مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پابندیوں اور ایک کروڑ انسانوں
کی قید ، میڈیا بلیک آؤٹ، انٹرنیٹ ااور مواصلاتی رابطوں کے کریک ڈاؤن کے
تین ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ 5اگست سے 4نومبر تک کشمیری جسمانی مظالم کے ساتھ
نفسیات اور ضمیر پر مسلسل چوٹیں کھا رہے ہیں۔ وہ 73سال سے بھارتی جبری قبضے
کے خاتمے کی جنگ لڑتے رہے۔ یہ جنگ ہر دور میں کسی نہ کسی انداز میں جاری
رہی۔ آہستہ آہستہ مزاحمت نئی نسلوں کو منتقل ہوتی رہی۔ نئے لوگ حالات سے
زیادہ آگاہی نہ رکھتے تھے۔ مگر بزرگوں کی قربانیوں نے اس چنگاری کو بجھنے
نہ دیا جو آزادی کی تڑپ نے کشمیر کے اندر سلگا رکھی تھی۔ بی جے پی کی
آمرانہ سیاست اور شدت پسندانہ پالیسی نے ملک کو ہندو انڈیا کا روپ دھارنے
کے لئے کشمیر کو اس نام نہاد قومی دھارے میں شامل کرنے پر اکسا دیا۔ اس کے
سرخیل صرف مودی یا انتہا پسند سوچ ہی نہیں بلکہ کانگریس سمیت دیگر عناصر
بھی منافرت اور نظریات کی بالا دستی کی راہ پر گامزن ہیں۔ کشمیری ہمیشہ
اپنی تاریخ اور ماضی پر ناز کرتے رہے۔ جموں و کشمیر ریاست پہلے ہی ٹکڑوں
میں تقسیم تھی۔ مقبوضہ ریاست کے اب دہلی نے دو نہیں بلکہ لا تعداد ٹکڑے کر
دیئے ہیں۔ بظاہر جموں اور کشمیر سمیت لداخ دہلی کے براہ راست انتظام میں
چلے گئے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد بھارت کے قبضے کے خاتمے کے لئے تھی۔ آزادی یا
نیشنل کانگرنس کی اٹانومی کجا ، بھارت نے کشمیر کو فاٹا بنا دیا۔ جواہر لال
نہرو نے اقوام متحدہ میں حق خودارادیت اور رائے شماری کا وعدہ کیا۔ جسے
مودی تک تمام حکمرانوں نے بندوق کی نوک پر، مظالم سے مٹا دیا۔ 5اگست کو
مودی کے انڈیا میں کشمیریوں کی زبان بندی کی بدترین مثال قائم کی گئی۔
کشمیریوں سے روشنی اور ہوا کے استعمال کا قدرتی حق بھی چھین لیا گیا۔ ایک
کروڑ آبادی اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتی۔ پہلے ان کے چلنے پھرنے ،
اظہار رائے کی پابندی تھی۔ اب بھارت نے کشمیریوں کی خواہشات اور سوچ پر بھی
پابندی لگا دی ہے۔ کشمیری اپنی بات دنیا کے سامنے نہیں رکھ سکتے، دنیا کو
دیکھ اور سن نہیں سکتے۔ انٹرنیٹ اور مواصلاتی رابطے کاٹنے کا مقصد یہی ہے
کہ دنیا کشمیریوں کی آواز نہ سن سکے۔ بھارتی مظالم اور نسل کشی دنیا کی
نظروں سے اوجھل رہے۔ کشمیر دنیا کے لئے بلیک ہول بنا دیا گیا ہے۔ جو دنیا
جانوروں کے حقوق پر سیاسی اور معاشی پابندیاں لگانے پر تیار ہو جاتی ہے،
وہی آج ایک کروڑ کشمیری انسانوں کی جبری قید، تما م انسانی حقوق پامال کرتے
ہوئے تماشہ دیکھ رہی ہے۔ چند ایک علامتی اور روایتی مذمتی بیانات سے آگے نہ
بڑھ سکی۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ چاہتے ہوں کہ کشمیری
بھارتی مظالم اور بدترین پابندیوں کا ردعمل دیں گے، اس ردعمل کے جواز میں
وہ بھارت کے ساتھ اپنے معاملات درست کریں گے۔ یا اس خطے میں کوئی نیا کھیل
کھیلنے پر توجہ دیں گے۔
کشمیریوں کی مرضی اور منشا کا احترام کئے بغیر بھارت ایک متنازعہ خطے میں
اس طرح کی جبری جغرافیائی تبدیلیاں کیسے لا سکتا ہے۔ کیا مودی نے امریکہ
اور اس کے چاپلوس ممالک کو کسی اعتماد میں لیا ہے۔ کیا پاکستان اس بارے میں
لاعلم ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادیں جموں و کشمیر کو دنیا
کا متنازعہ علاقہ قراردے رہی ہیں۔ بھارت ان پر عمل کی پروا کئے بغیر اپنی
مرضی کی تبدیلیاں کیوں کر لانے پرراغب ہوا ہے۔ عالمی میڈیا چیخ و پکار کر
رہا ہے کہ کشمیری عوام بھارت کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ بھارت صرف
بندوق اور طاقت کے بل پر کشمیر پر جابرانہ قبضہ کئے ہوا ہے۔ وہ مسلسل لاک
ڈاؤن، پابندیوں اور مظالم روا رکھتے ہوئے حقائق کو دنیا سے چھپا رہا ہے۔
کشمیری بھارت سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ بھارت نے 173سال سے قائم ایک ریاست کی
حیثیت ختم کر دی ہے۔ آج چین بھی تسلیم کرتا ہے کہ کشمیر کے بعض حصے اس کے
کنٹرول میں ہیں۔ چین بھی بھارت کے اقدام پر تنقید کر رہا ہے۔ کشمیری یہ
بالکل بھی تسلیم نہیں کریں گے کہ ان کی زمین پر بھارتی شہری آ کر قبضہ جما
لیں۔ کشمیر میں کوئی غیر کشمیری غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا۔ بھارت
کے جبری قوانین کے تحت اب بھارتی شہری آ کر کشمیر میں زمین کی خریداری کی
آڑ میں حق ملکیت کا دعویٰ کریں گے۔ جب بھارت کے شہری کشمیر میں زمینوں
جائیدادوں پر قبضہ جما لیں گے ، تو کشمیری اقلیت میں آ جائیں گے۔ آبادی کا
تناسب بدلنا بھارت کا خواب رہا ہے۔ یہ خواب اب پورا ہو رہا ہے۔ اب دہلی کا
ہر قانون کشمیر میں بلا حیل و حجت نافذ ہو گا۔ پہلے بھارتی قوانین کے کشمیر
میں نفاذ کے لئے کشمیر کی اسمبلی سے منظوری لازمی تھی۔ اب جب کہ یہ قانون
ساز اسمبلی ہی ختم کر دی گئی ہے۔ گورنر اور وزیراعلیٰ کی جگہ دو لیفٹننٹ
گورنر حکمران ہیں۔ اب کون کشمیرکی آواز بلند کرے گا۔ سلامتی کونسل ایک
مشاورتی اجلاس سے آگے نہ بڑھ سکی۔ جب کہ اس کے سامنے متنازعہ علاقے کا
بھارت کے حلیہ ہی بدل دیا۔
کشمیری بھارت کے اس فیصلے کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کر سکتے۔ ان سے
اپنے حقوق کے تحفظ کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا مسلسل حقائق کو
مسخ کر رہا ہے۔ بھارت سپریم کورٹ بھی کشمیریوں کو تین ماہ گزرنے کے باوجود
کوئی ریلیف نہیں دے سکی ہے۔ بھارت کے تمام ادارے کشمیریوں پر مظالم کو جائز
قرار دے رہے ہیں۔ بھارت کے عوام کشمیریوں کے حقوق پامال ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
بھارت نے کشمیر کی زمین کو فتح کر لیا ہے مگر وہ کشمیریوں کو کبھی بھی شکست
نہیں دے سکتا۔ کشمیریوں میں بھارت کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
فوجی قبضے اور طاقت سے کشمیریوں کو غلام بنانے سے دہلی کچھ حاصل نہیں
کرسکتا۔ کشمیر کے اندر ایک لاوا پک چکا ہے۔ جو کبھی پھوٹ پڑے گا۔ کشمیری
کسی موقع کے منتظر ہیں۔ کشمیر میں ایک طوفان ہے جو بھارت کو بہا کر لے جائے
گا۔ کشمیریوں کا ردعمل جذباتی نہیں بلکہ بھارت کے لئے تباہ کن ہو گا۔
بھارتی فوج مزید کتنے کشمیریوں کو قتل کرے گی، بھارت کو اپنے تمام مظالم
اور جبر کو جواب دینا ہو گا۔ دنیا کی تاریخیں صاف بتا رہی ہیں کہ مظالم کا
ردعمل کتنا سخت ہوتا ہے۔ بھارتی پالیسی ساز کشمیر کی معیشت کی تباہیسے
مزاحمت کو کچلنا چاہتے تھے، مگر بھارتی پالیسی اس کی معاشی تباہی کا پیش
خیمہ ثابت ہو گی۔
|