انمول ہیرا

چلئے آج لمبی چوڑی کہانی کوچھوڑ دیتے ہیں،جوہوگادیکھاجائے گا۔پچھلے دنوں میں نے جوکچھ پڑھااورسنا،آپ سے کہہ سن لیتا ہوں۔ جرأت بھی دل سوزی،شفقت اوررحم دلی کی طرح انسانی معراج کاایک زینہ ہے۔آج تک کوئی جرأت اوربہادری کے بغیرترقی کی منازل طے نہیں کرسکا۔جرأت اس تین منزلہ مکان کانام ہے جس کے اندرانسان بستاہے۔انسانی وجودکے تین حصے ہیں : پہلاجسمانی،دوسراذہنی اورتیسراروحانی۔ان تینوں حصوں بہت یامنزلوں کاہونا ضروری ہے کہ اس کے بغیرانسان کی زندگی کا آگے بڑھنا،اس کانشوونماپاناناممکن ہے۔جرأت آپ سے تقاضہ کرتی ہے کہ آپ اپنے اوردوسروں کے حقوق کیلئے کھڑے ہوجائیں اورانہیں منوانے کیلئے سینہ سپرہوجائیں۔جرأت آپ کومجبورکرتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو،اپنے معاشرے کو،اپنے ملک کوتعمیر کرنے کیلئے سختی اورشقاوت کی بجائے محبت اورشفقت سے کام لیں،تشکیک کی بجائےایمان کے اندرزندہ رہیں۔ مایوسی کے مقابلے میں امیدکے سہارے،مشکلات کے نیچے دبنے کی بجائے ان پر حاوی ہوکرخوداعتمادی کی جرأت پیداکریں ۔غلطیاں تسلیم کرنے کی جرأت اور خود کوکامل نہ پاکررونے بسورنے سے احترازکریں۔یہ ہیں صحیح جرأت کےمظاہر!

باوجوداس کے کہ آپ اپنے اندرایک جزیرہ ہیں لیکن یہ جزیرہ انسانوں کی دنیامیں آباداوران کے درمیان واقع ہے۔کسی نے کہا ہے کہ ہم فکرمندنہیں ہوں گے توبھوکے مرجائیں گےاوراگرفکرکرتےرہیں گےتوپاگل خانے میں جاکرفوت ہوجائیں گے۔زندگی ان دنوں اس قدرمشکل ہوگئی ہے کہ ہمیں ڈھنگ سے فکرکرنابھی نہیں آتا۔ہم بھارتی حملہ آوروں کی فکرکرتے رہیں گے اور اپنے پڑوسی کی کارکے نیچے آکردب کرمرجائیں گے۔ہم ہوائی جہاز کےکریش سے خوفزدہ رہیں گے اورسیڑھی سےگرکرفوت ہو جائیں گے۔ہم دوسروں سے ورزش نہ کرنے کی شکائت کرتے رہیں گے اورگھرکے سامنے لگے ہوئےلیٹربکس میں خط ڈالنے کیلئے گیراج سے کارنکالیں گے۔ہم فکرمندی کے فن سے بھی ناآشناہوگئے ہیں اورہم صحیح فکرکرنابھی بھول گئے ہیں۔فکرکرنا ایک اچھی بات ہے اوراس سے بہت سے کام سنورجاتے ہیں۔بچے پل جاتے ہیں،گھرچلتےہیں،دفترکانظام قائم ہوتاہے،بزرگوں کی نگہداشت ہوتی ہے۔فکرمندی ایک صحت منداقدام ہے،یہ کام کرنے پراکساتی ہےلیکن سب سے ضروری فکراپنی روح کی ہونی چاہئےاورسب سے اہم فیصلہ یہ ہوناچاہئے کہ ہم اپناابدکہاں گزاررہے ہیں اورکیساگزاررہے ہیں۔یہ سوچناچاہئے کہ اگرہمیں ساری دنیاکی دولت مل جائےاورہماری روح میں گھاٹاپڑجائے،توپھریہ کیساسوداہے؟

انسان ضرورت سے زیادہ فکرکیوں کرتاہے؟یہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان خودکوخداسمجھناشروع کردے اب ہرشئے کا بوجھ میرے کندھوں پرہے۔انسان خداکابوجھ بھی اپنے کندھے پراٹھاناچاہتاہے جووہ کبھی بھی نہیں اٹھاسکتا۔اس فکرمندی کے وجودمیں آنےکی وجہ ایک چھوٹاسالفظ”اگر” ہوتی ہے۔اگریہ ہوگیا،اگروہ ہوگیا،اگراس نے یہ کہہ دیا،اگرلوگوں نے باتیں بناناشروع کردیں!!!

ایک اعلیٰ عہدے پرفائزاپنے اندیشوں اورفکرمندیوں کی ڈائری لکھاکرتے تھے جن سے وہ خوفزدہ رہتےتھے۔سال بعدجب ڈائری دیکھتےتوان ہزارہااندیشوں اورفکروں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ان کوچھوکرگزرے تھے۔اس کے مقابلے میں ایک دنیاوی طور پران پڑھ عورت،جوبھرپورجوانی میں بیوہ ہوگئی۔چھ معصوم بچوں کابوجھ،کام نہ کاج………!کہنےلگی کہ میں نے صرف دو روپے کےکاغذپراپنے اللہ سے شراکت نامہ کرلیا۔ایک بھوکےآدمی نے صدا لگائی،جیب میں دوہی روپے تھے،نکال کراس کے ہاتھ پررکھ دیئے۔اس طرح میرے رب سے میری شراکت شروع ہوگئی اورکہاکہ کام میں کرتی جاؤں گی،فکرمیری جگہ تم کرنا۔ میراکریم ورحیم رب راضی ہوگیا،بس اسی دن سے ہماراشراکت کاکاروباربڑی کامیابی سے چل رہاہے۔

رات کوسونے سے پہلے میں یہ ضروردعاکرتاہوں:یااللہ!دن میں نے پورازورلگاکرتیری مرضی کے مطابق گزاردیا،اب میں سونے لگاہوں،رات کی شفٹ اب توسنبھال،بڑی مہربانی ہوگی۔جب ہم ایساکچھ کرتے ہیں توہمارااندربتاتاہے کہ یہ توگناہ ہے،تو ہم اپنی عزتِ نفس سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔پھر اپنے ساتھ رہنابھی مشکل ہوجاتاہے پھرہم ندامت کامقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔زندگی مشکل ہوجاتی ہے،ضمیرہروقت ملامت کرتارہتاہے۔اب ہم تویا اس کوبھول جائیں،یااسے دماغ سے نکال دیں لیکن یہ دونوں کام ہی مشکل ہوجاتے ہیں۔اس کے برعکس ایک فعلِ ندامت،پشیمانی،اورتوبہ ہے۔ جب ہم اپنے کریم رب کے سامنے اپنی تمام بے بسی ، ندامت کے احساس کے ساتھ سجدے میں گرکرتوبہ کی درخواست اپنے آنسوؤں کی تحریرکی شکل میں، اس کی عدالت میں اس کی رحمت کااستغاثہ دائرکرتے ہیں،تونہ صرف توبہ قبول ہوجاتی ہے بلکہ اگراس مناجات میں اخلاص بھی ہوتوہم بھی قبول ہو جاتے ہیں۔ پھرزندگی آسان ہوجاتی ہے۔ بابااقبال نے تواپنی منظوم زندگی کاآغازہی اس پہلےشعرسے کیاتھا:
موتی سمجھ کرشانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جوتھے مرے عرقِ انفعال کے

دوستی کیاہے؟اگرمیں تمہارادوست ہوں اورتم میرے دوست ہو،تویہ ہمارے لئے ایک بڑااعزازہے کہ ہم نے دنیاکے بڑے بڑے مشہور،لائق فائق اعلیٰ درجے کے لوگوں کوچھوڑکرایک دوسرے کوپسندکیا۔کیاپاکیزہ رشتہ باندھا،واہ واہ۔دوستی کارشتہ عمر بھر چلتاہے۔جوان ہوئے توشادی ہوگئی۔بہن بھائی،عزیزرشتہ دار،گھر،محلہ،شہرچھوٹ گیا۔بوڑھے ہوئے تواولاد چھوڑ گئی، لیکن دوستی میں یہ تبدیلی نہیں آئی،دوستی کارشتہ بے لوث ہوتاہے،یایوں کہئے کہ یہ روحانی ہوتاہے۔دیگررشتوں میں تو کچھ جسمانی ضرورتوں کو پورا کرناپڑتاہے،مگردوستی میں صرف روح کی ضرورتوں کوپوراکرنے کاتقاضہ ہوتا ہے۔روحیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آغوش ہوجاتی ہیں اور جسمانی تقاضہ ایک بھی نہیں ہوتا۔والدین بچپن میں ملتے اورپھرساتھ رہتے ہیں۔پھروہ ہمیں یاپھرہم ان کوچھوڑدیتے ہیں۔بیوی یاشوہرجوانی کی عمرمیں ملتے ہیں ۔بچے شادی کے بعدکی عمر میں نصیب ہوتے ہیں۔اسی طرح بہن بھائی بھی ہوتے ہیں مگروقت کے ساتھ ساتھ ہرکوئی اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ میں مگن ہوجاتے ہیں۔
بدن کے شورمیں گم تھی سماعت
نہ سمجھی روح کی فریادہم نے
تلاش شادمانی میں شب وروز
رکھاخودکوبہت ناشادہم نے

لیکن دوستی کیلئے عمرکی کوئی قیدنہیں۔آپ 8کے ہوں یا80 کے،9کے ہوں یا90 کے،16کے ہوں یا60کے،آپ میں اگر اخلاص ہے ،اوراگرآپ دوستی کامطلب جان گئے ہیں توپھرآپ کسی بھی عمرمیں دوستی کرسکتے ہیں،دوست بن سکتے ہیں۔ ایمان کیاہے؟ایک اختیارہی توہے۔ ایک”چوائس”ہی توہے۔کوئی مباحثہ یامکالمہ نہیں،یہ ایک فیصلہ ہے، قطعاًمباحثہ نہیں ہے۔ ایک کمٹمنٹ ہے،کوئی زبردستی نہیں ہے۔یہ ہمارے دل کے خزانوں کوبھرتاہے اورہماری ذات کومالامال کرتارہتاہے۔ بالکل ایک پرخلوص دوست کی طرح۔پھردوستوں میں تحائف کے تبادلے بھی ہوتے ہیں۔یادیں ایک بہترین اورخوبصورت تحفوں کی طرح ہردم آپ کو گھیرے رکھتی ہیں،اوروہ تحفہ جس میں کچھ قربانی شامل ہوجائے،وہ تحفہ جس نے آپ کوجینے کاڈھنگ سکھایاہو،جس نے آپ کوسراٹھاکرچلنے کافخرعطاکیاہو،وہ تحفہ توپھرسرمایہ حیات بن جاتاہے۔پھرایسے تحفے کی حفاظت کیلئےایک جان توبہت کم محسوس ہوتی ہے۔اگرربّ کریم دوست ہیں توپاکستان اس رحیم دوست کاسب سے بڑا قیمتی اورنایاب تحفہ ہے۔ایک ایساانمول ہیرا ہے جس نے آپ کے سرپررکھے ایمانی تاج کوباقی دنیاسے ممتازکررکھاہے۔کہیں ایساتونہیں کہ آج کسی کمہارکے ہاتھ لگ گیاہو اوروہ اس کی قدرنہ پہنچانتے ہوئے اس کواپنے گدھے کے گلے کی زینت بنادے؟جلدی کریں،وقت بہت کم ہے۔اپنے دوست کے تحفے کی قدرنہ کی توپھردوستی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا

اجازت دیں۔میں تومنادی کرنے آیاتھا۔ملتے رہیں گے جب تک سانس کی ڈوربندھی ہوئی ہے۔کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گامیرے رب کاجو الحی القیوم ہے۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے،جوچاہولگادوڈرکیسا
گرجیت گئے توکیاکہنا،ہارے بھی توبازی مات نہیں

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315017 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.