بابری مسجد کا فیصلہ اور مسلم نوجوان

بابری مسجد کے فیصلے کے بعد بہت سارے تبصرے ماہرین کی جانب سے آرہے ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے، یہ اس بات کا ثبوت ہیکہ ملت اسلامیہ اپنے کاموں کا جائزہ لینے اور اسکا تجزیہ کرنے کے لئے فکر مند ہیں کہ آیا کونسا ایسا مقام ہے جہاں ہم سے غلطی سرزد ہورہی ہے جس کے نتیجہ میں ہمارے حصہ میں ذلت و رسوائی آرہی ہے

بابری مسجد کے فیصلہ پر قانون کے ماہرین ہی بہتر انداز میں بات کرسکیں گے، اس کی رپورٹ پر ممکن ہے کچھ دنوں میں ماہرینِ قانون مطالعہ کے بعد اس کا خلاصہ بیان کریں گے. لیکن یہ ضروری ہیکہ ملت کا ہر فرد اس مقدمہ کے نکات کا ضرور مطالعہ کرے، جو پڑھنا جانتے ہیں وہ دوسروں کو بھی اس سے واقف کرائیں تاکہ اس تاریخی مقدمہ میں مسلم فریق نے جس سخت محنت سے حصہ لیا ہے اور جتنی کوششیں کی ہیں اس سے واقفیت ہوسکے.

اس مقدمہ کے بعد ظاہر سی بات ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو شدید تکلیف پہنچی ہے، جو کہ ایمانی تقاضا ہے، لیکن اس تکلیف کو صرف بابری مسجد تک محدود کردینا ایمان کا تقاضہ نہیں ہے، بلکہ ہر مسجد کے لیے یہ درد ہو، خاص کر گھر کے قریب والی مسجد کے لیے بھی یہی کیفیت ہو، اس کو آباد کرنے کی کوشش کریں، اس مسجد کو اسلامک سنٹر بنانے کی فکر کریں، اس مسجد کو غیر مسلم دوستوں کے لئے کھلا رکھیں تاکہ وہ بھی مساجد کے بہترین سسٹم (جو کہ آج مفقود ہے جسکی از ثر نو بازیافت کی ضرورت ہے) کو دیکھیں اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو سکیں.

بابری مسجد کی شہادت ہمارے دلوں میں تاحیات تازہ رہے گی، یہ وہ زخم ہے جسے آزاد ہندوستان میں ہندو شدت پسندوں نے مسلمانوں کو دیا، صرف مسجد کو نہیں ڈھایا بلکہ اس ملک کے سیکولرازم کو بھی ڈھا دیا اور اس بوسیدہ سیکولرازم کے ڈھیر کو زینہ بناتے ہوئے آج حکومت پر قابض ہیں. ہماری ذمہ داری ہیکہ ہم آنے والی نسلوں کو جنھوں نے نہ تو بابری مسجد کی شہادت دیکھی اور نہ ہی ان حالات سے واقف ہیں ان کو اس سے واقف کروایا جائے اور ہمیشہ اس تاریک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے ہندو شدت پسندوں کی حقیقت بتائیں اور عام ہندوؤں کو بھی ان شدت پسندوں کے مکر سے بچانے کی فکر کریں.

ایسے حالات میں بالخصوص نوجوانوں کے لئے کچھ نکات تحریر کیے جارہے ہیں.

سب سے پہلا کام جو نوجوانوں کو کرنا ہے وہ یہ کہ نوجوان اپنی سیرت و کردار کو صالح بنائیں، جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، جس اسکول، کالج میں ہم پڑھتے ہیں وہاں کا سب سے مضبوط کردار والا نوجوان کوئی ہو تو وہ مسلمان ہو، نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی نبوت سے قبل کی سیرت ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح آپ صلعم نے اپنے آپ کو معاشرہ کا سب سے صالح نوجوان بنایا تھا.

دوسرا اہم کام یہ ہیکہ نوجوان اپنے صلاحیتوں کو نشوونما دیں، آج جس چیز کی کمی امت میں ہے وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور صالح نوجوان ہے، نوجوان جب نیک سیرت ہوں گے اور اپنے میدان کے ماہر ہوں گے تو دنیا آپ کی طرف متوجہ ہوگی، آج دنیا اخلاقی بحران کا شکار ہے، اگر مسلم نوجوان ایسے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گا تو ہر کوئی ہمارے کردار اور سیرت سے متاثر ہوگا.

تیسرا اہم کام یہ کہ مسلم نوجوان مفاد پرست سیاسی قائدین کا شکار بننے اور ان کے خوشامدی بننے کے بجائے اپنے آپ میں قائدانہ صلاحیت پیدا کریں، اپنے اطراف میں غریبوں، بے سہارا اور بے یار و مددگار لوگوں کا سہارا بنیں، اپنے علاقہ کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کریں ان کے حل کے لیے کوشش کریں تاکہ مفاد پرست سیاست دانوں کے فریب سے عام طبقہ محفوظ رہ سکے. اور ہر طرف صالح نوجوان قائدین جو اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو اور دور جدید کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کہ قوت اپنے اندر رکھتے ہوں سامنے آ سکیں.

ان حالات کو یاس و قنوطیت کے بجائے امید و روشن مستقبل کا ذریعہ بنائیں، اسلام نے ہر حالت میں مایوسی سے بچے رہنے اور توکل اور کوشش کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے، یہی وہ بڑی چیز ہے جو امت مسلمہ کو سخت سے سخت حالات کے بعد بھی دوبارہ سے تازہ دم کردیتی ہے، اگر کوئی دوسری قوم پر اس ظلم کا دس فیصد بھی ظلم کیا جاتا تو وہ کب کا اپنا وجود ختم کردیتی.
 

Mohammed Faraz Ahmed
About the Author: Mohammed Faraz Ahmed Read More Articles by Mohammed Faraz Ahmed: 10 Articles with 9238 views Working as Assistant Editor of Rafeeq e manzil, Urdu Monthly, New Delhi, India. Student of Political Science & History, interested in current affairs,.. View More