قومی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم
نریندر مودی نے اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی کا دورہ کرکے کہا تھاکہ ان کی
حکومت کے مالی سال 2019-20ء کے بجٹ میں پانچ سال کے اندر ملک کی معیشت کے
حجم کو فی کس آمدنی میں اضافی، صرفہ اور پیداواری صلاحیت کو بڑھاکر تقریباً
دوگنا یعنی 5 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچانے کا لائحۂ عمل تیار کیا ہے۔
انہوں نے عالمی مثالیں دے کر بتایا کہ بعض ممالک نے فی کس آمدنی کی اساس پر
مینڈک کی طرح چھلانگ لگاکر ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک کا مقام حاصل کرلیا
ہے اورہندوستان کے لیے یہ کوئی مشکل ہدف نہیں ہے۔مودی جی منطق یہ تھی کہ جب
فی کس آمدنی بڑھے گی تو صارفین کی قوت خرید کو بھی تقویت حاصل ہوگی جس سے
’’طلب‘‘ میں اضافہ ہوگا۔ ’’طلب‘‘ کو پورا کرنے کیلئے پیداواری صلاحیت بڑھے
گی اور بچت کو وسعت حاصل ہوجائے گی ۔ ان حسین خوابوں کے ساتھ بجٹ پیش ہوا
اور مندی کی لپیٹ میں آگیا ۔بھکمری کے عالمی جائزے نے ان بلند بابگ دعووں
کی قلعی کھول دی۔
ویلتھ ہنگر ہلفے یا کنسرن ورلڈوائڈ ایک عالمی شہرت یافتہ ادارہ ہے جو دنیا
بھر میں بھکمری جیسے اہم مسائل پر تحقیق کرکے اپنی رپورٹ شائع کرتا ہے۔ اس
نے دنیا کے 117 ممالک کا جائزہ لے کرجو رپورٹ شائع کی وہ تشویشناک ہے۔ اس
کے اندرپہلے تو نہایت معروضی انداز میں غذائیت کی کمی ، بچوں کی اموات ،
پانچ سال تک کے کمزور بچے اور بچوں کی جسمانی نشوونما میں رکاوٹ کی بنیاد
پر گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) مرتب کی گئی اور اس کے بعد مختلف ممالک
کی صورتحال کا موازنہ پیش کیا گیا ۔ اس فہرست کو مرتب کرتے وقت یہ بھی
دیکھا گیا کہ ملک کی کتنی آبادی مناسب مقدار میں کھانے سے محروم یعنی غذائی
قلت کا شکار ہے اور یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ پانچ سال سے کم عمر کے کتنے
بچوں کی لمبائی اور وزن ان کی عمرکے حساب سے کم ہیں۔ اس کے ساتھ بچوں کی
شرحِ اموات کے اعداد وشمار کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس سائنٹفک کسوٹی کے
ذریعہ بھوک کے خلاف بیداری کی جدو جہد کو عام فہم بناکر عوام و خواص کی
توجہ اس جانب مبذول کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
بھکمری کے حوالے سے تیارشدہ اس فہرست میں ۵ ٹریلین کا خواب دیکھنے والے
ہندوستان کا نمبر پیچھے سے سولہواں ہےیعنی صرف پندرہ ممالک کی حالت ہم سے
خراب پائی گئی۔ ہندوستان دنیا کے ان 45 ممالک میں شامل ہے جہاں ‘ بھکمری
کافی سنگین سطح پر ہے‘۔ ایسے میں اگر قومی معیشت ۵ کے بجائے ۱۰ ٹریلین بھی
ہوجائے اور ملک کی مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریاں دولت کے دباو سے پھٹ
پڑیں تب بھی کیا فرق پڑتا ہے؟ 2018 کے انڈیکس میں ہندوستان 103ویں مقام پر
تھا لیکن ممالک کی تعداد 119 تھی ۔ اس بار چونکہ دوممالک کم ہوگئے اس لیے
ہندوستان ایک پوزیشن اوپر اٹھ سکا ۔ ویسے تو جب بھی زعفرانی دانشور وں کو
تکبر کا نشہ چڑھتا ہے تو وہ خودساختہ جگت گرو بن جاتے ہیں لیکن موازنہ کا
موقع آتا ہے تو یوروپ اور امریکہ کے بجائے ایشیائی ممالک سے موازنہ کرکے
اپنے آپ کو خوش کرلیتے ہیں ۔ اس محاذ پر بھی مشکل پیش آتی ہے تو پڑوسی
ممالک خاص طور پر پاکستان کے ساتھ موازنہ کرکے پیٹھ تھپتھپائی جاتی ہے لیکن
افسوس کہ بھکمری کے معاملے میں ہندوستان اپنے پڑوسی ممالک سے بھی پیچھے رہ
گیا ۔
غربت یا بھکمری کوعام طور پر آبادی سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ چین کی آبادی
ہندوستان سے زیادہ ہے اس کے باوجود بھکمری کے معاملے میں وہ 25ویں مقام پر
یعنی ہم سے بہت آگے ہے۔ پڑوسی ممالک سے موازنہ کیا جائے تو قریب ترین ملک
پاکستان ہے جو 94ویں مقام پر براجمان ہے۔ اس کے بعد 88ویں مقام پر موجود
بنگلہ دیش کا نمبر آتا ہے۔ نیپال کی حالت ان تینوں سے بہتر ہے کیونکہ وہ
73ویں نمبر پر ہے۔ میانمار 69ویں پرہونے کے سبب اپنے پڑوسیوں میں چوتھا ہے
اور سب سے اچھی حالت میں 66ویں مقام پرسری لنکافائزہے۔ اس طرح چین کے علاوہ
جو جتنا بڑا ملک ہے اس کا مسئلہ اتنا ہی زیادہ سنگین ہے۔ ہندوستان کے اندر
یہ صورتحال کیوں نہیں بدلتی اس کو اترپردیش کے سیتاپور میں ایک سرکاری
اسکول کے اندر پیش آنے والے سانحہ کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے جہاں بچوں کو
مڈ ڈے میل میں مبینہ طور پر پانی میں ہلدی ڈال کر چاول پروسنے کا معامل ایک
ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے سامنے آیا ہے جبکہ مینوکے مطابق بچوں
کو سبزیوں کے ساتھ چاول پروسا جانا تھا ۔
اصلاح پذیر معاشرے میں تو یہ ہونا تو چاہیے کہ جب کوئی سماجی کارکن اس طرح
کی ویڈیو بناکر ذرائع ابلاغ میں شائع کرے تو اس کی پذیرائی ہو اوراس کے لیے
ذمہ دار لوگوں کو سزا دی جائے لیکن انتظامیہ اسے سازش قرار دے کر لیپا پوتی
کرنے لگتا ہے ۔سیتا پور سے قبل مرزا پور ضلع کے ایک سرکاری اسکول میں مڈ ڈے
میل میں بچوں کو نمک روٹی کھلائے جانے کی ویڈیوبنانے والے صحافی کے خلاف
ایف آئی آر درج کر لی گئی تھی۔ اس طرح بچوں کو بھوکا مارنے والے لٹیروں کو
تحفظ فراہم کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے اور اس طرح کے سماجی مسائل حل
ہونے کے بجائے سنگین ہوجاتے ہیں ۔ وطن عزیز میں اہل سیاست کے ہاتھوں ستم
گزیدہ معصوم بچوں پر بیدل حیدری کے یہ اشعار صادق آتے ہیں ؎
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ان ہواؤں سے تو بارود کی بو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے
|