹھا کر پٹخ دیں
گے ۔ یہ اشارہ واضح طور پر شیوسینا کی جانب تھا ۔ اس کے جواب میں شیوسینا
نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا کہ ہم اپنے مخالف کا سر پھوڑ دیں گے لیکن
پھر ان کا مدھر ملن ہوگیا اور ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ پارلیمانی و
اسمبلی کا انتخاب لڑا۔
اس بار انتخابی مہم میں چونکہ عوام نے کشمیر کے لفافہ میں رکھ کر فروخت کی
جانے والی دیش بھکتی کو بی جے پی کے منہ پر دے مارا ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے
ہریانہ کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر میں بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ نقصان اس سے
ملحق شیوسینا کے بھی حصے میں بھی آیا اور اس کی بھی ۷ نشستیں کم ہوگئیں ۔
شیوسینا کے سنجے راوت نے یہ بات پہلے ہی کہہ دی تھی کہ اقتدار میں حصے داری
کے سبب شیوسینا نے متبادل کے طور پر اقتدار کی دعویداری کا موقع گنوا دیا
ہے۔ راوت کو اندیشہ تھا کہ عام رائے دہندگان بی جے پی کے تئیں اپنی ناراضگی
کو شیوسینا کے سر منڈھ دیں گے لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ انتخابی
نتائج شیوسینا کو اقتدار کے حصول کا نہ سہی تو وزارت اعلیٰ کے عہدے کی
دعویداری کا موقع بھی فراہم کر سکتے ہیں ۔
قومی انتخاب میں مہاراشٹر کے اندر شیوسینا اور بی جے پی نے مل کر ۴۸ میں ۴۱
نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس کامیابی کو اگر اسمبلی حلقوں میں بانٹ
دیا جائے تو دو سو پچیس مقامات پر ان کی کامیابی کے امکانات روشن تھے ۔ اس
بار پرکاش امبیڈکر کے ذریعہ چلائی جانے والی زبردست انتخابی مہم بھی اپنا
اثر دکھا رہی تھی ۔ اس لیے وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس نے کہا تھا کہ ہمارے
پہلوان تیل لگا کر اکھاڑے میں منتظر ہیں لیکن ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی
نظر نہیں آتا۔ مہاراشٹر میں حزب اختلاف کا خاتمہ ہوچکا ہے۔انتخاب سے قبل
دیویندر فردنویس نے اپنے مخالفین کو توڑنے کی جو مہم چلائی اس نے حزب
اختلاف کا حوصلہ توڑ دیا اور عوام کے اندر یہ بھرم پیدا کردیا کہ وزیراعلیٰ
اپنے دعویٰ میں حق بہ جانب ہیں لیکن نتائج نے بازی الٹ دی اور اب یہ حال ہے
کہ کانگریس والے افسوس کررہے ہیں ۔ کاش تھوڑی سی محنت اور کرتے تو نتائج
کچھ اور ہی ہوتے ۔
مہاراشٹر کے مختلف دانشور جن میں اکثریت براہمنوں کی ہے ان نتائج کو سمجھنے
اور سمجھانے کی سعی کررہے ہیں ۔ ان میں سے ایک کا خیال ہے کہ دو طرح کے
رائے دہندگان ہوتے ۔ ایک وہ جو بغیر سوچے سمجھے جس کو پارلیمانی انتخاب میں
ووٹ دیتے ہیں اسی کو اسمبلی انتخاب میں ووٹ دے دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے
قسم کا ووٹرس ہر بار غور کرکے فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی پارٹی یا امیدوار اس
موقع کے لیے بہتر ہے۔ یعنی کس کو مرکز میں اور کسے صوبے کا سربراہ ہونا
چاہیے۔ اس لیے وہ جس کو پارلیمانی انتخاب میں ووٹ دے ضروری نہیں کہ اسی کے
حق میں اسمبلی الیکشن کے اندربھی رائے دے۔ اسی طرح کے ووٹرس نے اس بار
انتخابی نتائج کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ یہ منطق بظاہر درست نظر آتی ہے
لیکن سوال یہ ہے ۲۰۱۴ میں ان رائے دہندگان کو کیا ہوگیا تھا؟
اپریل ۲۰۱۴ کے اندر ان رائے دہندگان نے بی جے پی اور شیوسینا کو کامیابی
سے نوازہ اور اسمبلی انتخاب میں تنہا بی جے پی کو اس سے بھی بڑی سے کامیابی
سے ہمکنار کردیا۔ سوال یہ ہے کہ دوسری قسم کے ووٹر نے پانچ سال قبل اس
تفریق و امتیاز کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پچھلی مرتبہ اچھے دن کے
خوابوں پر مودی جی نے قومی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی اور اس کے اثرات
دیرپا تھے ۔لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے تھے کہ جلد یا بہ دیر ان کے
’اچھے دن ‘ آہی جائیں گے اس لیے صوبے کے اندر بھی مودی کو کامیاب کردیا
لیکن ۲۰۱۹ میں دیش بھکتی کی جو بوتل پلا کر ووٹ لیا گیا تھا اس کا نشہ بہت
جلد ہرن ہوگیا اس لیےلوگوں نے بھاجپ کے ساتھ ساتھ شیوسینا کو بھی سبق سکھا
دیا۔ اس مرتبہ بی جے پی کا ووٹ شیئر اور ارکان کی تعداد دونوں کم ہوئی ہے۔
اس لیے یہ لوگ اپنا منہ چھپانے کے بہترین کا میابی کی شرح کا راگ الاپ رہے
ہیں ۔
معروف صحافی بھاو تورسکر جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ سینا اور بھاجپ کا
الحاق سوا دو سو سیٹیں حاصل کرے گانیز بی جے پی خود اپنے بل بوتے پر سرکار
بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ اس وقت شیوسینا کو جی بھر کے رسوا کیا جا
سکے گا لیکن سینا اور بی جے پی کے باغی امیدواروں نے کھیل خراب کردیا۔ وہ
کہتے ہیں کہ بی جے پی شیوسینا کے بعد سب سے زیادہ ووٹ آزاد امیدواروں کے
کھاتے میں گئے ۔ ویسے تو یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے پھر بھی یہ پہلی بار
نہیں ہوا۔ آزاد امیدواروں کے مجموعی ووٹ ہمیشہ ہی بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس
میں ایم آئی ایم جیسی جماعتیں شامل ہیں جن کا رجسٹریشن نہیں ہے۔ یہ بات
اگر مان لی جائے کہ کثیر تعداد میں ووٹ باغی امیدواروں کی حصے میں چلے گئے
تب بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا نظم و ضبط کاسنگھی دعویٰ کھوکھلا نعرہ ہے۔سنگھ
پریوار سے مرعوب ذہن اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا بقول شاعر ؎
اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا تری گہرائی
بال ٹھاکرے کہا کرتے تھے شیوسینا عام سیاسی جماعت نہیں فوج ہے اور اس میں
بغاوت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ سنگھ پریوار دن رات اپنے نظم و ضبط کا ڈھول
پیٹتا رہتا ہے۔ اس میں اگر کوئی حقیقت ہے تو بغاوت کیونکر ہوتی ہے؟ ویسے
اگر کسی پارٹی کا ہائی کمان ہی دیگر جماعتوں کے ابن الوقت رہنماوں کو عین
وقت پر پارٹی میں شامل کرکے پرانے ارکان کو محروم کردے تو نیچے والے
کارکنان سے اونچے اخلاق اور قربانی کی توقع فضول ہے۔اس موقع پر جبکہ
ہندوتواوادی جماعتوں کے اندر خانہ جنگی جاری ہے۔ بی جے پی کے ہاتھ میں کمل
کا پھول اور بغل میں ترشول ہے اور اسے شیوسینا کی پیٹھ میں گھونپنے کا موقع
تلاش کررہی ہے مانخورد حلقہ سے رکن اسمبلی اور مہاراشٹر سماج وادی کے صدر
ابو عاصم اعظمی نے ادھو ٹھاکرے کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے والد کی
وراثت کو پر قائم رہیں اورحکومت کے سامنے نہ جھکیں ۔ اعظمی کے خیال میں
ادیتیہ ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ بننا چاہیے، وہ جوان ہیں اور ریاست کو ترقی کی
راہ پر لے جا سکتے ہیں۔انہوں نے شرد پوار اور کا نگریس کو بھی مودی کا غرور
توڑ نے کے لیے ادیتیہ ٹھاکرے کو آگے بڑھا نے کی صلاح دی ۔ اس میں شک نہیں
کہ دیویندر فرد نویس کے بجائے ادیتیہ کا وزیراعلیٰ بننا ریاست کے مفاد میں
ہو گاکیونکہ آنجہانی کانشی رام کہا کرتے تھے ہمیں مضبوط نہیں مجبور سرکار
چاہیے ۔ اس کی منطق یہ تھی کہ حکومت جس قدر کمزور ہوگی عوام اسی قدر طاقتور
ہوں گے۔
(۰۰۰۰۰جاری )
|