بچے۔۔! ”یہ جنگ و جدل کی باتیں چھوڑ، زمانہ تلوروں کا
نہیں رہا۔ پہلے جنگیں نیزوں تلوارں سے لڑی جاتی تھی، پھر آتشیں اسلحے کا
زمانہ آیا اور آج کل ایٹمی دھمکیاں دی جا رہی ہے۔ جس کے نتاٸج بجز تباہی کے
کچھ نہیں، تو اپنی پڑھاٸی پر دھیان دے چھوڑ یہ احمقوں والی باتیں۔۔“
ہم چونکہ سید ہیں اور جنگجوانہ طبیعت وراثت میں پاٸی ہے۔ اپنی اس طبیعت سے
مجبور ہو کر جنگ کی خواہش، بابا کے سامنے کرتے تو وہ مجھے بچہ مخاطب کر کے
چھڑک دیتے اور میں منہ بسورتا رہ جاتا۔“
اس کمبخت ساٸنس، اور ایٹمی دور نے ہم جیسے بہادروں کو جو میدانِ کارزار میں
بہادری کے جوہر بزورِ بازو دکھانے کا موقعہ ملتا۔ وہ موقعہ بھی چھین لیا جس
کے بدولت بہادرانِ شمشیر شکوہ کناں ہیں۔
"جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہے۔
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا"
آہ۔۔۔۔واٸے حسرت۔! وہ بھی کیا دور تھا، اس دور کی جنگیں بھی کیا خوب تھی۔
کسی لق دق صحرا، یا فلک بوس پہاڑوں کے بیچ، کسی دریا کنارے میدانِ کارزار
سجتا، اور دونوں مخالف فوجیں، جنگی ساز، و سامان کے ساتھ، اور کیل کانٹوں
سے لیس ایک دوسرے کے سامنے ہوتی۔ اور پھر طبلِ جنگ بج جاتا۔
تو یک طرف کے لشکر کا سالار، بمع لشکر، پل پل بہتے قضا کے لمحوں میں الاٶ
کے اُٹھتے شعلوں، جذبوں کو مہندم، خیالوں کو مسمار کرتی انتقام کی تابکاری،
اور قہر ساز کارواٸیوں کی طرح آگے بڑھتا، اور مخالف لشکر پر اعصاب میں
سنسنی دوڑاتے موت کے خوفناک افسانوں، اور جان کے نگار خانوں کو زخم زخم کر
دینے والی بے روک ساحلی ہواوں آندھی مار کی طرح حملہ آور ہوتا۔۔
تو دوسری طرف کے لشکر کا سالار بھی جوابی کارواٸی میں بمع اپنے لشکر صدیوں
کے ہولناک عزابوں، وحشت اور دل فگاری، مایوسی کے صحرا، کوہ و دشت، اور ہوا
کے جھونکوں تک پامال کر دینی والے آتش فشانوں، اور تن کی کمانوں، جسم کے
زاویوں، زیست کے بیچ و خم کو اُدھیڑ دینے والے ستم کے پیلے موسموں اور تازہ
اُترنے والے عزابوں کی طرح حملہ آور ہوتا۔۔
یوں تلوار کی جھنکار میں، فاتح مفتوح کا فیصلہ ہوتا۔ اور ان گنت بہادری کی
داستانیں قاٸم ہوتی، تو فضا زخموں سے چور سپاہیوں کی چیخ، و پکار سے نغمہ
سرا ہوتی تھی۔۔۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ" ساٸنس اور ایٹم بم کے اس پر آشوب دور میں مجھ ایسے
جری بہادر زورِ بازو بہ زریعہ شمشیر دکھانے سے معذور ہیں۔۔
|