علامہ اقبال ؒپر افضل رضویؔ کے تحقیقی مقالے ”در برگِ لالہ وگل“ کی جلد دوم کی تقریبِ رونمائی

پاکستان۔آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف)کے زیرِ اہتمام علامہ اقبال ؒپرافضل رضویؔ کے تحقیقی مقالے ”در برگِ لالہ وگل“ کی جلد دوم کی تقریبِ رونمائی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں یومِ اقبال کے موقع پر منعقد ہوئی۔
رپورٹ: سیّدہ ایف۔گیلانی

آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں یومِ اقبال کے موقع پر پاکستان۔آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف)کے زیرِ اہتمام علامہ اقبال ؒپرافضل رضویؔ کے تحقیقی مقالے ”در برگِ لالہ وگل“ کی جلد دوم کی تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی۔اس تحقیقی کام میں افضل رضوی نے کلامِ اقبال میں شامل تذکرہ ئ نباتات کو موضوعِ تحریر بنایا ہے اور سیر حاصل بحث کرکے موضوع کو منطقی نقطہء نظر سے پیش کیا ہے۔یہ ایک نہایت پروقار تقریب تھی جس میں پاکستان اور آسٹریلیا کے طول وعرض سے دانشوروں، نقادوں اور علامہ اقبال ؒ سے عقیدت رکھنے والوں نے بھرپور شرکت کی۔صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے پروفیسر محمد رئیس علوی نے مجموعی طورپر علامہ اقبالؒ کے فن وشخصیت اور خاص طور پر ان کے خیالات کے عروج اور اس مین وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر ان کے اشعار کے حوالے سے کیا اور کہا کہ آج کی تقریب علامہ اقبال کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے اور اس موقع پر پالف کے صدر افضل رضوی کی ”در برگِ لالہ وگل“ کی رونمائی بھی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت برا کام ہے جو افضل رضوی نے آسٹریلیا میں رہتے ہوئے کیا ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی میئر سٹی آف ویسٹ ٹارنز ’مائکل کوکسن نے کہا کہ مجھے اقبال کو بھی پڑھنے کا موقع ملا اور خلیل جبران کو بھی۔ میں نے دونوں کی شاعری میں بلا کی گہرائی پائی۔یقینا ایسے افراد ہی قوموں کی زندگی بدل دیتے ہیں۔مہمانِ اعزازی’قلم رکنے سے پہلے“،”خاکے کہانیاں“،”بہ زبانِ قلم“کے مصنف اور بقائی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پریس اینڈ پبلک ریلیشنز جناب سید محمد ناصر علی نے”دربرگِ لالہ وگل“ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو سال قبل جلد اول کی پہلی رونمائی میلبورن پھر ایڈیلیڈ اور اس کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں اس کی تقاریب ِ پذیرائی منعقد ہوئیں۔اس کتاب کی جلد اول پر اب تک ستر ماہرینِ اقبالیات اپنے تبصرے رقم کر چکے ہیں اور سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ایک منفرد تحقیقی کاوش ہے۔انہوں نے کہا کہ افضل رضوی سے قبل کسی بھی ماہرِ اقبالیات نے اس پہلو پراس طرح نہ توجہ دی اور نہ ہی اجاگر کیا جس طرح افضل رضوی نے کیا ہے۔ ”دربرگِ لالہ وگل“ کی دونوں جلدیں بقائی یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئیں ہیں۔ چانسلر بقائی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر زاہدہ بقائی نے دوسری جلد پر ایک طویل نوٹ لکھا ہے جس کا حاصلِ کلام ”یہ کام یاد رکھا جائے گا“ ہے۔اس سند کی وجہ جلد اول کی پے درپے تقریباتِ پذیرائی مختلف مقامات اور دو براعظموں میں تبصروں اور رپورٹوں سے ہوئی۔ افضل رضوی کا یہ کام ہر اعتبار سے بڑا کام ثابت ہوا جس کی علمی و ادبی حلقوں میں نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ مقتدر ترین اصحابِ علم و دانش نے اس کو عدیم المثال کارنامہ قرار دیا۔ان حلقوں میں اس خیال کی بازگشت بھی سنی گئی کہ کسی کتاب کی اتنی زیادہ تقاریب ہوئیں نہ اتنے اچھے بولنے اور لکھنے والوں نے اظہارِ خیال کیا۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ افضل صاحب کی عمر کا بیشتر حصہ پاکستان سے باہر گزرا اس کے باوجود نہ ان کی اپنے وطن سے، نہ وطن والوں سے اور نہ اس پاک وطن کی قومی زبان اردو سے محبت کم ہوئی ہے۔چانسلرپروفیسر زاہدہ بقائی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض ہے کہ اس کتاب میں جن ماہرین کی آراء شامل ہیں وہ سب ہی صف ِ اول کے تسلیم شدہ محقیقین ومبصرین ہیں۔

”در برگِ لالہ وگل“جلد دوم پر سیدہ ایف گیلانی صاحبہ نے ایک سیر حاصل مقدمہ لکھا ہے۔ لکھتی ہیں:
”مصنف کے تحقیقی انداز اور اس پر گرفت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں تحقیقی مضامین اور مقالات لکھنے پر ملکہ حاصل ہے اور دورِ جدید کے انداز سے بھی آگاہی ہے۔“

اسی طرح سابق صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی اور اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادپروفیسر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:

”در برگِ لالہ وگل“ اردو زبان اور اقبالیات دونوں کے لیے ایک امتیاز ہے۔ اس مثالی اور
منفرد کام پر بلکہ کارنامہ پر افضل رضوی صاحب ساری اردو دنیا اور شائقین اقبال کے شکریے و استحسان کے حق دار ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر رئیس صمدانی جن کی ساری زندگی کتابوں اورقلم کاری میں گزری ہے۔”در برگِ لالہ وگل“ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ اقبال پر ایک منفرد، پر کشش قابلِ ستائش کاوش و تحقیق ہے جس سے مصنف کی سخن فہمی اور
اقبال شناسی کی بصیرت بھی اجاگر ہوتی ہے۔“

افضل صاحب کے زمانہ طالب علمی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیق خان اپنے شاگردِ رشید کے بارے لکھتے ہیں:
”افضل کاانداز بیان خوب ہے لیکن طرزبیان بہت محتاط۔ مثلاً جہاں کہیں تلمیحات، قرآن اور احادیث
کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بیان کو حقائق پر مبنی ہونے کے ثبوت میں باقاعدہ حوالے سائنسی طرز پر دیے
ہیں۔“

میرے خیال میں کسی استاد کا اپنے شاگرد کی تحریر پر اس طرح کا اظہارِ خیال ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔لاہور یونیورسٹی شعبہ اردو کے پروفیسر عابد خورشید کہتے ہیں:
افضل رضوی کا یہ مطالعہ ایک اورخیال انگیز نکتہ اُبھارتا ہے،جو گہری غواصی کا مظہر ہے۔ نباتات اپنی
مختلف جہتوں میں کس طرح ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں،اور اُن کا یوں مربوط ہونا ہی
دراصل اُن کا باقی رہنا ہے۔ مزید برآں بین السطورجمالیاتی پہلو بھی اِس کتاب کے مطالعہ میں اہمیت
کا حامل ہے،جس میں تخلیقی عمل اپنی تمام تر پُراسراریت کے ساتھ موجزن ہے۔۔۔اقبالؔ ایسا عظیم
شاعر کن حوالوں کوباہم مربوط کرنا چاہتا ہے اُس کی گرہ تک پہنچنے کی کوشش اِس کتاب میں زیریں
سطح پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے اور یہ غیرمعمولی کارنامہ ہے جسے افضل رضوی نے بخوبی انجام دیا ہے۔“

سید ناصر علی نے مزیدکہا کہ افضل رضوی کے مزاج اورعمل میں پیہم جستجو ہے، تحقیق کی لگن ہے اورتجزیہ کرنے کی صلاحیت سے خالقِ خائنات نے انہیں مرصع کیا ہے۔ انہوں نے ودیعت کردہ اور اکتسابی صلاحیتوں سے کام لیا اور دنیائے علم وادب میں افضل ہوگئے۔کیونکہ افضل صاحب نے علامہ اقبال کے کلام میں نباتات کے ذکر کی نشان دہی کے ساتھ ان کو اشعار میں لانے کی وجہ، ان نباتات کے خواص، استعمال اور افادیت کا کوئی پہلو اجاگر کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، اس لیے وہ افضل ہیں اور افضل رہیں گے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصنف ”در برگِ لالہ وگل“ افضل رضوی نے کہا کہ علامہ اقبال کا کلام درحقیقت قرآنِ پاک کی تفسیر ہے اور میرا یہ کام میری زندگی کے کئی مہہ وسال کی محنتِ شاقہ کا نتیجہ ہے۔ تقریب سے جناب رانا شاہد جاوید، مصدق لاکھانی، ڈاکٹر ظفر اقبال ظفراور ڈاکٹر الیاس شیخ نے بھی خطاب کیا۔

 

Syeda F GILANI
About the Author: Syeda F GILANI Read More Articles by Syeda F GILANI: 38 Articles with 63529 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.