شاعرِ مشرق،حکیم الامت، مصورِ پاکستان، دانائے رازعلامہ
محمد اقبال ؒکو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے دیگر تقاریب کے ساتھ ساتھ
پاکستان-آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف) نے آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں ”کل
آسٹریلیا اردو مشاعرے“کا بھی اہتمام کیا جس میں پاکستان اور آسٹریلیا کے
طول و عرض سے دانشوروں اور شعراء نے شرکت کی۔گرین سینیٹر مہرین فاروقی نے
اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ میں نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں فیض
احمد فیضؔ کے اشعار پڑھے اور پھر بعد کی تقریروں میں شاعرِ مشرق علامہ
اقبال کے اشعار پڑھے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مجھے ان سے لگاؤ ہے اور میں
انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتی ہوں کیونکہ ان کی فکر کی بدولت پاکستان
معرضِ وجود میں آیا۔انہوں نے پالف کو آسٹریلیا میں علامہ اقبال ؒکے حوالے
سے تقریبات منعقد کرنے پر مبارک باد بھی دی۔ پروفیسرمحمد رئیس علوی نے
افکارِ اقبال پر روشنی ڈالی اور اپنا کلام بھی سنایا۔مشاعرے کی نظامت صدر
پالف افضل رضوی نے کی جب کہ مصدق لاکھانی نے مشاعرے کی صدارت کی۔مشاعرے میں
دیگر شعرا ء جنہوں نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ان میں ندرت
رفیق،منصور شیخ،بشارت سمیع،ڈاکٹر محسن علی، ڈاکٹر الیاس شیخ،ڈاکٹر ظفر
اقبال ظفر،وحید قندیل،رانا شاہد جاوید،اشرف شاد شامل تھے جب کہ پالف کے
ڈاکٹر جیلانی، ڈاکٹر مفضل، ذکی خان، ارشد درانی، مسز فوزیہ جیلانی، خولہ
سید، حسان خاں، قتادہ محمد، اسما محمد، مسز نازیہ خاں،عاطف مجید اور راقم
الحرو ف میزبانوں میں شامل تھے۔
ناظمِ مشاعرہ نے پالف کا مشن بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنوبی آسٹریلیا کی
پہلی اور واحد علمی، ادبی اور ثقافتی تنظیم ہے جو اردو زبان وادب اور مشرقی
ثقافت کی ترویج واشاعت کے لیے کوشاں ہے۔ افضل رضوی نے کہا کہ ایڈیلیڈ اس
حوالے سے خوش قسمت ہے کہ یہاں باوجود اس کے کہ پاکستانیوں کی تعداد کچھ بہت
زیادہ نہیں لیکن پاکستانی ثقافت اور اردو زبان و ادب سے لگاؤ رکھنے والوں
کی کمی نہیں، تاہم کچھ اہلِ قلم عوام کی نظروں سے چھپے رہتے ہیں لیکن جب سے
پالف معرضِ وجود میں آئی ہے، بہت سے شعراء اس پلیٹ سے اپنے آپ کو متعارف
کراچکے ہیں۔انہوں نے صدرِ مشاعرہ کی اجازت سے مشاعرے کا آغاز کرتے ہوئے
ایڈیلیڈ کے شاعرڈاکٹر محسن علی کو دعوتِ سخن دی جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کے
موجودہ حالات کی پر تاثیر منظر کشی کرتے ہوئے کہا:
اے وادئی کشمیر اے وادئی کشمیر
تو جہد مسلسل کی ابھرتی ہوئی آواز!
برہان کے افکار میں ڈوبی ہوئی للکار
خالدؓ کی شجاعت ہے تو ٹیپوؒ کی ہے تلوار
اے مردِ مجاہد، تیرا اللہ مددگار
ہاں تیرے ہی ہاتھوں میں لکھی ہے تیری تقدیر
اے وادئی کشمیر، اے وادئی کشمیر
تاریخ کے پردے پہ لرزتی ہوئی تصویر
احساس کے چہرے پر سلگتی ہوئی تحریر
ظلمت کے اندھیروں میں ابھرتی ہوئی تنویر
آفاق کے قدموں میں دہکتی ہوئی زنجیر
آزادی انسان کے ہرلمس کی تحقیر
اے وادئی کشمیر اے وادئی کشمیر
ڈاکٹر محسن کا کلام سوز وگداز سے لبریز تھااور انہوں نے حاضرین سے خوب داد
وصول کی۔کشمیر ہی کے ناساز گار حالات اور وہاں کے باسیوں پر ہونے والے ظلم
وستم کو موضوع بناتے ہوئے ندرت رفیق نے اپنے دلی جذبات و احساسات کا اظہار
کچھ یوں کیا:
جل رہا میرا کشمیر
جل رہا میرا کشمیر، میرا چنار
لہو سے رنگیں میرا جہلم، یہ جھیل ڈال
کیا کانوں کے ساتھ دِل پہ بھی پڑی بار
جو نا سنائی دیں میرے نوحے نا میری پُکار
جل رہا میرا کشمیر، میرا چنار
لہو سے رنگیں میرا جہلم، یہ جھیل ڈال
جنت نزیر وادی پہ چھایا خوف کا غبار
سسکتی زندگی یہاں، رقص کرتا موت کا حصار
دہایون سے کونپل آزادی پھوٹنے کا انتظار
سالوں سے آنکھوں میں بسی امید صبح بہار
جل رہا میرا کشمیر، میرا چنار
لہو سے رنگیں میرا جہلم، یہ جھیل ڈال
کیے میرے ٹکڑے اِس پار اور اس پار
پر دلوں کے بیچ کیسے کھینچو گے دیوار
اِس چمن کا پتہ پتہ لہو سے مشک بار
قربان اِس وادی پہ تیرے کتنے جان نثار
جل رہا میرا کشمیر، میرا چنار
لہو سے رنگیں میرا جہلم، یہ جھیل ڈال
ایڈیلیڈسے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور شاعربشارت سمی جو یہاں کے پنجابی
حلقوں میں زیادہ مقبول ہیں۔ان کی شاعری میں مزاح کی جھلک بھی نظر آتی ہے،
وہ کہتے ہیں:
سلفیوں کا دور ہے تصویر کی پذیرائی نہیں
اسی لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور
اس نے کہا تھا مجھے گھر میں رکھ لو
چاہے تصویر سمجھ کے کسی دیوار کے ساتھ
مشورہ مان کے اس کا عمر کٹی پھر ایسے
دن ہسپتال میں گزرے جیسے کسی بیمار کے ساتھ
ایڈیلیڈ کے شاعروں میں منصور شیخ کا نام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے جو ترنم
کو تحت اللفظ پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا کلام بھی درد سے معمور ہے۔وہ کہتے
ہیں:
مجھے مت پوچھیے ان باتوں میں کیا رکھا ہے
میں نے ہاتھوں کی لکیروں کو جلا رکھا ہے
زندگی ایک اشارے کی محتاج نہیں
مجھے ہر سانس نے سولی پہ چڑھا رکھا ہے
چارہ گر رہنے دو، زخموں کو یونہی رسنے دو
ان کی سج دھج نے تو ماحول بنا رکھا ہے
جانے کب دن کے اجالوں کا بدل جائے مزاج
میں نے دن میں بھی چراغوں کو جلا رکھا ہے
اب بھلا کیسا گلہ کیسی شکایت جاناں
تم نے معصوم سا چہرہ جو بنا رکھا ہے
دوستوں کی تو الگ بات ہے منصور سنو
میں نے دشمن بھی کلیجے سے لگا رکھا ہے
منصور شیخ کے بعد میلبورن سے تشریف لائے خوبصورت آواز کے مالک ڈاکٹر الیاس
شیخ کو دعوتِ سخن دی گئی تو انہوں نے اپنی آواز کا جادو جگاکر ایک سما ں
باندھ دیا، ان کا کلام ملاحظہ کیجیے:
یہ نہ سمجھو بہل گیا ہو گا
دل تھا سادہ مچل گیا ہو گا
اتنا حیران ہے کیوں یارِ من
تو بھی دل سے نکل گیا ہو گا
خود اس کی ساخت تھی نہ جانے اب
کس کے سانچے میں ڈھل گیا ہو گا
بہت بیمار تھا وہ شاید اب
کچھ نہ کچھ توسنبھل گیا ہو گا
جنوں میں جس طرح وہ رہتا تھا
اس جبیں سے نہ بل گیا ہو گا
سنا ہے وہ سوختہ سا رہتا ہے
میری شہرت سے جل گیا ہو گا
آہ کتنا گستاخ تھا بیاں اس کا
اس کے منہ سے پھسل گیا ہو گا
وہ اپنی ضد پہ اب بھی قائم ہے
حیف ہم یہ سمجھے بدل گیا ہو گا
لا تعلق رہیں گے اب اس سے
بس یہ سن کے اچھل گیا ہو گا
اگر الیاس بھی تھا محفل میں
پھر سے کہہ کے غزل گیا ہوگا
اور
اب تیرے عشق میں ناکام بھی ہو جائیں تو کیا
بد تو پہلے ہی تھے بدنام بھی ہو جائیں تو کیا
آئینہ ہے وہی بدلے سے نظر آتے ہیں
خاص ہی خاص تھے اب عام بھی ہو جائیں تو کیا
جو حقیقت ہے وہی سامنے آ جائے گی
اپنی باتوں سے وہ گر رام بھی ہو جائیں تو کیا
حسنِ یوسف کی قیمت بھی، خریدار بہت
کون لے گا ہمیں نیلام بھی ہو جائیں تو کیا
اے میرے دوست سمجھنا ہے سمجھ لے ہم کو
نامور تھے کبھی، بے نام بھی ہو جائیں تو کیا
اے خدا تجھ سے ہی امید لگا بیٹھے ہیں
کچھ تو آسان میرے کام بھی ہو جائیں تو کیا
بیوفائی کا گِلا کرتے ہیں الیاس بہت
سامنے ان کے تھے گمنام بھی ہو جائیں تو کیا
میلبورن کے شاعروں میں ایک اور بڑا نام ڈاکٹر ظفر اقبال ظفرؔکا ہے جو اپنی
خوش الحانی میں سرور ِ کائنات کے حضور جب گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہیں تو
سامعین اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔انہوں نے رب ِ کائنات کی حمد
کچھ ان الفاظ میں ادا کی:
رب العالمین عرشِ اولیٰ سے بھی پرے
ضمیرِ واحدہ کے زعم میں ڈوبی ہوئی یکتائیوں میں
کہیں بزمِ ملائک میں، کہیں حوروں کے جھرمٹ میں
کہیں کون و مکاں کی لم یزل تنہائیوں میں
ملائک دم بخود تسبیح اورتصدیق کرتے تھے
امورِ کن فکاں کی ہر طرح تکمیل کرتے تھے
وسبحان الذی کی مستقل ترتیل کرتے تھے
اسے سوجھی کہ وہ اپنی ذات کا اظہار کردے گا
وہ ذوقِ خود نمائی کا کبھی اقرار کردے گا
اورپھر خالقِ کائنات کے محبوب محمد ﷺ کی ثنا کا جداگانہ انداز کچھ اس طرح
سے تھا کہ محفلِ مشاعرہ وجد میں ڈوب گئی۔
تفسیرِ سورہ والضحیٰ یا مصطفی صلی علیٰ
شمس الضحیٰ بدرالدجیٰ یا مصطفیٰ صلی علیٰ
الفاظ بھی، کچھ بھی دے، لکھنے کی بھی توفیق دے
سوزِ دلِ صدیق دے پھر میں لکھوں تیری ثناء
یا مصطفیٰ صلی علیٰ یا مصطفی صلی علیٰ
الحمد سے والناس تک دھڑکن میں تو ہر سانس تک
فکر ویقین احساس تک ہر شے تو ہے تیری عطا
یا مصطفیٰ صلی علیٰ یا مصطفی صلی علیٰ
تو ہی چراغِ رہ گزر منزل بھی تو،تو ہی سفر
یہ مہر ومہ شمس و قمر لیں بھیک میں تجھ سے ضیاء
یا مصطفیٰ صلی علیٰ یا مصطفی صلی علیٰ
شاعری المیہ ہو یا طربیہ سامعین وقارئین پر اس کا اثر ضرور ہوتا ہے اور
طربیہ شاعری چونکہ لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے،اس لیے عوام الناس میں
جلد مقبولیت حاصل کر لیتی ہے۔میلبورن کے طربیہ شاعروں سے وحید قندیل کو
نکال دیا جائے تو باقی کچھ خاص رہتا نہیں۔ وہ خالص طنز ومزاح کے شاعر ہیں
اور اپنے اس اندازِ خاص کی بدولت خاصے مقبول ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ
شعر کہنے کی فیکٹری ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ کہتے ہیں:
مجھ کو کسی نے ستایا تو میں دھرنا دے دوں گا
کسی بات پہ رولایا تو میں دھرنا دے دوں گا
تیل پٹرول گیس جو بھی چاہے کہہ دو
جو کسی نے ڈیزل بلایا تو میں دھرنا دے دوں گا
تمہاری امی بھی کسی آفت سے کم نہیں جاناں
اس کوپھر گھر بلایا تو میں دھرنا دے دوں گا
میرا دامن بھی میرے دل کی طرح صاف ہے
پانامہ کا الزام لگایا تو میں دھرنا دے دوں گا
جو حال پہلے تھا اب اس سے بھی برا ہو گیا ہے
اور تبدیلی میں پھنسایا تو میں دھرنا دے دوں گا
میلبورن میں پاکستانیوں کی پہچان اور ”پہچان انٹرنیشنل“ کے سربراہ اور ایس
بی ایس ریڈیو اردو سروس کے سابق ایگزیکٹو پروڈیوسر رانا شاہد
جاوید”اردوزبان“کی ترویج و اشاعت کے لیے میلوبورن میں بھر پور کام کر رہے
ہیں۔وہ ہر سال میلبورن میں مشاعرے کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں معتبر
شعراء اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔ان کا نمونہ کلام دیکھیے:
اپنی ہی قید میں رکھو دوست
اب کہاں جائیں گے رہا ہو کر
آؤ آج پھر سے خفا ہو جائیں
کیا خوب لگتے ہو تم خفا ہو کر
اے مہرباں ذرا سنبل کر بات کرو
لفظ معانی دیتے ہیں ادا ہو کر
سڈنی کے شعراء میں اشرف شادؔکا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ شاعربھی
ہیں، ناول نگاربھی اور صحافی بھی۔ان کی سولہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ان کے
پہلے ناول ”بے وطن“ کو1998 ء میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے
بہترین ناول کاوزیراعظم ادبی ایوارڈ مل چکا ہے۔اس کے بعد ان کے چار ناول
”وزیراعظم“، ”صدرِ محترم“، ”جج صاحب“ اور ”بی اے رستم:ٹی وی اینکر“ شائع ہو
چکے ہیں۔اشرف شاد ایس بی ایس آسٹریلیا کی اردو سروس کے پندرہ سال تک سربراہ
رہ چکے ہیں۔ان کا کلام ملاحظہ ہو:
طوفان ہے بھنور ہے کوئی ساحل ہی نہیں ہے
دل لینے پہ کوئی یہاں مائل ہی نہیں ہے
میں جان ہتھیلی پہ لیے ڈھونڈ رہا ہوں
اس شہر میں لیکن کوئی قاتل ہی نہیں ہے
غزل
کیا سانحہ ہوا ہے کوئی بولتا نہیں ہے
ہر شخص چیختا ہے کوئی بولتا نہیں ہے
کیا سماعتوں میں کوئی فرق آ گیا
بولے تو لگ رہا ہے کوئی بولتا نہیں
تم نے کہا تھا سب ہیں اذیت میں مبتلا
میں نے یہ سنا ہے کوئی بولتا نہیں
وہ پیڑ جس کا سایہ سب پر دراز تھا
دیمک نے کھایا ہے کوئی بولتا نہیں
پروفیسر محمد رئیس علوی اردو ادب کا ایک نہایت معتبر نام، آپ خاص طور پر
پاکستان سے مشاعرے میں شرکت کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے علامہ
اقبالؒ کے فن و شخصیت پر سیر حاصل تقریر بھی کی اور اپنا کلام بھی سنایا۔
ذیل میں ان کی ایک نظم اور اور غزل درج کی جارہی ہے۔ حاضرین نے ان کے کلام
سے خوب حظ اٹھائی:
متاعِ آبرو لے کر عطا سے کچھ نہیں ہوتا
بہا ہو خونِ دل تو خونبہاسے کچھ نہیں ہوتا
مزاجِ دل بگڑ جائے تو پھر اے مہرباں سنیے
جفا سے کچھ نہیں ہوتاوفا سے کچھ نہیں ہوتا
سرِ مقتل تمہارے کارنامے سب نے دیکھے ہیں
سرِ منبر بہت آہ و بقا سے کچھ نہیں ہوتا
زبان کھل جائے تو سب بندشیں بے سود ہوتی ہیں
قدم اٹھ جائیں تو زنجیر پا سے کچھ نہیں ہوتا
نظم
جب شہر خزاں میں آئے ہو
کچھ دور چلو تنہا تنہا
کچھ دیر سنو سناٹے میں
کوئی نوحہ پیلے پتوں کا
کہیں تیز ہوا کے ہاتھوں سے
گری سہمی، سوکھی شاخوں سے
کچھ بات کرودھیرے دھیرے
کچھ خاک اڑاؤ رستے کی
کچھ گرد سجاؤ پلکوں پہ
ذرا سر پہ بٹھاؤ ذروں کو
پھر کھولو درد کے بستر کو
پھر اوڑھو چادرزخموں کی
پھر دیکھو اپنے سینہ میں
کوئی سرخ سی کونپل پھوٹی ہے
پھر یاد کریدو یادوں کی
کوئی چنگاری ہے، چمکے گی
پھر اجڑی، سونی گلیوں میں
کہیں ڈھونڈو یار کا نقشِ قدم
جب شہرِ خزاں میں آئے ہو
میلبورن کے شاعروں کا تذکرہ ہو اور محمد مصدق لاکھانی کا نام نہ ہو یہ تو
ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ تو وہاں کے ہر مشاعرے کی جان ہوتے ہیں اور سامعین
ان سے ان کاکلام سننے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔المختصر بہت اعلیٰ پائے کے
شاعر ہیں۔ ان کا نمونہ کلام ملاحظہ کیجیے:
کبھی چراغ کبھی مژدہء سحر جانا
ہمیشہ ہم نے اندھیروں کو معتبر جانا
خوفِ شکستگی میں گرفتار میں بھی ہوں
پتھر کے آئینوں کا طلبگار میں بھی ہوں
فکر کی جنگ میں افکار لڑا کرتے ہیں
میرے بچوں کو قلم چاہئے تلوار نہیں
بلآخر انقلاب آنے لگے ہیں
سوالوں کے جواب آنے لگے ہیں
بلائیں کیوں اترتیں آسماں سے
زمینوں سے عذاب آنے لگے ہیں
اگر ہاتھوں میں کانٹے چبھ رہے ہوں
تو مطلب ہے گلاب آنے لگے ہیں
ابھی تعبیر کے قصے نہ چھیڑو
بڑی مشکل سے خواب آنے لگے ہیں
مصدق پونچھ ڈالو اپنی پلکیں
مناظر زیرِ آب آنے لگے ہیں
ستم کو حق نمائی آج بھی اچھی نہیں لگتی
نہ ہو گر سر تو نیزے کی۔۔۔اچھی نہیں لگتی
کچھ ایسا خوف ہے راتوں کو کھڑکی بند رکھتے ہیں
وگرنہ کس کو گھر میں روشنی اچھی نہیں لگتی
ابھی دل نے ارادہ ہی کیا ہے ہار جانے کا
انا چیخی مجھے بیچارگی اچھی نہیں لگتی
اندھیروں میں ہماری زندگی کٹی ہے کٹ جائے
مگر ہم کو پرانی روشنی اچھی نہیں لگتی
ہمیں تو شہر کی گلیاں بہت آواز دیتی ہیں
مگر اس عمر میں آوارگی اچھی نہیں لگتی
مشاعرے کے اختتام پر مہمانانِ گرامی اور حاضرینِ مشاعرہ کو عشائیہ بھی دیا
گیا نیز سپانسرز میں تعریفی اسناد بھی تقسیم کی گئیں۔
|