حضرت علامہ شیخ محمداقبال ؒ مفکرپاکستان،شاعر اسلام، شاعر
مشرق،فلسفی شاعر، حکیم الامت پر ان کے یوم پیدائش پر مضمون لکھنے کے لیے
لیپ ٹاپ آن کیا۔اپنی بہو سے کہا کہ سامنے الماری سے علامہ اقبال ؒ سے متعلق
کتابیں اُٹھا لاؤ۔ اُس نے نصف درجن سے زاہد کتابیں اُٹھا کر میرے پلنگ کے
سرہانے رکھ دیں۔اصل میں میرے سونے کے کمرے میں ہی میری لا ئیبریری ہے۔میں
کمرے میں سامنے رکھے کمپویٹر کو کرسی پر بیٹھ کر استعمال کرنے کے قابل کرنے
نہیں رہا۔کالم لکھنے ، نیٹ سے مواد تلاش کرنے اورخبریں سننے کے لیے لیپ ٹاپ
ہی استعمال کرتا ہوں۔ کمر میں تکلیف ، چلنے پھرنے سے معذور اور دوسری
بیماریوں کی وجہ سے دونوں ہاتھوں سے لکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ صرف سیدھے
ہاتھ کی شہادت انگلی سے لکھ سکتا ہوں۔میں اپنے پلنگ پر دونوں ٹانگیں لمبی
کرکے ، کبھی سمیٹ کے، کبھی ایک ٹانگ سیدھی طرف کر کے، کبھی دوسری سمت طرف
کر کے لکھتا رہتاہوں۔
دوسرسے لفظوں میں پلنگ کا قیدی ہوں۔خیراﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس قابل
بھی ہوں ۔ کالم لکھنے کے لیے نصف درجن سے زاہد کتا بوں کے اوراق اُلٹ پلٹ
کرتا رہا۔کبھی علامہ اقبالؒ کے خطوط کی کتاب ، کبھی ان کی شاعری، کبھی قرآن
اور اقبال وغیرہ کا مطالعہ کیا۔پھر کالم لکھتے لکھتے سارا دن اسی میں گزر
گیا ۔ اس دوران تین مرتبہ لیپ ٹاپ آف ہوا۔ اسی دوران ظہر، عصر اور مغرب کی
نماز کی نمازیں ادا کی۔ جب شیخ عطااﷲ، مسلم یونیورسٹی بھارت کی کتاب’’
اِقبال نامہ ،مجموعہ مکاتیبِ اِقبال‘‘ الٹ پلٹ کی تو پتہ چلا کہ علامہ
اقبالؒ نے سردار عبدلرب خان ،شبلی نعمانی،سید سلیمان ندوی،مولانا شوکت،شیخ
عبداﷲ کشمیری،پیر سید مہر علی شاہ گو لڑوی،بابائے اردو مولوی عبدالحق ،پنڈت
جواہرلعل نہر اورقائد اعظم محمد علی جناح سمیت سو(۱۰۰) سے زیادہ حضرات کو
خطوط لکھے۔ ان میں مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگانے ، جذبہ جہاد سے
سرشارکرنے، خانکاہوں سے نکل کر رسم شبیری پر آمادہ کرنے ،غلامی سے بیزار
ہونے، شاندار ماضی پر فخر کرنے اور فرقہ بازی سے اجتناب کرکے آپس میں کے
اتحاد و اتفاق پیدا کرنے اور آخر میں بانی ِپاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں کو
استعمال کر کے مسلمانانِ برعظیم کو دوقومی نظریہ پر متحد کرکے فرنگیوں اور
ہندوؤں کی سازشوں کا مقابلہ کے آزادی حاصل کرنے ، ایک مثل مدینہ مملکت
اسلامی جمہوریہ سلطنت دلیل اور قانون کی بنیاد پر حاصل کرنے پر اُبھارا۔
پھرعلامہ اقبالؒ کی سوچ اور قائد اعظمؒ کے وژن کے مطابق کلمہ ’’لا الہ الااﷲ‘‘
کی بنیا پر ۱۹۴۷ء میں پاکستان وجود میں آیا۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی ۴؍ اردو۶؍
فارسی پر مشتمل شاعری کی کتابوں میں درج ، تفسیر و حدیث پر مشتمل اپنے
جہادی کلام اور نثری خطبات اور عملی جد وجہید سے سوئی ہوئی مسلمان قوم کو
جگا کر یہود و ، ہنود اور نصارا کے مقابلے پر کھڑا کر دیاتھا۔
اے کاش! پاکستان بننے کے بعد اگر مقتدر حلقے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے برعظیم کے
مسلمانوں کے نعرہ مستانہ ،پاکستان کا مطلب کیا’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کو قبول
کرتے ہوئے عطیہ کے طور پر ایک تشتری میں رکھ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مملکت
اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلمانان برعظیم کو پیش کر دی تھی اگر مقتدر حلقے
مدینہ کی اسلامی فلاحی جہادی ریاست کے نمونے کے طور پر نظام ِحکومت قائم کر
دیتے تو آج پاکستان کی موجودہ حالت نہ ہوتی۔پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے
پاکستان کی شہ رگ کو بھارت میں ضم کر لیاہے۔آزاد کشمیر پر حملہ کر اس کوبھی
بھارت میں ضم کرنے کے لیے سرحد پر بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری کر کے سرحدی
مسلمانوں کو شہید کر رہا ہے۔ وقت کے حکمران بھارت کے ان اقدام کے مقابلے
میں اگر اقوام متحدہ میں اس ایک زور دار تقریر کے علاوہ کوئی ٹھوس عملی
اقدامات کرتے تو آج تین ماہ سے لگے کرفیو کی قید میں تکمیل پاکستان کی جنگ
لڑنے والے کشمیریوں کو حوصلہ ملتا۔ وہ اپنے نوجوانوں کو پاکستان کے سبز
ہلالی پرچموں میں لپیٹ کر دفناتے ہیں۔کشمیری کی عورتیں کرفیو کی نرمی کے
دوران اپنے مکانوں کے دروازے کھول کر کسی محمد قاسم ؒکا انتظار کر رہیں ہیں۔
حکومت تو ایک طرف پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں دارلخلافہ اسلام آباد میں بے
وقت کی راگنی گا کر پاکستان کے وزیر اعظم سے استفعیٰ، نئے انتخا بات اور
اپنی فوج پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔کیا یہ تاتاریوں کے اسلامی د نیا پر
حملے کے وقت علماء کے کوّا حلال ہے یاحرام والی باتیں تو نہیں۔
دوسری طرف حکمرانوں نے پہلے لاڈ میکالے کا نظام تعلیم جو غلامی کی تعلیم
دیتا ہے ابھی ختم نہیں کیا۔ بلکہ جو کچھ قرآن میں بیان کی گئی جہادی اور
علامہ اقبالؒ کی تعلیمات پر مبنی مواد نصاب تعلیم میں کسی مسلمان حکمران نے
ڈالا تھا وہ بتدریج نکال دیاگیا۔اُردو زبان کا نفاذ جو پاکستانیوں میں
اتحاد و اتفاق پیدا کرتا،جو پاکستان کے سارے آئینوں میں بیان کر دیا گیا ہے
آج تک رائج نہیں کیا گیا۔ ملک میں تین قسم کے نظام تعلیم چل رہے ہیں جو قوم
میں اتحاد اتفاق نہیں انتشار پھیلانے والے ہیں ۔ یوم اقبالؒ پر چھٹی ختم کر
کے مسلمانوں کے دلوں سے علامہ اقبالؒ کی مسلم قومیت،جہادی ، غیرت اور اپنے
پاؤں پر کھڑے ہونے کی تعلیمات سے غافل کرنے کی بنیاد ڈالی گئی۔ بھارت شروع
سے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتا رہا اعلانیہ دہشت گردی کرتا رہا ہے۔ اُس
کے سامنے سابقہ حکمران بھیگی بلی بنے رہے۔ آلو پیاز کی تجارت کرتے رہے۔دشمن
کے ہاتھ مضبوط کرنے ے لیے اپنی ہی فوج سے لڑتے رہے۔دنیا کے سینئر صحافی جو
سیاستدانوں کی کرپشن پکڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ انہوں نے دنیا کے حکمرانوں
کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ۴۳۶ لوگوں کے نام آف شور کپنیوں کمپنیوں کے ذریعے
دنیا کے سامنے لائے تھے ۔ان آف شور کمپنیوں میں سابقہ حکمران کے خاندان کے
نام بھی سامنے آئے تھے۔پریشانی کے عالم میں دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا اور
ایک دفعہ پارلیمنٹ میں عوام کے سامنے صفائی پیش کی۔ پارلیمنٹ میں بیان دیا’’
جناب اسپیکر یہ ہیں ہماری آمدنی کے ذرائع‘‘مگر جب اپوزیشن کے دباؤ پر مقدمہ
قائم ہوا تو آمدنی کے ذرائع کی منی ٹرائیل نہ پیش کر سکے ۔سپریم کورٹ کے
پانچ معزز ججوں نے پہلے سیاست سے ہمشیہ کے لیے نا اہل قرار دیے گئے ۔ پھر
کورٹ میں منی ٹرائیل نہ پیش کرنے پر سزا کے مستحق ہوئے۔فیصلہ خلاف آنے پر
پر پاکستان کی عدلیہ اور فوج کے کے خلاف سارے ملک میں ہنگامہ بر پاہ
کیا۔کہا ’’مجھے کیوں نکالا گیا‘‘۔ ذرئع کہتے ہیں آپ نے خود سپریم کورٹ سے
کہا کہ مقدمہ سن کرفیصلہ دیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
ہوئے۔جب فیصلہ آپ کے خلاف آیا تو پھر طیش میں آکر ملک کو داؤ پر لگا
دیا۔ذرائع تو یہاں تک کہتے سنے گئے کہ ایک شخص جو اپنی ملک کی فوج کے خلاف
سازش کرے، پاکستان کا ازلی دشمن بھارت، پاکستان میں دہشت گردی کر کے اسے
ختم کرنے کے اعلانیہ دھمکیاں دے، اس دہشت گرد موددی اور را کے چیفاجیت دوول
کے ساتھ بغیر قانونی ذرائع کے اپنے گھرجاتی امرا لاہور میں بلاکر اسے تحاف
پیش کرے۔بھارت کے اسٹیل ٹائیکون اور پاکستان کے خلاف اعلانیہ سازشوں کے
تانے بانے جوڑنے والے کو بغیر ویزے پاکستان آنے اور مری میں ملاقات کا
موقعہ دے۔ نہ جانے اس نے دہشت گرد مودی کاکیا پیغام پہنچایا ہو گا۔پاکستان
میں دہشت گردی پھیلانے، دہشت گردوں کوفنڈنگ کرنیوالے ،کراچی اور بلوچستان
کے دہشت گردوں سے رابطے کا ویڈیو میں اعتراف کرنے والے،بھارت کی نیوی فوج
کے حاضر سروس کمانڈر رینک کے کل بھوشن یادیو جاسوس جس کو پاک فوج نے رنگے
ہاتھوں رفتار کیا، اس کے خلاف زبان نہ کھولنے۔ اس سارے پاکستان مخالف
اقدامات پر ذرائع کے مطابق پاکستان سے غداری کا مقدمہ بنتا تھا۔ پاکستان کے
شہروں شہر کہتے پھرتے رہے کہ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘۔ ارے بھائی آپ کو کسی
فرد یا ادارے نے نہیں نکالا ۔آپ کے ا ن کالے کرتوں کی وجہ سے، مثل مدینہ
اسلامی ریاست کی نگرانی کرنے والے اﷲ تعالیٰ نے نکالا۔
صاحبو! اور میرے دیس کے عوام، مفکرپاکستان کے یوم پیدائش پر پاکستان کے یہ
حالات ہیں۔کیا پاکستانی قوم کوعلامہ اقبالؒ کی روح سے معافی نہیں مانگنی
چاہیے۔ یہ عہد نہیں کرنا چاہیے اور اس بات عزم نہیں کرنا چاہیے کہ ہم پھر
سے تاریخ پاکستان جیسی تحریک اُٹھا کر ویسے ہی حالات پیدا کر کے ملک میں آپ
ؒاور بانی ِ پاکستانؒ کے وژن کے مطابق مدینے کی اسلامی فلاحی جہادی ریاست
کے قیام کا پرزور مطالبہ کریں گے۔ ایٹمی اور میزائل طاقت والے پاکستان کے
حکمرانوں کو آگے بڑھ مظلوم کشمیریوں کی مدد کرتے ہوئے، بھارت سے اپنی شہ رگ
واپس لنے پر مجبور کریں گے۔اﷲ ہماراحامی ناصر ہو آمین۔
|