فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

ہر سال 9 نومبر کو شاعرمشرق علامہ محمد اقبالؒ کے یوم پیدائش کو عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کی شہرت جہاں مسلمانوں کے موجودہ دور میں مصلحانہ کردار کی تھی وہیں قیامِ پاکستان میں ایک ممتاز شخصیت کی تھی کیونکہ انہوں نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کی الگ مملکت کا پورا نقشہ پیش کر دیا تھا اور پھرمحمد علی جناحؒ کو جو مستقل طور پر لندن کوچ کر گئے تھے‘ خط لکھ کر ہندوستان واپس آنے اور مسلمانوں کی قیادت کرنے کی ترغیب دی تھی۔علامہ اقبالؒ 9 نومبر 1877کو برطانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔والدین نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔

علامہ اقبالؒ علوم حاضرہ کے متعلق فکر کی اُ ن بلندیوں تک پہنچے جسے بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام میں ایسا مفکر کبھی پیدا نہیں ہوا ۔مفکر کی سوچ اس کے جذبات و خیالات ہی اس کی فکر کی اساس ہوتی ہے بلا تکلف اگر تخیلات کو سمجھا نہ جاسکے ۔تو علامہ اقبالؒ کے کلام کو محض شاعری سمجھنا غلط فہمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ شاعر نہیں بلکہ ایک مفکر تھے جنہوں نے اپنے زوایہ نگاہ سے قرآن کریم کے اُن زاویہ کو مرکوز کیا جو سمجھ و شعور کے لئے ’’خودی ‘‘ کے استعارا یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر اقبال کی فکر کو اقبال کی نظر سے دیکھا جائے تو انسان محسوس کرے گا کہ انسان کن بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒکی شاعری کو محض کسی شاعر کا ایسا تخیل سمجھنا جس میں فرضی تخیلات ہوں تو اس صورت میں فکر اقبال سمجھ میں نہیں آسکتی۔ اقبالؒ کے تمام کلام کے سوزو گداز میں محبت رسول ﷺ کا جذبہ اطاعت ہے ۔ اسی ذات گرامی ﷺ کی شعلہ رز محبت ہے جس نے اقبالؒ کو اس انداز سے گداز کررکھا ہے کہ اس کے بربچ ہستی کے کسی تار کو چھیڑ کر نغمہ پیدا ہوجاتا ہے ۔

کسی مفکر کے پیغام کا صحیح مفہوم سمھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے فکر کے سرچشمہ کے متعلق صحیح معلومات بہم پہنچائی جائیں ، اس لئے جب تک اس کی اصل حقیقت معلوم نہ ہوجائے ، جس سے اس کی فکر کی شاخیں چھوتی ہیں اس کی ماہت اور اہمیت کا صحیح صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا ۔ علامہ اقبالؒکو سمجھنے کی کوشش میں اکثر مفکرین اساس فکر کو غیر متعین و مبہم چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پیغام کو سمجھنے میں دشوار ی پیدا ہوتی ہے ۔ علامہ اقبالؒ کی فکر کو سطحی انداز میں لینے سے فکر کا معمہ گھمبیر ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان کے پیغام پر قیاس آرائیوں سے دبیز پردے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ واضح پیغام کو غیر مبہم سمجھنے کی غلطی سے قیاس و گمان کی گنجائش بھی نہیں رہتی ۔ علامہ اقبالؒ کی فکری اساس ایک محکم اور مستقل حقیقت پر ہے جو مشرق و مغرب سے متاثر نہیں ہوئی تھی بلکہ تائید و تشریح میں مشرق و مغرب کو استشہاداََ پیش کرتے تھے ، لیکن ان کے قیاسات و مزعومات سے ملوث نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے تھے کہ جس مقام سے وہ بات کررہے ہیں وہ حکمت و فلسفہ کی حد سے ماورا ہے ۔
حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہل جنوں کی تدبیریں
علامہ اقبالؒ نے اُن چیزوں کو جو خلاف ِ حقیقت ہیں ان کے فریب کو بھی بے نقاب کیا ۔
طلسم علم حاضر راشکستم
ربودم دانہ ودامش گشم
خداداند کہ مانند ِ براہیم
بہ نارِا وچہ بے پروا نشستم

یہاں ان مفکرین کے لئے سوال اٹھتا ہے کہ جب علامہ اقبالؒ نے اپنے فکر کو کہیں سے مانگے ہوئے افکار و تخیلات سے متاثر نہیں ہونے دیا تو وہ کون سے حقیقت ثابتہ تھی جس پر ان کی فکر کی اساس ہے ۔ انہوں نے ظن وقہاس یا تاویل و تعبیر کے کسی گنجلگ سفر کے لئے گنجائش کو جگہ ہی نہیں دی ۔ ان کا پیغام سب سے پہلے منضبط صورت میں اسرا رو رموز میں ہمارے سامنے آتا ہے جو ان کی سب سے پہلہ تصنیف ہے ، اس مثنوی کے آخر میں انہوں نے ذات اقدس و اعظم علیہ التحیۃ والسلام کی بارگاہ میں ایک التجا پیش کی ہے جو ان کے عشق کے منتہٰی ، ان کی آرزوں کی محور اور ان کی تمناؤں کی مرکز تھی۔
گردالم آئینہ ء بے جوہر است وربحر فم غیر قرآں مضمر است یعنی اگر میرے پیغام میں قرآن کے سوا کچھ بھی اور ہے تو اے ختم رسل ؑ دانائے سبل ، مزید فرماتے ہیں کہ اگر میرا پیغام قرآن کا ہی ترجمان ہے تو ۔۔۔
عرض کن پیش خدائے عزوجل
عشق من گرددہم آغوش عمل

یہ ممکن ہے کہ اقبالؒ کے فہم کے کسی کو اختلافات بھی ہوں لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی فکر کا اساس کچھ اور رہی ہوگی ۔ ان کی نظم خضر راہ کا مطالعہ ان کے دعوی کا ثبوت ہے کہ ان کی پیغام میں قرآن کریم کے پیش کرنا رہا ہے ۔لہذا ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ کسی مفکر کے پیغام کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے اس کے پیغام کی اساس و ماخذ کو سمجھنا ہوگا ، علامہ اقبالؒ کے کلام کو بھی سمجھنے کے لئے قرآن کا پیغام سمجھے بغیر بالا ہی بالا گذر جانا حقیقت سے دور ہی رہے گا ۔ انہی سے متعلق اقبالؒ نے کہا تھا کہ۔۔
کم نظر بیتابی جانم نہ دید
آشکارم دید د پہنانم نہ دید۔

1938میں پہلا یوم اقبال منایا گیا تھا ۔ اقبال کے پیام کے سرچشمہ میں افلاطون ، فارابی ، کانٹ اور ہیگل کے تخیلات نہیں تھے بلکہ براہ راست خمستانِ حجاز سے مئے سخن کے آبگینے رواں ہوتے تھے۔علامہ اقبالؒ نے غیر اسلامی تصورات پر ضرب لگائی اور اس اجتماعی نظریہ کو بیدار کیا جو مسلمانوں کی نگاہ سے اوجھل ہوتا جارہا تھا ۔ اقبال کے اس کلام پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت بے نقاب ہوتی ہے کہ آپ کے پیام کا نقطہ ناسکہ ملت اور مرکز اور اسلام دی الحقیقت کا نام ہے ۔
اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
چھوڑ کر گُل کو پریشان کاروانِ بو ہوا
پھر کہیں سے اس کو پیدا کر بڑی دولت ہے یہ
زندگی کیسی جو دل بے کانہ پہلو ہوا
آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا رسوا تو ہوا
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

19ویں صدی کے اخیر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مسلمانوں کی حالت بعینہ وہی ہوچکی تھی جس کا نقشہ قرآن کریم میں داستان بنی اسرائیل کی شکل میں کھینچا ہے۔غلامی در غلامی ، حوصلے پست، دماغ فکر سے عاری ، نگاہیں بے نور ، دل سوز سے خالی ایک قوم کے بجائے ایک راکھ کا ڈھیر تھی جس میں چنگاری بجھ چکی تھی ، مخالف ہوائیں جہاں چاہیں اڑ ا کر لے جاتی تھی۔علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام سے اس راکھ میں چنگاری پیدا کی ، حیات نو کے آثار پیدا کئے ، قرآن کریم کے حقائق و مراعف متعارف کرائے اور اس فلسفہ کو پیش کیا کہ قوم کی تقدیریں ہمیشہ ابھرنے والی نسلوں کے ہاتھوں میں ہوا کرتی ہیں۔ اقبالؒ نے قوم کے نوجوانوں کو بیدار کیا کوہ شکن ارادوں کی رہین منت وہ ہیں جس سے قوموں کی تخلیق ہوتی ہے۔
جواں مردے کہ خود فاش بیند
جہان کہنہ را ناآفریند
ہزاراں انجمن طوافش
کہ اوباخو ہشتن خلوت گزیند

علامہ اقبالؒ کا مقصد وہی ہے جو اس مردمومن نے1930میں الہ آباد کے مقام پر قوم کے سامنے پیش کیا جو بعد میں پاکستان کے درخشندہ محبوب صور ت میں تکمیل پذیر ہوا ۔ اس وقت قوم کے نوجوانوں کے ذمہ صرف یہ فریضہ تھا کہ وہ اس سر زمین کو جوان کے لئے مقدرہوچکی تھی ، انگریزوں اور ہندو کے قبضہ سے نکال کر اپنے حیطہ اقتدار میں لے آئیں ۔ وہ مقصد حاصل ہوگیا ، لیکن اب نوجوانان ملت کے سامنے اس سے بھی بلند و بالا اور اشد و اہم فریضہ آگیا ہے کہ خدا کی زمین جو انہیں حاصل ہوگئی ہے اس میں خدا کے ابدی قانون کو رائج کریں ۔ جس کے اتباع میں شرف انسانیت کے ارتقا کا راز پوشیدہ ہے یہ کام قوم کے نوجوانوں کے ہاتھوں ہی سر انجام پائے گا ، دنیا کے نظام کہن کی جگہ جہان نو کی تعمیر قوم کے نوجوانوں کے قوت بازو ہی سے ممکن ہے ، اس لئے اقبالؒ کی روح آج پاکستان کے ہر نوجوان سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ۔۔۔
اٹھ کہ اب بزم جہان کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 263610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.