پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے کشمیری قوم کو تین
ماہ کی اذیتیں، جس میں قید خانے، کرفیو، محاسرے ، انٹر نیٹ اورمیڈیاکی
پابندی کے بعد بلا آخر کشمیر کو دو حصوں،لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کر
کے بھارت میں ضم کر لیا۔ جبکہ کشمیری تکمیل پاکستان کے لیے ۷۲ سال سے جاری
اپنی جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ جب
بھی کر فیوذرا نرم ہوتا ہے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اورپاکستان کے حق میں نعرے
لگاتے ہیں۔بھارت نے کشمیری قوم کو جیل میں بند کر کے اور کرفیو لگا کر من
مانیاں کیں۔بھارت نے لداخ اور کشمیر میں اسسٹنٹ گورنر لگا دیے ہیں۔ کشمیر
کا جھنڈا ختم کر کے بھارت کا جھنڈا لہرا دیا۔ کشمیر کے ریڈیو اسٹیشنوں کا
نام بدل کر ریڈیو ریڈیو آل انڈیا رکھ دیا ہے۔ بلکہ کشمیریوں کا سب کچھ چھین
کر بھارتی بنا دیا۔ اب اپنے پرگروام کے مطابق آزادکشمیر پر حملہ کر کے اسے
بھارت میں شامل کرنے کی کاروائی کرنے والا ہے۔
دوسری طرف مولانا فضل ا لرحمان صاحب نے عمران حکومت کو ختم کرنے کے لیے
اپنے پرانے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے پہلے ملک کے بڑے شہروں میں ۱۵؍بڑی
ریلیاں نکالیں ۔پھر کراچی سے اسلام آباد تک آزادی مارچ کے نام سے عمران خان
حکومت ختم کرنے کے لیے اپنی آخری منزل تک پہنچ گئے۔اس احتجاج میں ملک کے
چھوٹی بڑی ساری سیاسی جماعتیں شریک ہے ۔ صرف جماعت اسلامی شریک نہیں۔ وہ اس
لیے کہ ایک طرف پاکستان کا ازلی دشمن بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے
بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔پاکستان کی اپوزیشن اپنے خلاف نیب میں جاری مقدمے ختم
کرانے کے لیے عمران خان پر دباؤ بڑھانے کے لیے مولانا فضل الرحمان کے
احتجاج میں شریک ہے۔ جماعت اسلامی نے پورے ملک میں عوام کو تحریک تکمیل
پاکستان کی جنگ میں کشمیریوں کا ساتھ دینے کے لئے شہروں شہر ریلیاں نکالیں۔
اس تاریخی موقعہ وہ بھارت کی جنگی عزاہم کے خلاف قوم کو یک جان کرنے کی جد
وجہدکی۔جماعت اسلامی نے پورے پاکستان میں کشمیریوں کی تحریک تکمیل پاکستان
کی تحریک میں کشمیریوں کا ساتھ دینے کے لیے ہمہ تن مصروف عمل ہے۔ دو دن بعد
یعنی ۴۔۵ نومبر کواسلام آباد میں بین الاقوامی کشمیر کانفرنس منعقد کرنے
والی ہے۔اس میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو دنیا کے سامنے رکھنے کا
پروگرام ہے۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کشمیر پاکستان کا قانونی طور پر ایک
حصہ ہے۔ بھارت نے ۱۹۴۷ء سے اس پر بزور قبضہ کیا۔ یہ مسئلہ اب بھی اقوام
متحدہ کی کازلسٹ پر موجود ہے۔ اقوام متحدہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے
درجنوں قراردادیں بھی پاس کر چکی ہے۔ مگر بھارت اس پر عمل کیا کرتا ،الٹااب
کشمیر کو بھارت میں مکمل طور پر شامل کر لیا۔
ان حالت میں چاہیے تو یہ تھا کہ جماعت اسلامی کی طرح، پاکستان کی ساری
سیاسی پارٹیاں اور حکومت متحد ہو کر بھارت کے ان عزاہم کا مقابلہ کرتیں ۔
مگر افسوس ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا ڈالے ہوئی
ہیں۔ اپنی تقاریر میں مسلم لیگ نون کے صدرجناب شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے
چیئرمین بلاول زرداری سمیت سارے مقررین نے حکومت، فوج اور عدلیہ کے خلاف
تقریر کیں۔نون لیگ کی قیادت نے نواز شریف کا پرانا نعرہ پھر دھرایا’’ ووٹ
کو عزت دو‘‘ شہباز شریف نے کہا کہ نون لیگ کو حکومت دو۔ ہم چھ(۶) ماہ میں
حالت درست کر دیں گے۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ ہم اس جعلی حکومت کو تسلیم
نہیں کرتے۔اسے خلائی مخلوق یعنی فوج لائی ہے۔عمران خان استیفیٰ دیں۔ ملک
میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔ انتخابات صرف الیکشن کمیشن کرائے۔ فوج کا
انتخابات میں کوئی رول نہیں ہونا چاہیے۔ دھرنے میں یکم جنوری کے آخری خطاب
میں مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر فوج کو مخاطب کرت ہوئے کہا کہ ناجائز
حکومت کی سرپرستی چھوڑ دو۔ عمران خان کو للکارتے ہو کہا کہ میں عمران خان
وزیر اعظم پاکستان کوو د(۲) دن کا وقت دیتا ہوں کہ وہ استیفیٰ دے کر گھر
چلے جائیں۔ ورنہ یہ اجتماع آگے بڑھ کر خود اس سے استیفیٰ لے گا اور اسے
گرفتار بھی کرلے گا۔ لوگوں سے نعرے لگوائے کہ آگے بڑھو گے۔ڈی چوک جاؤ گے۔
وزیر اعظم ہاؤس جاؤ گے۔ جلسے میں شریک لوگوں نے کہا آگے بڑھیں گے۔ جب تک آپ
کہیں کے دھرنا دیں گے۔ وزیر اعظم سے استیفیٰ لے کر ہی جائیں گے۔
دوسری عمران خا ن نے گلگت میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہ میں استیفیٰ نہیں
دوں گا۔ فضل الرحمان کہتا ہے کہ میں یہودیوں کا ایجنٹ ہوں ۔ قادیانی نواز
ہوں ختم نبوت کے خلاف ہوں۔میں کہتا ہوں ایک فضل الرحمان کے ہوتے ہوئے کسی
اور کی ضرورت نہیں۔میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ کرپشن میں ملوث یہ سارے لوگ
اکٹھے ہو جائیں گے۔اپنی کرپشن بچانے کے لیے مجھ پر پریشیئر بڑھائیں گے۔ مگر
میں آج پھر اعلان کرتا ہوں کہ کسی بھی کرپٹ کو این او آر نہیں دوں گا۔ بلکہ
کرپشن میں ملوث مذیر لوگ بھی پکڑے جائیں گے۔
ان حالت کا کوئی محب وطن تجزیہ کار جائزہ لے، تو سب سے پہلے اپوازیش اور
حکومت کے درمیان جو معاہدہ وا تھا اس پر مکمل عمل درآمند ہو چاہیے تھا۔
حکومت کہتی ہے کہ اپوزشن نے کو پورے پاکستان سے اسلام آباد آنے اور اپنا
جمہوری حق ادا کرنے کا پورا موقعہ دیا گیا۔ معاہدے کے مطابق اپوزیشن احتجاج
کرتی۔ مگرجہاں پہنچ کر ریڈ زون میں آنے پر لوگوں سے عہد لینے اور آگے بڑھنے
کا کہنا، نا جائز ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ پہلے حکومت نے معاہدے کی خلاف
وردی کی ہے۔ مگر سب کو معلوم ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا پہلے سے ہی حکومت
کو گرانے اور عمران خان کے استیفیٰ کاپروگرام تھا۔ حکومت کہتی ہے کہ عدلیہ
کے حکم اور معاہدے پر عمل نہیں کیا گیااور ریڈ زون پرچڑھائی کی کوشش کی گئی
تو حکومت قانون کے مطابق مظاہریں کو روکے گی۔
صاحبو!اس طرح تصادم ہونے کا امکان ہے۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ ساری قوم
کشمیر میں جاری تحریک تکمیل پاکستان کی جنگ میں کشمیریوں کا ساتھ دیتی۔
بھارت کوغیر آئینی غیر اخلاقی اقدام کرنے کے سامنے بندبھاند تی ۔حکومت کو
پانچ سال پورے کرنے کا موقعہ دیتی۔حکومت کے غلط کاموں پر آئین کے مطابق
گرفت کرتی۔ اگر دیکھا جائے تومولانا فضل الرحمان، عمران خاں حکومت کو گرا
خود توکبھی بھی پاکستان میں اکثریت حاصل نہیں کر سکتے ۔ توکیا پھرملک پر
چایس(۴۰) سال باریاں بدل بدل کر حکومت کرنے والی نون لیگ یا پیپلز پارٹی کو
پھر سے حکومت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرایع کہتے ہیں اگر پاکستان میں اس
وقت کرپشن پر کنٹرول نہ کیا گیا تو پھر کبھی بھی نہیں ہوسکے گا۔ جماعت
اسلامی ۴۳۶ آف شور کپنیوں والوے کے خلاف سپریم کورٹ میں مقد مہ داہر کیا
ہوا ہے۔ ان کو عدالت کے سامنے لا کر قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے۔
کیااپوزیش فوج پر تنقید کر کے اس مشکل وقت میں بھارت کے ہاتھ مضبوط نہیں کر
رہی ہے۔ ہماری فوج نے ملک سے دہشت گردی ختم کی۔ اب حل حکومت کے ساتھ مل کر
فاٹا میں ترقیاتی کام کر رہی ہے۔سرحد پر بھارت جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسوقت فوج کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی ضرورت ہے۔ فوج فاٹا، اندرون ملک اور
مغربی باڈر (۲) دو لاکھ فوج لگی ہے۔ کسی طرح بھی ملک کے حالات خراب نہیں
ہونے چاہیں۔ ورنہ اس سے بھارت کو آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کا موقعہ مل جائے
گا۔اپوزیش کو چاہیے کہ عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ حکومت کو پانچ
سال مکمل کرنے دے۔ اپنے مطالبات جمہوری طرز پر پیش کر کے واپس چلے جائے ۔
یہ ہی جمہوری طریقہ ہے۔ اگر ملک میں افراتفری ہوئی تو یہ نہ ہی اپوزیشن
اورنہ ہی حکومت اور نہ ہی عوام کے لیے چھا ہو گا۔ اس سے بھارت فاہدہ
اُٹھائے گااور ایک ریت پڑھ جائے گی کہ لاکھ دو لاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع
ہو کسی بھی حکومت گراتے رہیں گے۔ پاکستان میں پہلی دفعہ، اﷲ اﷲ کرکے پیپلز
پارٹی اور نون لیگ نے اپنے اپنے پانچ سال مکمل کیے تھے۔ اس تحریر تک اسلام
آباد میں اپوزیشن کا دھرنا جاری ہے ۔ مورخ لکھ رہا ہے کہ پاکستان کی
اپوزیشن نے کیا اپنا ملک، اپنی شہ رگ کشمیر کو بچانے کی کوشش کی،
اقتدارحاصل کرنے یا اپنے ازلی دشمن بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنی کی نادنستہ
کوشش کی۔
|