مزارِ مرشد

خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ دہلی شہر کے حقیقی سلطان تھے آپ ؒ کی مجلس روحانی میں گدا گر سے لے کر بادشاہ وقت تک سر جھکائے حاضرہو تا تھا آپ ؒ کے وصال کے بعد اب ان کی مسند پر بابا فرید الدین ؒ رونق افروز ہو چکے تھے آپ ؒ میں اہل دہلی کو خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒکا عکس نظر آتا تھا اہل دہلی خو ش تھے کہ خواجہ قطب الدین ؒ کے جانے کے بعد اُس کے باکمال مرید بابا فرید ؒ اب دہلی شہر کو رونق بخشیں گے لیکن چند دن بعد ہی ایک خاص واقعہ پیش آیا ایک دن آپ ؒ گھر سے باہر آئے تو آپ ؒ کا لا ڈلہ مجذوب مرید’’سر ہنگا ‘‘ درماندگی کی حالت میں سر پر خاک آنکھوں میں آنسو لئے کھڑا تھا ‘ سرہنگا آپ کا دیوانہ مجذوب تھا بابا فریدؒ سے دیوانہ وارعقیدت اور عشق کر تا تھا عقیدت دیوانگی کایہ عالم تھا کہ جہاں سے بابا فرید گزرتے گھنٹوں پہلے اُس راستے پر آکر کھڑا ہو جاتا پھر جہاں پر بابا فریدؒ کے پاؤں پڑتے وہاں کی خاک اٹھا کر اپنے سر آنکھوں اور چہرے پر تبرک سمجھ کر مل لیتا اور ساتھ کہتا مرشد کے پاؤں کی مٹی آسمانی ستاروں سے زیادہ چمک دار اور متبرک ہے ‘ سر ہنگا کا مقصد ہی بابا فرید ؒ سے عشق اور جانثاری تھی ہر چیز بابا فریدؒ پر قربان اور پھر بابا فریدؒ بھی اپنے اِس دیوانے کا بہت زیادہ خیال کر تے پیار سے پیش آتے تھے بابا فرید کی سرہنگا سے محبت کا یہ عالم تھا اگر آپؒ کسی سے ناراض ہو جاتے تو لوگ مجذوب سرہنگا کی سفارش کر اتے جسے بابا فرید ؒ کبھی بھی رد نہ کر تے بلکہ مان لیتے ‘ آج وہی سرہنگا سر پر خاک ڈالے چاک گریبان دروازے پر کھڑا تھا اُس کی یہ حالت دیکھ کر بابا فریدؒ بو لے اے میرے لاڈلے تمہاری یہ حالت کس نے کیوں کی ہے تو مجذوب نے آگے بڑھ کر پاؤں پکڑلیے بلک بلک کر رونے لگااور بار بار ایک ہی التجا اے میرے سلطان اب مُجھ سے آپ ؒ کی جدائی برداشت نہیں ہو تی ہانسی میں تو میں جس وقت چاہتا تھا آپ ؒ کا دیدار کر لیتا تھا لیکن یہاں پر آپ ؒ اتنے رش ہجوم میں پھنس گئے ہیں کہ کو ئی مجھے آپ ؒ کے قریب آنے ہی نہیں دیتا آپ ؒ کی یہ جدائی مُجھ سے برداشت نہیں ہو رہی اِس طرح تو میں مر جاؤں گا یہاں لوگ مُجھے آپ ؒ تک آنے کی اجازت نہیں دیتے مجھے اپنے سے دور نہ کریں بابا فریدؒ نے سرہنگا کو اٹھا یا سینے سے لگایا اور کہا کہ تمہیں میرے سے دور کو ئی نہیں کر سکتا تم میرے ہو اور ساتھ ہی رہو گے پھر بابا فریدؒ نے علان کر دیا کہ میں دہلی چھوڑ کر ہانسی جارہا ہوں یہ اعلا ن اہل دہلی کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا انہوں نے بہت سمجھایا کہ اِس طرح شہر کو ویران کرکے نہ جائیں ہم آپ ؒ کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے تو آپؒ نے فرمایا میں آتا رہوں گا میں آپ ؒ سے دور نہیں رہوں گا حقیقت میں دہلی شہر کے ہجوم اور سیاست بازیوں سے بھی بابا فریدؒ پریشان ہو گئے تھے کہ دہلی میں رہ کر عوام کی حقیقی خدمت اور اصلاح شاید نہ ہو سکے کیونکہ یہاں پر اہل اقتدار کا غلبہ تھا بہت سارے درویش علما ء کرام بھی اپنا رشد و ہدایت کا کام چھوڑ کر اہل اقتدار کی راہداریوں کے جھولے جھلوتے نظر آرہے تھے دہلی شہر کی سیاست کا رنگ اب صوفیا کرام پر بھی چڑھ رہا تھا اِس لیے بابا فریدؒنے اسلام کا نور پھیلانے کے لیے ہانسی کوہی اچھی جگہ سمجھا جہاں پر رشد و ہدا یت کے سلسلے کو احسن طریقے سے چلا سکتے تھے اور نور معرفت کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ لوگ منور ہو سکیں ، 634ھ میں خاتون بیگم نامی عورت سے عقد ثانی کیا شادی کے چند دن بعد آپ ؒ شہنشاہ اجمیر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے مزار پر انوار پر چلہ کشی کے لیے تشریف لے گئے اور وہاں جا کر صندل مسجد کے عقب میں خاص چلہ کیا6محرم الحرام کا اِس جگہ کو عام زائرین کے لیے کھولا جاتا ہے جہاں پر سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ نے چلہ کشی کی تھی چند سال پہلے جب شاہ اجمیر کے خاص کرم اور بلاوے پر احقر فقیر اجمیر شریف گیا تو اپنی گناہ گار آنکھوں سے اُس مقام کی زیارت کی اور خاص کیفیت سرور کو محسوس بھی کیا پھر سلطان الہند کے مزار پر خاص نوافل نمازیں پڑھتے بار بار دعا کر تے پتہ نہیں روز محشر میرا کیا حساب ہو گا کیا حال ہو گا اِس خیال سے آپ ؒ کی جان ہلکان ہو جاتی کئی دن گزر گئے آخر شہنشاہ معرفت خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین اجمیری ؒ کو آپ ؒ کی حالت زار پر ترس آیا اور خواب میں آکر بشارت دی کہ اے فرزند پریشان نہ ہوا انشاء اﷲ روز قیامت تم رحیم کریم خدا کے کرم کے مستحق ٹہرو گے تم پر کرم ہو گا سلطان الہند کی بشارت اور دیدار سے بابا فرید ؒ کو خاص سکون قلب نصیب ہوا ‘ شہنشاہ ِ معرفت خواجہ چشت معین الدین ؒ نے خاص نگاہ کر کے پیکر نور کو اور بھی تابناک کر دیا باطن میں نور کے اور بھی فوارے پھوٹنے لگے آپ ؒ چلہ کشی اعتکاف کے بعد آپ ؒ کے چہرے اور آنکھوں میں خاص قسم کا نور تھا آپ ؒ جس پر بھی نگاہ ڈالتے اُس کا رنگ صاف ہو کر سینہ نور معرفت سے روشن ہو جاتا پھر آپ ؒ ایک خاص مشن کے لیے دہلی تشریف لے گئے اہل دہلی بہت خوش تھے کہ ہمارا مسیحا مستقل دہلی واپس آگیا ہے لیکن حقیقت کچھ اور تھی جن دنوں مرشد کریم جناب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ آسودہ خاک ہوئے اُن دنوں آپ ؒ ہانسی میں تشریف فرما تھے خواجہ قطب الدین ؒ نے حکم فرمایا تھا کہ اُن کے انتقال کے بعد ان کی قبر مبارک کی سطح زمین کے برابر رکھی جائے اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میری قبر زمین کے برابر ہو گی تو شاید کسی اہل نظر کا قدم میرے سینے پر پڑجائے ۔تو میں سعادت سمیٹ سکوں لیکن بابا فرید چاہتے تھے کہ اُن کے مرشدکی قبر کا نشان زمین سے اونچا ہو تا کہ آنے والوں کو قبر کا اندازہ ہو سکے لیکن حکم مرشد پر آپ ؒ اور باقی مریدین خاموش تھے اب آپ ؒ ہر رات مرشد کے قدموں میں بیٹھ کر گریہ زاری کر تے التجا کر تے اے میرے شہنشاہ ؒ آپؒ کے قدموں کی خاک جن کے چہروں پر پڑ ی وہ ولایت کو پاگئے آپ ؒ کی ایک نظر سے لوگ اہل حق ہو گئے مُجھ سے آپ کی قبر کی بے نشانی بر داشت نہیں ہو تی آپ ؒ مُجھ غلام کو اجازت دیں تا کہ میں آپ ؒ کی قبر مبارک کی مٹی کو سطح زمین سے تھوڑی بلند کر دوں کئی راتیں بابا فرید ؒ کی دعائے شب جاری رہی کہ آخر کار ایک دن خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ بابا فرید ؒ کے خواب میں آکر بشارت دیتے ہیں اے فرید ؒ تمہاری گریہ زاری اورالتجاؤں نے مجھے مجبور کر دیا ۔ جاؤ کل عصر و مغرب کے درمیان میری قبر پر مٹی ڈال کر اُس کو اونچا کر دینا بابا فرید ؒ کی آنکھ کھلی تو لگا سارے زمانے کے خزانے مل گئے ہیں چہرے پر خوشی و مسرت اطمینان کا نور پھیلا تھا پھر ایک ایک پل گزرنے کا انتظار کر نے لگے کہ عصر کا وقت آئے اور وہ اپنا کام کریں جیسے ہی عصر کا وقت ہوا تو مٹی لا لا کر قبر پر ڈالنی شروع کر دی مریدوں نے دیکھا تو درخواست کی آپ ؒ یہ تکلیف خود کیوں کر رہے ہیں ہمیں دیں سارے پہاڑ کاٹ کر ریزہ ریزہ کر کے لے آئیں تو بابا فریدؒ بولے آپ لوگ خاموش رہو وقت گزرتا جارہا ہے یہ کام صرف غلام زادہ ہی کر ے گا لوگوں نے شامل ہو نے کی بہت کو شش کی لیکن بابا فریدؒ نے کسی کو بھی شریک کر نا مناسب نہ جانا بار بار جا کر مٹی لاتے قبر مبارک پر ڈال دیتے جسم پسینے میں شرابور کندھے زخمی ہو گئے لیکن آپ ؒ کے جنون عقیدت پیار میں کمی نہ آئی آپ ؒ دیوانہ وار شام تک مٹی ڈالتے گئے پھر رات کو یہ کہہ کر سو گئے کل اِس مٹی کو ہموار کر دوں گا لیکن رات کو پھر مرشد کریم خواب میں آئے اور بولے اے فریدؒ میں نے تمہاری اتنی بات مان لی اب جو ہو گیاوہی کافی اب میری قبر کو ہموار نہیں کر نا اِسی طرح رہنے دیں پھر بابا فریدؒ نے قبر کی مٹی کو نا ہموار رہنے دیابعد میں سنگ مرمر کا جالی دار کپڑا بنوا دیاگیا چند سال پہلے جب مجھے اِس درویش بے نیاز کی قبر پر حاضری کا موقع ملا تو حیران ہوا کہ کیسے کیسے عاجز درویش اِس کر ہ ارض پر آتے رہے اور لوگوں کو ہدایت کا کام کر تے رہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 654086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.