آج ۹نومبر کے دن دو واقعے رونما ہوئے۔ ایک بابری مسجد کے
متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ اور دوسرا پاکستان میں کرتار پور رہداری
کا افتتاع۔ بابری مسجد جسے سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیرالدین بابرنے ہندوستان
اجودھیہ میں تقریباًچھ سو برس قبل تعمیر کیا تھا جو ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء تک قائم
و داہم تھی۔جسے دہشت گردآر ایس ایس کے غنڈوں نے کانگریس کے سیکولر دور
حکومت کے دوران بے دردی سے شہیدکیا تھا۔ بابری مسجد کا مقدمہ بھارت کی
سپریم کورٹ میں داہر تھا ۔ہندوؤں کا دعویٰ تھا کہ بابر نے رام مندر کو
مسمار کرکے یہ بابری مسجد بنائی تھی۔ہندواپنے دعویٰ کو سپریم کورٹ میں ثابت
نہیں کر سکے۔ صرف اتنا ہوا کہ زمین کی کھودائی کی گئی اور کہیں سے کوئی
مورتی برآمند کر کے کہا کہ یہ ثبوت ہے۔اس کے مقابل مسلمانوں کے وکیلوں نے
سپریم کورٹ عدالت میں بیان دیا کہ دنیا میں کہیں بھی کھودائی کی جائے اور
کچھ نہ کچھ بر آمد ہوسکتا ہے جس کی بنیاد پر انصاف نہیں ہو سکتا۔ سب سے بڑا
ثبوت تو یہ ہے کہ بابری مسجد اجودھیہ میں زمین پرچھ سو سالوں سے موجود ہے۔
اس میں مسلمان نماز پڑھتے رہے ہیں۔ یہ ثبوت بھاری کہ زمین کھود کر مورتی بر
آمد ہونے کا ثبوت۔ سپریم کورٹ نے بھی مانا کہ واقعی مسجد موجود تھی جسے
مسمار کیا گیا۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود ہندو عقائد کی بنیاد پر
فیصلہ سنایا گیا۔ اس لیے کہ ججوں کے بھی یہی عقائد ہیں۔سپریم کورٹ نے ۹نومبر
کو متعصبانہ فیصلہ سنا کرمسلمانوں کی ملکیت بابری مسجد کی ساری زمین
کوہنددؤں کے حوالے کر دی۔ ہنددؤں کو اجازت دے دی کہ وہاں رام مندر تعمیر کر
لیں۔مسلمانوں نے اپنے مطالبات کم از کم کرتے ہوئے بابری مسجد کی زمین میں
سے جو ان ہی کی زمین ہے، صرف ۵ ؍ ایکڑ مانگی تھی تاکہ شہید کی مسجد کی جگہ
پھر سے مسجد تعمیر کر لیں۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارت میں ایک ہی جگہ ایک
طرف مندر اور دوسری طرف مسجدہوتی اور کم از کم نام نہاد بھارتی سیکولر
جمہورت کاچہرا روشن ہوتا۔مگر ہٹلر جیسی قوم کی برتی والے بھارت سے ایسی
امید کہاں ہو سکتی ہے۔بھارت کے مسلمانوں نے اپنے تحفظات کے ساتھ سپریم کورٹ
کے فیصلے کو مانا۔ مسلم وقف بورڈ نے اس فیصلہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
سیداسدلدین اویسی ایڈوکیٹ صاحب نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے
کیا خوب کہا۔ گوکے بھارت کے حکمرانوں نے مسلمانوں پر ترقی کے راستے بند
کرکے بھارت کی غریب تریں اقلیت بنا دیا ہے۔ مگر پھر بھی مسلمان گئے گزرے
نہیں کہ آپ سے اجودھیہ میں کسی دوسری جگہ ۵ ؍ایکڑ زمین کی بھیک مانگیں۔
مسلمان خود زمین خرید کر مسجد بنا سکتے ہیں۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ بھارت کی
سپریم کورٹ نے حقائق کے بر عکس عقائد کی بنیاد پر فیصلہ دیا ہے ۔مسلمانوں
اور ان کے مسلم بورڈ نے اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا۔ اس کے خلاف نظر ثانی
کی درخواست داہر کرنے کا کہا۔اسدالدین اویسی ایڈوکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ
سپریم ضرور ہے مگر غلطی سے مہبرا نہیں۔ہم اپنی نسلوں کو یہ ظلم کی داستان
سناتے رہیں گے کہ بھارت میں ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا تھا۔
بابری مسجد تو ایک طرف وہاں توبھارت کے متعصب ہنددؤں بابری مسجد کے علاوہ
بھارت کی کئی مساجد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ مندر کو توڑ کر بنائی گئیں
ہیں۔بھارت میں مہم چلائی ہوئی ہے کہ مسلمان حکمران ڈاکو تھے۔ اگر مسلمان
حکمران ڈاکو تھے تو پھر آریہ جو وسط ایشیا سے آئے تھے وہ بھی تو ڈاکو تھے
جو اب بھارت کے حکمران ہیں۔ ہٹلر کی پالیسی پر چلنے والے ہنددؤں کے مطابق
تو پھر ساری دنیا کے حکمران ڈاکو تھے جو دوسرے ملکوں پر قبضے کرتے رہے۔ سب
سے بڑا ڈاکو دہشت گرد نریندر موددی ہے۔کیونکہ اس نے مسلم ریاست کشمیر پر
ڈاکا ڈال کر اسے بھارت میں ضم کر لیا۔مسلمانوں میں سے طارق فتح نام کا ایک
منافق ،متعصب ہنددؤں کو مل گیا ہے۔ جو زی ٹی وی پر اس کا پرچار کرتا رہتا
ہے۔ بھارت کے علماء نے اسے اسلام سے خارج کر دیا ہے۔آ رایس ایس کے لیڈر نے
بیان دیا ہے کہ بھارت کے مسلمان اور عیسائی کو۲۰۲۰ء تک ہند بنا لیا جائے
گایا پھربھارت چھوڑ جائیں گے۔ بھا رت میں ہنددؤں کے ہجوم کسی بے گناہ
مسلمان کو پکڑ کر’’ جے رام‘‘ کے نعرے لگواتے ہیں ورنہ شہید کر دیتے
ہیں۔گائے کا گوشت کھانے کے شک کی بنیاد پر دہلی کے قریب ایک مسلمان کو شہید
کر دیا گیا۔ جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا اس کے فریج میں بکرے کا گوشت رکھا
تھا نہ کہ گائے کا۔ بھارت میں مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔یہ
وہی پالیسی ہے جس کے تحت آریوں نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد ہندوستان کی
قدیم قوم داراوڈوں پر ظلم اور تشدد کر کر کے انہیں شودر اور نیچ قومیں بنا
دیا گیا۔ یہ پالیسی اب مسلمانوں پر آزمائی جا رہی ہے۔اب یہ بھارت کے
مسلمانوں پر ہے کہ وہ سیکولر کے جادو میں ہی رہنا چاہتے ہیں یااسلام کے
جہاد کے اصول پر عمل کر کے بھارت میں عزت سے رہنا چاہتے ہیں یا شودر بن کر۔
دوسری طرف اسی دن ۹ نومبر کو مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عمران خان نے
گرودوارا کرتار پور کا افتتاع کیا۔مودی نے مبارک باد تودی مگر اے کاش اس کا
بھی رویہ مسلمان اقلیتوں سے بہتر ہوتا۔ بھارت سمیت ۱۲ ؍ہزار کے قریب سکھ
دنیا ۷۰ ملکوں سے کرتار پور گرودوارا کی یاترا کے لیے تشریف لائے ۔
گرودوارا کرتار پورو سکھ مذہب کے بانی باباگرونانک کی جنم بھونی ہے۔
گروناناک کی پیدائش ننکانا شریف میں ہوئی ۔بابا گرو ناناک نے کرتار پور میں
۱۸سال گزارنے کے بعد وفات پائی تھی۔جہاں پرسکھ یاتریوں نے پاکستان میں آ کر
سکھ چین محسوس کیا۔ گیار ماہ کی قلیل مدت میں کرتار پو رہداری مکمل کی۔
کرتار پور کمپلکس کو مکمل کیا۔۷۲ سال سے سکھ بھارت کی سائڈ سے دوربین سے
کرتارپور کا نظارہ کیا کرتے تھے۔اب وہ پیدل چل کر یاسواری سے چار کلومیٹر
کا سفر طے کرکے کرتارپور پہنچ سکتے ہیں۔ کرتار پور گرودوارا پہلے چار (۴)ایکڑ
زمین پر تھا۔ حکومت پاکستان نے بتالیس(۴۲) ایکڑ زمین اپنی طرف دے کر دنیا
کا سب سے بڑا گرودوارا بنا دیا۔ یہ ہے مسلمانوں کا اپنی اقلیت کے ساتھ رویہ۔
پاکستان کے سارے گرودواروں کی مکمل دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ عمران خان نے
پاکستان میں چار سو مندروں کی لسٹ بھی تیار کی ہے جن کی ضروری مرمت کی جائے
گی تاکہ ہند اقلیت بھی پاکستان میں اپنی مذہبی روسم آرام، سوکھ چین سے ادا
کر سکیں ۔مودی صاحب آپ کا دماغ کب وسعت پذیر ہو گا۔حکومت پاکستان نے ۹؍
نومبر کے افتتاع کے دن اور باباگرونانک کی پائنچ سو پچائیسوں(۵۵۰) سالگرہ
کے موقعہ پر بیس(۲۰) ڈالر کے سروس چارجز بھی معاف کر دیے ہیں۔ پاکستان نے
پہلے بھی ۲۰۰۳ء میں کرتارپورگرودوارے کی مرمت کروائی تھی۔ بھارت سے عمران
خان کے دوست نجوت سنگ سدھو کریکٹر اور بھارتی پنجاب حکومت کے وزیر، سابق
وزیر اعظم بھارت ڈاکٹرمن مو ہن سنگھ تشریف لائے ہیں۔ اسکورٹی کے ۲۱۵ سی سی
ٹی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔، عورتوں مردوں کے لیے علیحد ہ علیحدہ پانی کے
ٹنک، آرام گائیں اور لنگر خانے تعمیر کروائے گئے ہیں۔نجوت سنگھ سدھونے
عمران خان کو جذباتی انداز میں خراج تسین پیش کیا اورکہا کہ چودہ(۱۴) کروڑ
سکھوں کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ آپ کے ساتھ سکھ قوم ایک عظیم معاملہ کرے
گی۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے کہا کہ ایک طرف سکھوں کے
لیے کرتار پور رہداری جو پیار محبت اور رواداری کی مثال ہے اور س دوسری طرف
پاک چین رہداری علاقہ کی ترقی کے شاندار منصوبے ہیں۔ موددی صاحب بھی کشمیر
میں تین ماہ سے زیادہ جاری کرفیو اور سری نگر کی جامع مسجد کو مسلمانوں کے
لیے کھول کر رواداری کاثبوت پیش کرو۔ایک سکھ مقرر نے کشمیری مسلمانوں اور
پنڈتوں پر ظلم کے خلاف بات کی۔عمران خان نے بھی کہا کہ جب میں وزیر اعظم
بنا تو بھارت کو امن و آشتی کا پیغام پہنچایا مگر مودی نے پاک بھارت جنگ کا
سماں پیدا کیا ہوا ہے۔
لڑائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آہیے مل کر خطے سے غربت ختم کرنے پر اتفاق
کریں۔ امن و شانتی سے اچھے پڑوسی بن کر رہیں ۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب آپ
کشمیریوں کو ان کا حق خوداداریت دے کر اپنا وعدہ پورا کریں۔ایک طرف پاکستان
اقلیتوں کے ساتھ اچھا روایہ اور دوسری طرف بھارت میں مسلمان اقلیت ظلم وستم
کا شکار، فرق صاف ظاہر ہے ۔
|